۶۹ برس بیت گئے جب آزاد جموں و کشمیر کی
حکومت نے مظفر آباد میں عارضی اقتدار سنبھالا تھا۔اس موقعے پراس عزم
کااظہارکیاگیاتھاکہ یہ آزاد خطہ مقبوضہ کشمیر کی ٓازادی کا بیس کیمپ ہو گا۔
گویا یہ آزاد کشمیرکی کوئی مستقل حکومت نہ تھی‘ بلکہ ایک ایسی’’ جلا وطن ‘‘
انتظامیہ تھی یا عارضی پڑاؤ تھا جس کا اصل کام آزادی کشمیر کی جدوجہد کوتیز
کرنا ‘ جہاد آزادی کے انتظامات کرنا اور حریت پسندوں کو وسائل فراہم کرنا
تھا۔اس حکومت نے طے کیا تھا کہ یہ عارضی بیس کیمپ ہوگا یہاں سے کشمیر کی
آزادی کے لیے کارواں تیار ہوں گے اوریہاں ایسی قوت تیار ہوگی جو بالآخر
غاصب بھارتی فوج کومقبوضہ خطے سے نکال باہر کرے گی۔آزادئ کشمیر کے بیس کیمپ
کا یہ کردار نمایاں کرنے میں حکمرانوں کو بنیادی کردار ادا کرنا تھا۔
بدقسمتی سے آزاد کشمیر کی حکومتیں جلد ہی اس فرض منصبی کو بھلا کر اقتدار
کی رسہ کشی میں باہم دست و گربیاں ہو گئیں۔عارضی حکومت مستقل قرار دے دی
گئی اوراقتدار کی جنگ میں الجھ کرحکمران اور سیاست دان آزادی کی منزل کو
بھلا بیٹھے۔ شروع شروع میں بیس کیمپ کے اس کردار کو تبدیل کرنے پر احتجاج
ہوتا رہا۔آزاد حکومت کویاد دلایا گیا کہ وہ عارضی ہے مستقل بننے کی کوشش نہ
کرے، لیکن رفتہ رفتہ زبان حال سے تسلیم کر لیا گیا کہ آزاد کشمیر نشان منزل
نہیں ‘ خود منزل ہے ۔وہ دینی اور حریت پسندجماعتیں جو غیر سرکاری سطح پر
بیس کیمپ کا کردار اجاگر کرنے کی سعی کرتیں‘سرکاری اہل کاران کی راہ میں
روڑے اٹکاتے تھے ۔اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اگر بیس کیمپ کو’’ بے حس
کیمپ‘‘ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا ۔ آزاد کشمیر کے حکمران اور سیاست دان
انتخابی جلسوں میں آج بھی کشمیر کی آزادی کے نعرے لگاتے ہیں مگر عملاً
آزادی کی جدوجہد میں ان کاکوئی کردار باقی نہیں رہا۔ بلکہ کل تک جو لوگ
آزادی کے چیمپئین بنے ہوئے تھے،آج اس جدوجہد کو ’’ حماقت‘‘ قرار دیتے ہیں۔
۱۹۸۹ء میں مقبوضہ کشمیر سے ہزاروں نوجوان برفانی پہاڑروں کا سینہ چیر
کرآزادی کا سفر شروع کرنے آزاد کشمیرآئے تھے‘تا کہ بیس کیمپ کو اس کا کردار
یاد دلائیں۔یہ وفا شعار لوگ سچے جذبوں کے ساتھ مقبوضہ سے آزاد خطے میں آئے
تھے۔ اسے بیس کیمپ سمجھ کر اوریہ سوچ کر آئے تھے کہ اپنا درد د ل اپنے ہم
وطنوں کے سامنے رکھیں گے ، تو ان کو بھولا سبق یاد آ جائے گا۔ مگرکشمیری
نوجوانوں کا بہتا لہو بھی ان سنگلاخ دلوں کو متاثر نہ کر سکا اور وہ
مصلحتوں اور مفادات کی جنگ میں الجھتے چلے گئے۔ مجاہدین کے پاس کیا تھا کہ
وہ ا ن مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لیے کام میں لاتے،ایک جان تھی سو نذر
کرتے رہے کہ شاید ٹھنڈالہو جوش مارے اور اپنے وطن کے اس بڑے حصے کو دشمن کے
قبضے سے چھڑانے کے لیے اپنا وہ کردار ادا کرنے پر آمادہ ہو جائیں جس کے لیے
یہ بیس کیمپ قائم کیا گیا تھا ۔مگرآزاد خطے کے مقتدر کشمیری لیڈر ٹس سے مس
نہ ہوئے،اس لیے کہ وہ آزادی کے نعرے پر سیاست چمکا رہے تھے اور مظفرآباد کی
کرسی ہی کو منزل سمجھ کر اسی پرراضی و شاکر ہو گئے۔ وہ حریت کشمیر کی ساری
تاریخ فراموش کر چکے تھے۔۱۹۴۷ء سے۴۹ ء تک جب اہل کشمیر نے اپنی قوت بازو سے
یہ علاقہ آزاد کرا لیا اور آزادی کا بیس کیمپ بنادیا۔ ان کو جنگ ستمبر بھی
یاد نہ تھی کہ جب ۱۹۶۵ ء میں کشمیر کی خاطر مسلح گوریلا جہاد کا آغاز کیا
گیاتھا جو بعد میں د و ممالک کے درمیان گرم جنگ بن گئی اور پھر اس جنگ سے
معاہدہ تاشقند برآمد ہوا۔ پھر ایوب خان کی فوجی آمریت ایک شرابی اور ڈکٹیٹر
یحییٰ خان کی آمریت پر منتج ہوئی ۔جس نے اس عظیم اسلامی مملکت کو شراب میں
ڈبو دیا۔ پاکستان دولخت ہو گیا اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی
صورت میں اسلامی تاریخ کا بدترین سانحہ رونما ہوا ۔ اندرا گاندھی نے فتح کے
نشے میں کہا ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار سال کا بدلہ لے لیا اوردوقومی
نظریہ بحر ہند میں غرق کر د یا ۔شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر ایک ہزار سال
تک لڑنے کا اعلان کرنے والے بھٹو جیسے سیاست دان کشمیریوں کو مشورہ دینے
لگے تھے کہ کب تک پہاڑوں کے د رمیان معلق رہو گے،کشمیر کی تقسیم قبول کرلو
اور مظفر آباد میں مجھے ایک گورنر ہاؤس کے لیے جگہ دے دو ‘یعنی جو کچھ ہے
اس پر قناعت کرو اور صوبائی سٹیٹس قبول کرلو۔آزاد کشمیر کی حکمرانی پر
قناعت کرنے والے اسی پر مطمئن ہو جاتے ‘ لیکن کشمیر کے سینے میں حریت کی
دبی چنگاری اچانک سلگ اٹھی۔
۱۹۸۷ء میں مسلم متحدہ محاذ نے مقبوضہ کشمیر میں جمہوری طریقے سے آزادی حاصل
کرنے میں ناکام ہونے کے بعد کشمیری نوجوانوں کو یہ پیغام دیاکہ بھارتی
استبداد سے نجات کے لیے جدوجہد ضروری ہے ۔بیلٹ کی ناکامی سے بلٹ کا کردار
شروع ہوا۔ کم سن نوجوانوں نے ہجرت، جہاد اور شہادت کے سائے میں آزادی کا
حقیقی سفرشروع کیا۔ بلا شبہ مجاہدین کشمیر نے عزیمت اور استقامت کی ایک نئی
داستان رقم کی ۔ ایک لاکھ کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں ۔جذبہ آزادی سے
سرشار کشمیریوں کا عزم توڑنے کے لیے سات آٹھ لاکھ بھارتی افواج نے مظالم
اور ریاستی دہشت گردی کی انتہا کردی‘اس کے باوجود اہل کشمیر آزادی سے کم
پرسمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ بدقسمتی سے اس عزم کو توڑنے کے لیے
پاکستانی حکمرانوں کی سرپرستی میں آر پار مصلحت پسند اور تھکی ہوئی قیادت
کا ایک ٹولہ بھی سرنگوں ہونے کے لیے ہمیشہ تیار رہا ۔ مقبوضہ کشمیر ہو یا
بیس کیمپ ، اس ٹولے نے ہمیشہ ’’اقتدار‘‘ کا ساتھ دیا ۔شیخ عبداﷲ نے جس طرح
سادہ لوح کشمیریوں کو اپنی چالاکی سے ڈی ٹریک کیا ۔ اس کی باقیات نے آر پار
کی قیادت کو بھی رام کر لیا۔ہجرت کرنے والے اور یہاں پر پہلے سے بسنے والی
ربع صدی کے بعد ’’ ایک جیسے ‘‘ ہو گئے۔جو لوگ ہجرت کر کے بیس کیمپ کو جگانے
آئے تھے وہ خود یہاں آ کر خواب خرگوش کے مزے لینے لگے ۔ انہوں نے پہلے پہل
تو ان لوگوں کو طعنے دیے جو۱۹۴۷ء یا ۱۹۶۵ء میں ہجرت کر کے بیس کیمپ آئے تھے۔
انہیں سخت سست اور مادہ پرست قرار دینے کے بعد خود بھی اسی رنگ میں رنگ گئے۔
آج انہیں یہاں آئے ہوئے ۲۶ برس ہو گئے وہ بیس کیمپ کو بدلنے کے بجائے خود
بدل گئے۔
کشمیری لیڈر شپ میں سبھی دودھ کے مجنوں نہیں، اہل اخلاص کی بھی کمی نہیں‘
لیکن اقتدار و اختیار پر دونوں طرف ایمان و ضمیر سے محروم لوگ قابض
رہے۔خصوصاً بیس کیمپ میں اقتدار کے پجاریوں اور پاکستانی حکومت کے
خوشامدیوں ہی کواقتدار ملتا ہے ۔ان کو تحریک آزادی کی زندگی یا موت سے کوئی
دلچسپی نہیں۔گزشتہ انہتر برس سے یہی ٹولہ بیس کیمپ پر قابض رہا ہے ،اسی نے
بیس کیمپ کو اس کا کردار ادا کرنے سے محروم رکھا ہے ۔یہی ٹولہ کشمیر کی
آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔کشمیر کی تحریک آزادی کو زندہ رکھنا
ہے تو آزاد خطے کے بیس کیمپ کی تجدید کرنی ہو گی۔اقتدار غیر ملکی مفادات کے
محافظوں،خوشامدیوں اور طفیلیوں سے چھیننا ہو گا۔مقبوضہ کشمیر میں حکومت
آزادی سے پہلے نہیں بدلی جا سکتی،مگر آزاد کشمیر کو توجھوٹی، مصنوعی اور
بدعنوان قیادت سے پاک کرایا جا سکتا ہے۔وہ لوگ جو کشمیر کی تحریک آزادی سے
وابستہ ہیں،تعداد اور صلاحیت میں کم نہیں ‘بس قوت اور جوہر کو بروئے کار
لانے کی ضرورت ہے ‘ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ۔اس سے پہلے کہ نئی نسل
کے نظریات تبدیل کر دیے جائیں،ذہنوں سے یہ سوچ کھرچ دی جائے کہ اب کشمیر
کبھی آزاد نہیں ہو سکتا۔اس سے پہلے پاکستان کی بزدل،آزاد کشمیر کی بدعنوان
اور مقبوضہ خطے کی جعلی قیادت سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔کشمیر کی آزادی کے
لیے ڈرپوک لیڈر کام نہیں آئیں گے۔آج ہمیں بے خوف اور بے لوث قائد کی ضرورت
ہے،ایسی قیادت کی ضرورت ہے جوموت سے نہ ڈرتی ہو۔
بیس کیمپ میں اقتدار کی جنگ شروع ہو چکی ہے ۔ اس ’’ جنگ ‘‘ میں اصل امتحان
اس ووٹر کا ہے ہو کشمیر کی آزادی کا درد اپنے جگر میں رکھتا ہے اور ووٹ کا
درست استعمال کرنا چاہتا ہے۔لیکن ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے اس کا سامنے
قبیلہ برادری آن کھڑی ہوتی ہے۔ |