ہندوکوہندوہونے پرفخرہے،سکھ اپنے سکھ ہونے
پرنازکرتا ہے ،یہودکواپنی یہودیت پرگھمنڈہے اوراب عیسائی اپنی عیسائیت
مسلمانوں پرغالب کرنے کی فکر میں ہیں اورایسے میں ہم مسلمان اپنی قوتِ
ایمانی چھوڑرہے ہیں اورادیانِ عالم میں اپنی بے بسی کارونارورہے ہیں۔شائداس
دنیا میں ہم ایسی کم مائیگی کاشکارہیں جس کی اجازت ہمیں دین اسلام نہیں
دیتا۔سبب اس کایہ ہے کہ ہماری عقل ودانش''امریکی وافرنگی''ہے اورہم ہندومت
کے مطابق اپنے روزوشب گزار رہے ہیں۔چند پراگندہ ذہن کے لوگوں نے ہم ہندی
روایات میں ڈوبے ہوؤں کوباقاعدہ''زنار''پہنا دی ہے۔ ان کے قلم کے منہ میں
اللہ اللہ ہے اوردل میں رام رام کاراگ بساہواہے۔ ان کے اس نام نہاد حسنِ
اخلاق نے ہماری بیباکی دباکررکھ دی ہے،حق سے گریزاور''ظلمتوں''سے محبت
ہماراوطیرہ ہوگیا ہے اورہم اپناتشخص ہی نہیں اپناثبات بھی کھوچکے ہیں۔
ان حالات میں رسولِ خدامحمد مصطفیٰۖ کی طرف مدد کیلئے بڑھنابہت ضروری ہے کہ
پھراسی رحمتِ عالم کی بدولت ہماری جھوٹی زناریت اورغلیظ رنگ
امریکیت،بدبودارافرنگیت ہمارے خاکی پتلے سے نکل جائے اورہم میں بقول حفیظ
جالندھری'' قوتِ اخوتِ عوام''پیداہوجائے۔جس پھندے میں آج کل پھنسے ہوئے ہیں
اس سے باہرنکلنااتناآسان نہیں،باقاعدہ ایک گروہ نے برسوں کی محنت سے ہمیں
اس دام میں پھنسایاہے۔آج ہم تختۂ دارپربھی انہی کے راگ الاپ رہے ہیں جنہوں
نے ہمیں ذہنی طورپربے سروساماں کر کے موت کی اس وادی میں اتاراہے ۔ہم
ناسمجھ بھی نہیں لیکن ایک نشے میں ڈوبے ہوئے ہیں اوروہ نشہ ہے دولت مندی
یادولت مندی کی خواہش کا،جس کے پیچھے گناہوں کی ہوس کاری ہے۔دین پرغضب ٹوٹے
یادین داروں کے گلے کاٹے جائیں، ہمیں اس سے کوئی دکھ نہیں ہوتا،ہوس کسی
اچھے خیال کو دل میں آنے ہی نہیں دیتی۔یہ وہ زمانہ ہے جس کے بارے میں زبانِ
مخبرِ صادق محمد ۖسے یہ ارشادِ برحق ہوا تھاکہ''ہر امت کیلئے ایک فتنہ ہے،
میری امت کیلئے فتنہ دولت ہے۔‘‘
یہ فتنہ کہاں سے آیا،لبرل ازم سے اورلبرل ازم تقلید سے پیداہوا۔جب تک تقلید
دین کے تابع رہی،اس نے کچھ فائدہ ہی دیااورجب مخالفین اورمنافقین کی کوششوں
سے تقلیددین کی گرفت سے نکل گئی توتقلید کے آسیب نے اپنے دانت دکھانے شروع
کر دیئے۔قمیضوں کے کف ہتھکڑیاں بن گئے،کالر صلیب کی طرح مصلوب کرنے
لگے،پتلونوں کے پائنچے بیڑیاں بن گئیں،زبان غیر ملکی زبان نے کھینچ
لی،آنکھوں کورنگارنگی نے اندھاکردیا،کانوں میں بہرہ کرنے والی دھنیں سما
گئیں،لباس نے بدن کوننگاکردیااورہمارے پاؤں مداری کے اشاروں کے پابندہوگئے
توپھرہم،ہم نہ رہے،ہمیں آگ اور دھوئیں نے اپنی لپیٹ میں لے لیااورہم دولت
کے پجاری بن کرنامرادرہ گئے ''نہ خدا ہی ملانہ وصالِ صنم''کی حیثیت میں اب
ہم دولت کے نشے میں غرق بے کھدی قبروں میں پڑے ہیں ،جومرتاہے اس کاجنازہ تک
نہیں اٹھاتے۔
اس حالت پربے رحموں کوکیارحم آئے گا۔خودہم اپنے آپ پررحم نہیں کھاتے۔ لمبی
چوڑی تقریروں کے پیچھے جاہ طلبی جس کادوسرانام دولت پرستی ہے ،اسی کے نشے
میں چور ہیں اوردلوں میں یہ خواہش چھپی ہے کہ''عمرمٹی کی بھی ملے تورواہے
شباب میں''اوربس نہ خدایاد،نہ عاقبت کاخوف،بڑھاپے کو بھی جوانی کے رنگ میں
رنگنے والے کسی بات سے نہیں ڈرتے۔دولت کے پجاریوں کولکشمی دیوی کے سواکچھ
نظر ہی نہیں آتااورلکشمی کوپوجنے والوں کودنیااورمافیہا کاکچھ خیال نہیں
ہوتا ۔یہ کیادھرالادینیت کاہے جوہماری عقل وہوش کی دنیاپرغالب ہوگئی
ہے،جودانش افرنگ اورزناریت کی پیداوار ہے، یہ دوردورِعذاب ہے کہ ناکردہ
گناہوں کی سزادی جارہی ہے اورہم میں اتنا شعوربھی باقی نہیں کہ اس بے جرم
سزادینے کے خلاف کوئی احتجاج کر سکیں۔ایک بندکمرے میں ہیں اورخودکوچھپارہے
ہیں اورظالموں کے کارندے ہمیں ڈھونڈڈھونڈکرایذامیں مبتلاکئے ہوئے ہیں۔اس
حقیقت سے جوعنقریب ظاہر ہوگی،غافل ہیں کہ جوآج ہمیں ہماری بے گناہی کی
سزادے رہا ہے وہ کل اپنوں کوپٹوانے والوں کوناقابلِ اعتبارسمجھ کران کوبھی
سزادے گا۔آج کی سزاکاٹنے والے تو سزا کاٹ ہی رہے ہیں،کل کوجوہونے والاہے
اورجن کی آج کے ''ہمدردوں''کوسزاملنے والی ہے،اس کاانہیں ہرگزاداراک نہیں
ہے ۔وہ خوش ہیں کہ ہم نے قوم زندہ کے طاقتوروں کومٹادیا۔جودشمن کے بارے میں
یہ نہیں جانتاکہ تمام دشمن قومیں ملتِ واحدہ ہوتی ہیں اوران کاجوش کسی ہوش
کا پابند نہیں ہوتا اوروہ ساتھی اورغیرساتھی میں تمیز نہیں کیاکرتیں،وہ صرف
جری قوم کے دوستوں اوردشمنوں کے خو ن سے سرخروئی حاصل کرتے ہیں۔ میر
جعفراور میرصادق کی مثالیں موجود ہیں۔دشمن وہی ہیں جنہوں نے ان لوگوں
کواپنے ظلم کاشکاربنایا تھا۔ خیریہ تواپنے آپ سے گلہ ہے لیکن ان گئے گزرے
حالات میں پاکستان کے ایک چھوٹے سے شہرگوجرہ میں ایک عجیب منظردیکھنے کومل
رہاہے جہاں۲۰۰۹ء میں مسیحی برادری کے خلاف مشتعل ہجوم کے حملوں کے نتیجے
میں دس افراد ہلاک اوران کے گھروں اور گرجا گھرکوجلاکرراکھ کاڈھیربنا دیا
گیاتھا، اب وہاں کے مسلمان مکین اپنے گاؤں کے مسیحی برادری کیلئے پہلاگرجا
گھرتعمیرکررہے ہیں۔گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہماری مسجدتویہاں کب سے
موجود ہے لیکن ہمارے عیسائی دوستوں کوبھی حق ہے کہ وہ اسی گاؤں میں ہمارے
سامنے آزادانہ عبادت کر سکیں، اسی لئے ہم اپنی مسجدکے پہلومیں اپنے ہاتھوں
سے گرجاگھرتعمیر کر رہے ہیں۔ جونہی نمازی مسجدسے نکلتے ہیں توکوئی
گرجاگھرکی کھدائی اور دیواریں کھڑی کررہاہے توکوئی ان اینٹوں پرسیمنٹ کالیپ
کررہاہے۔
پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے تشدد اورعدم برداشت کے واقعات روز سامنے
آتے ہیں لیکن ان ہی شورش زدہ علاقوں میں ایسی کمیونٹیز بھی ہیں جو قومیت
اوربرادری کے جذبے کومسلک اورفرقے سے بالاتر سمجھتے ہوئے گوجرہ کے قریب اس
چھوٹے سے گاؤں میں ایسی ہی چھوٹی سی کاوش کر رہاہے جہاں کے مسلمان رہائشی
اپنی محدودآمدنی کی پائی پائی جوڑکراپنے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے
ہمسائیوں کے لیے ایک گرجا گھر اپنے ہاتھوں سے تعمیر کر رہے ہیں۔ان کے حوصلے
بلند ہیں کہ اس بھائی چارے کے جذبے کے ساتھ سینٹ جوزف چرچ کو ایک حقیقت بنا
کردم لیں گے۔اس علاقے کی بڑی پیریش کے پادری فادرآفتاب جیمز کاخیال ہے کہ
گاؤں کے مسلمانوں کاپرخلوص رویہ ،ایثاراور لوگوں میں محبت کے ساتھ رہنے کے
جذبہ نے یہ ثابت کردیاہے کہ یہاں آگ لگانے والے توبہت کم ہیں لیکن آگ
بجھانے والوں کے ایک کثیرتعدادہے۔
اب وقت آگیاہے کہ دولت کاجونشہ ہم پربھرپورطریقے سے چھایاہواہے اورجوبزبان
اقدس ہمارے لئے فتنہ ہے،اس سے بچنے ونکلنے کیلئے ایک ہی معاونت درکار ہے
اوروہ ہے حضورخاتم الانبیاءاوررحمت العالمینۖ سے یہ دعا کرنے کی کہ اس زبوں
حالی میں ہماری مددخودہم سے نہیں ہوسکتی، مولائے یثرب ہی حفاظت فرمائیں
یعنی دل ودماغ لادینیت کا شکارہوکرہم پرعالمِ سکرات پیدا کردے توپھردنیا کی
کوئی طاقت مددگاراورمحافظ نہیں ہو سکتی۔ حضرت علامہ اقبالؒ کے اس شعر میں
جو دعائے دلی ہے،وہی سہارابن سکتی ہے!
تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
میری دانش ہے افرنگی مرا ایمان ہے زناری |