آرمی چیف کا امریکی وفد کو واضح پیغام
(Meher Basharat Siddiqui, )
چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے
بلوچستان میں ہونے والے ڈرون حملے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے
پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور امریکہ سے افغانستان
میں ملا فضل اﷲ اور ٹی ٹی پی کے دیگر مطلوب دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ
بنانے کا مطالبہ کر دیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق آرمی چیف
جنرل راحیل شریف سے امریکی جنرل جان نکلسن اور امریکی خصوصی نمائند ہ برائے
پاکستان و افغانستان رچرڈ اولسن نے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں ملاقات کی۔ اس
موقع پر علاقائی سکیورٹی صورتحال، خصوصاً نوشکی ڈرون حملے کے بعد کی
صورتحال، افغانستان میں امن و استحکام اور بارڈر مینجمنٹ سے متعلق امور پر
تبادلہ خیال کیا گیا۔ آرمی چیف نے بلوچستان میں ہونے والے ڈرون حملے پر
گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی
ہے جس کے باہمی اعتماد، تعاون کے علاوہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں پر بھی
منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کامیاب بنانے اور
پائیدار علاقائی استحکام کیلئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ آپریشن ضرب عضب
میں تمام دہشتگردوں کیخلاف بلاتفریق کارروائی کی جا رہی ہے ، افغانستان میں
عدم استحکام کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا بدقسمتی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے
ملا فضل اﷲ سمیت ٹی ٹی پی کے دیگر مطلوب دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر کارروائی
کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مخالف غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان میں
غیر قانونی سرگرمیوں خصوصاً ‘‘را’’، ’این ڈی ایس‘ کو دہشت گردی کرنے کی
اجازت نہیں دیں گے۔ دہشتگردی کیخلاف مربوط کوششیں اور موثر بارڈر مینجمنٹ
ہی علاقائی امن و استحکام کا واحد راستہ ہے۔ پاکستان کے دورہ پر آئے ہوئے
امریکہ کے اعلیٰ سطح کے وفد نے پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت سے الگ
الگ ملاقاتیں کیں۔ دفتر خارجہ میں بات چیت کے دوران امریکی وفد باور کرایا
گیا کہ ڈرون حملے اور پاکستانی مفادات کی قیمت پر بھارت کے ساتھ قربت
پاکستان امریکہ تعلقات کیلئے تباہ کن ثابت ہوگی۔ دفتر خارجہ میں پاکستان
اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی رچرڈ اولسن ،نیشنل سیکورٹی کونسل کے
ڈائریکٹراور صدر او بی مائے سینئر مشیر برائے جنوبی ایشیا ڈاکٹر پیٹر لیوئے
اور دیگر حکام پر مشتمل وفد نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے مذاکرات
کئے۔مذاکرات میں خارجہ سیکرٹری اعزاز چودھری بھی شامل تھے۔ دفتر خارجہ کے
ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں پاکستان امریکہ تعلقات، 21 مئی کوبلوچستان
میں ڈرون حملہ اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں پاکستان اور بھارت کی شمولیت
اور افغانستان میں قیام امن کی کوششوں سمیت تمام متعلقہ موضوعات پر بات
ہوئی۔ پاکستان کی سویلین قیادت نے امریکی وفد پر واضح کیا ہے کہ نوشکی میں
حالیہ امریکی ڈرون حملے کے بعد دونوں ممالک کے تعقات میں پیدا ہونے والی
سردمہری ختم کرنے کی زیادہ تر ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔ مستقبل میں
کوئی بھی ڈرون حملہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچائے گا۔
نوشکی میں ہونے والے ڈرون حملے سے امن عمل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ سرتاج
عزیز نے کہا کہ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستان، امریکہ اور چین
افغانستان کی حکومت اور طالبان کو مذاکرات کے میز پر لانے کے لیے سنجیدہ
کوششیں کر رہے تھے۔ پاکستان نے امریکی وفد کے سامنے بلوچستان میں ہونے والے
امریکی ڈرون حملے پر نہ صرف سخت احتجاج کیا بلکہ اسے اقوام متحدہ کے چارٹر
کی خلاف ورزی بھی قرار دیا۔جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کہتے ہیں
کہ حکومت امریکی وفد کے ہاتھ قومی عزت و وقار اور خود مختاری کا سودا کرنے
سے باز رہے ۔ہم امریکہ سے دشمنی نہیں چاہتے مگر اپنی آزادی اور خود مختاری
سے دستبردار نہیں ہوسکتے ۔امریکہ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت خطے میں طاقت کا
توازن بھارت کے حق میں کرنا چاہتا ہے ۔امریکی مفادات کی پہرے داری چھوڑ کر
خارجہ پالیسی پر پارلیمنٹ میں سیر حاصل بحث کی جائے اورخارجہ پالیسی کو
قومی امنگوں کے مطابق استوار کیا جائے ۔حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ
پاکستان کو دھوکہ دیا ہے ۔ امریکہ خود کہتا ہے کہ میرے ساتھ دوستی بھی بری
ہے اور دشمنی بھی ۔ہم امریکہ کے ساتھ برابری کے تعلقات چاہتے ہیں۔امریکہ
خطے میں بھارتی اجارہ داری کے جو خواب دیکھ رہا ہے وہ کبھی پورے نہیں ہونگے
۔ حکومت کو بھارت کی این ایس جی کی رکنیت کی شدید مخالفت کرنی چاہئے اور
امریکی وفد کو دوٹوک بتانا چاہئے کہ اگر امریکہ نے بھارت کی سرپرستی نہ
چھوڑی تو خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا جس سے پورے ریجن میں انتشار
اور انارکی پھیلے گی ۔بھارت کے جنگی عزائم کسی سے مخفی نہیں ،اس نے آج تک
ہماری آزادی کو تسلیم نہیں کیا اور کئی بار پاکستان پر حملہ آور
ہوچکاہے،بھارت کسی صورت بھی پاکستان کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ،بھارت
نصف صدی سے زائد عرصہ سے کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہے اور کشمیر پر
بندوق کے زور پر قابض ہے ۔ ہمارا وزیر اعظم ہے اورنہ وزیر خارجہ،پاکستان اس
وقت منجدھار میں پھنسی ایسی کشتی کی مانند ہے جس کا کوئی ملاح نہیں ۔ہماری
خارجہ پالیسی آزادی اور خود مختاری والی نہیں بلکہ ہم ہمیشہ امریکی مفادات
کے محافظ رہے ہیں مگر تاریخ میں پہلی بار یہ ہو رہا ہے کہ ہماری وزارت
خارجہ نے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے امریکہ کی دوغلی پالیسی پر بھر پور
احتجاج کیا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو
اٹھانا پڑا ہے،ہمارے ہزاروں جوان شہید ہوئے اور معیشت کو 100ارب ڈالر سے
زیادہ کانقصان ہوا مگر امریکہ ہمیشہ بداعتمادی کا مظاہر ہ کرتا رہا اورہمیں
نیچا دکھانے اور اسیر بنانے کی سازشوں میں مصروف رہا ۔ امریکی ڈرون حملے
ہماری آزادی پر حملہ ہے جسے کسی صورت بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اب وقت
آگیا ہے کہ امریکہ پر دو اور دو چار کی طرح واضح کردیا جائے کہ اگر ہمارے
مفادات کو زک پہنچی تو ہم سے بھی کسی خیر کی امید نہ رکھی جائے ۔ پاکستان
اورامریکا کے درمیان تعلقات میں تناؤدورکرنے کیلیے حالیہ مذاکرات میں
معمولی پیش رفت ہوئی ہے تاہم پاکستان نے واضح کردیاہے کہ جب تک امریکا
پاکستان کے خدشات اورتحفظات دورکرنے کی یقین دہانی نہیں کرائے گامذاکراتی
عمل کی کامیابی ممکن نہیں ہوگی۔مذاکرات میں دونوں ممالک کے حکام نے اتفاق
کیا ہے کہ مسائل کے حل کیلیے ڈائیلاگ کاسلسلہ جاری رکھاجائے گا۔ مذاکرات کے
اگلے دورخارجہ حکام کے علاوہ وزرائے خارجہ کی سطح پرہوں گے، پاکستان اس
معاملے پرامریکی صدرسے بھی بات چیت کرے گا، پاکستان نے امریکا کے ساتھ
مستقبل میں مربوط تعلقات کی مکمل بحالی اورتعاون کوڈرون حملے نہ کر نے
اورفنڈ کے اجراپرعائد پابندی ختم کرنے کی یقین دہانی سے مشروط کردیاہے۔سابق
صدر آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ پاکستان امریکہ تعلقات ڈگمگاہٹ کا شکار
ہیں، دونوں ممالک کے تعلقات میں تعطل پیدا ہوا تو امریکہ کو نقصان ہوگا،
پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی روکنے کی کوشش سے اختلاف کھل کر
سامنے آگیا ، امریکہ پاکستان کو ایف سولہ طیارے فراہم کرے۔ امریکی کانگریس
کا ایک حصہ پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فروخت روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس کی بظاہر وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ
میں مخلص نہیں۔ میں امریکی سینیٹ کے ایسے ارکان کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ
خود پاکستان آکر دہشتگردی کے خلاف ہمارے عزم کا مشاہدہ کریں۔ دہشتگردی کے
خاتمے کیلئے سب متحد ہیں۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سنیکڑوں
فوجیوں اور ہزاروں شہریوں کی قربانی دی ہے۔ دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں
کا خاتمہ کیا ہے پاکستان کو ضرورت کے مطابق ایف سولہ طیارے نہ دینا انتہائی
نقصان دہ ہوگا۔ اس سے ہماری علاقائی اور عالمی خطرات کے خلاف کارروائیاں
متاثر ہوں گی۔ اس طرح ایسی قوتوں کیلئے راہیں ہموار ہوں گی جو امریکی
مفادات اور اقدار کی حمایت نہیں کرتیں۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں
تعطل کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے خطے میں طاقت کا توازن اور دہشتگردی
مخالف اتحاد متاثر ہوگا۔ پاکستان کیساتھ تعلقات میں تعطل آنے سے امریکہ کا
نقصان ہوگا۔پاکستان دہشتگردی کیخلاف اپنا فرنٹ لائن کردار جاری رکھنے کیلئے
تیار ہے لیکن امریکہ کو بھی جنگ میں کامیابی یقینی بنانے کیلئے اپنا کردار
ادا کرنا چاہیے۔ |
|