بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکا کا
دورہ کیا جس میں مودی نے امریکی صدر اوباما سے ملاقات کی اور امریکی
کانگریس سے بھی خطاب کیا۔مودی اوباما ملاقات میں دونوں ملکوں نے ضرورت پڑنے
پر ایک دوسرے کے فوجی نظام کو استعمال کرنے پر اتفاق کیا ہے، اس ضمن میں
جلد معاہدے کی دستاویز پر دستخط کئے جائیں گے، معاہدے کے بعد امریکہ بھارت
کے فوجی اڈے، سمندری اور فضائی حدود بھی استعمال کر سکے گا، نریندر مودی نے
امریکہ کو یہ بھی یقین دلایا ہے کہ ایٹمی گیس کے اخراج کو روکنے سے متعلق
پیرس میں ہونے والے موسمیاتی سمجھوتے پر اسی سال عمل کیا جائے گا۔ ایک
دوسرے کے فوجی نظام کے استعمال کے معاملے پر اس سے قبل بھی نظریاتی اتفاق
موجود تھا تاہم اب طرفین اس دستاویز کی زبان پر راضی ہو گئے ہیں۔ دفاعی
ماہرین کے مطابق ایک دوسرے کے فوجی اور دفاعی نظام کے استعمال کے معاہدے کی
صورت میں امریکہ کی خطے میں مداخلت میں اضافہ ہو گا اور وہ بھارت کے فوجی
اڈے، سمندری اور فضائی حدود استعمال کر سکے گا اور اس کے بدلے بھارت کو خطے
میں اپنی چودھراہٹ دکھانے کا موقع ملے گا۔ اس معاہدے کا سب سے زیادہ نقصان
ممکنہ طور پر چین کو ہو سکتا ہے۔مودی اوباما ملاقات کے بعدپاکستان کے مشیر
خارجہ کو ہوش آیا اور وہ سچی باتیں کر گئے حالانکہ ڈرون حملوں پر اس سے قبل
رسمی احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔بھارت نے پاکستان میں تخریب کاری کروائی،را کا
افسر بلوچستان سے پکڑا گیا ،دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے واضح
ثبوتوں کے باوجود حکومتی خاموشی معنی خیز تھی اب مودی اوباما ملاقات کے
بعدمشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اعلان کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ایٹمی اور
روایتی طاقت کا توازن قائم رکھنے کیلئے پاکستان اسلحہ کے شعبہ میں
خودانحصاری کی کوششیں جاری رکھے گا۔ امریکہ ضرورت پڑنے پر تعلقات بڑھاتا
ہے۔ ضرورت پوری ہونے پر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ طالبان افغانستان یا کابل پر
قبضہ نہیں کرسکتے لیکن وہ ایک طویل جنگ جاری رکھ سکتے ہیں۔ امریکہ بھارت کو
زیادہ اہمیت دے گا تو جنوبی ایشیا میں سلامتی کا عدم توازن پیدا ہوگا۔ را
کے گرفتار افسر کل بھوشن سے ہونے والی تحقیقات سے اقوام متحدہ اور پانچوں
مستقل ارکان کو آگاہ کیا جائے گا۔ واضح نہیں کہ ملا اختر منصور کو مار کر
امریکہ نے کیا مقاصد حاصل کئے۔ پاکستان جنوبی ایشیا میں تزویراتی و روایتی
توازن برقرار رکھنے کے لئے اسلحہ کے شعبہ میں زیادہ خود انحصاری کے لئے
کوششیں جاری رکھے گا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ مذاکرات ہی تمام تصفیہ طلب
معاملات کے حل کا بہترین راستہ ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے روایتی اور
سٹریٹجک عدم توازن پر پاکستان خطرات سے نمٹنے کے لئے اپنے جوابی ردعمل پر
کسی کا دباؤ قبول نہیں کرے گا۔ بھارت کی امریکہ سے بڑھتی ہوئی قربت ایک
وسیع تر جغرافیائی سیاق و سباق کے تحت ہے لیکن امریکہ کے پاکستان کے ساتھ
تعلقات اب بھی اہم ہیں۔ امریکہ پاکستان کی سکیورٹی کو اتنی اہمیت نہیں دیتا
جتنی دینی چاہئے۔ لیکن اگر بھارت کے ساتھ روایتی یا سٹریٹجک عدم توازن ہوتا
ہے تو یہ امن کے لئے بھی خطرہ ہے ہم امریکہ کو بار بار اس کا احساس دلاتے
رہیں گے۔ امریکہ سے تعلقات غور طلب ہیں پچاس ساٹھ سال میں جب انہیں ضرورت
ہوتی ہے آ جاتے ہیں جب ضرورت نہیں ہوتی تو چلے جاتے ہیں۔ دفاع پاکستان
کونسل کے مرکزی قائدین کا امریکہ بھارتی معاہدات پر کہنا ہے کہ1971ء کی طرح
پاکستان آج بھی شدید خطرات کی زد میں ہے۔امریکہ بھارت سرکار کی سرپرستی کر
کے خطہ کے امن کو برباد کر رہا ہے۔ حکومت پاکستان دونوں ملکوں کے مابین
حالیہ معاہدوں پر خاموشی اختیار نہ کرے بلکہ بین الاقوامی سطح پر امریکی و
بھارتی مذموم عزائم کو کھل کر بے نقاب کیا جائے۔ غیور پاکستانی قوم امریکہ
و بھارت کی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نقصان پہنچانے کی سازشیں کامیاب
نہیں ہو نے دے گی۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل نے پاکستان کو عدم استحکام سے
دوچار کرنے کیلئے خوفناک سازشیں شروع کر رکھی ہیں۔امریکہ کی جانب سے بھارتی
فضائی و سمندری حدود اور فوجی اڈے استعمال کرنے کے معاہدے پاکستان کو نقصان
پہنچانے کیلئے ہیں۔حافظ محمد سعید نے چند دن قبل آبپارہ چوک اسلام آباد میں
دفاع پاکستان کانفرنس میں اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ انڈین ایئربیسز پر
امریکی ڈرون ،طیارے موجود ہیں،اگر انڈیا سے کوئی ڈرون پاکستان آیا تو پھر
انڈیا کے ہر شہر میں ڈرون گرے گا،یہ بات مودی اوباما ملاقات میں سچ ثابت
ہوئی۔ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کا فوجی نظام استعمال کرنے کے خفیہ معاہدے
پہلے سے چل رہے ہیں تاہم ان باتوں کو منظرعام پر اب لایا گیا ہے۔ہم پہلے سے
کہہ رہے ہیں کہ امریکی ڈرون بھارتی ہوائی اڈوں پر پہنچ چکے اور پاکستان کے
ایٹمی پروگرام کو نقصانات سے دوچارکر نے کیلئے سرحدی علاقوں میں میزائل نصب
کئے جارہے ہیں۔ آج یہ سب باتیں درست ثابت ہو گئی ہیں۔ بھارت و امریکہ
پاکستان دشمنی میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔ انہیں پاکستان کا مسلم دنیا میں
مضبوط حیثیت اختیار کرنابرداشت نہیں ہو رہا اس لئے وہ اسے مستقل طور پر
دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں۔امریکہ کی جانب سے بھارت کو نیو کلیئر سپلائر
گروپ میں شامل کرنے کا مقصد پاکستان کو معاشی و دفاعی طور پر کمزور کرنا
ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ مسلم دنیا اور چین کے ساتھ مل کر دفاعی پالیسیاں
ترتیب دے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں شکست کا غصہ پاکستان پر
نکال رہے ہیں اور بھارت کے فضائی اور فوجی اڈے استعمال کر کے پاکستان کے
ایٹمی پروگرام کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ امریکی صدر اوبامہ کی ڈرون حملے
جاری رکھنے کی دھمکیاں اور مودی کے دورہ کے دوران کئے جانے والے معاہدوں سے
ساری صورتحال کھل کر واضح ہو گئی ہے۔ امریکہ بھارت کو اس خطہ کا تھانیدار
بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ مسلمان ملک اس وقت بہت سارے مسائل سے دو چار
ہیں۔اﷲ کے دشمن امت مسلمہ کے خلاف مکروہ منصوبے بنا رہے ہیں اورپھر ان پر
عملدرآمد کرنے میں بھی کسی قسم کے پس و پیش سے کام نہیں لیا جارہا۔پچھلی
تین دہائیوں سے عالم کفر نے اسلام اور مسلمانوں کیخلاف خوفناک جنگ چھیڑ
رکھی ہے۔پاکستان کو بھی ایک مرتبہ پھر مشرقی پاکستان والی صورتحال سے دوچار
کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز پاکستان کے
دفاع کے مسئلہ پر حکومت اور اپوزیشن میں شامل سب سیاسی جماعتیں متحد ہو
جائیں۔اتحادویکجہتی کا ماحول پید اکئے بغیر دشمن قوتوں کے خوفناک منصوبوں
کو ناکام بناناممکن نہیں ہے۔امریکہ جنوبی ایشیاکے خطے میں طاقت کا توازن
خراب کرنا چاہتا ہے۔ایک طرف امریکہ پاکستانی حدود کی کھلم کھلا خلاف ورزی
کرتے ہوئے ڈرون حملے کررہا ہے تودوسری جانب وہ بھارت پر نوازشات کرکے یہ
تاثر دینا چاہتا ہے کہ پاکستان کی سلامتی سے اسے کوئی غرض نہیں۔حکومت
پاکستان کو اس حوالے سے بھرپورانداز میں عالمی سطح پر آوازاٹھانے کی ضرورت
ہے۔ امریکہ اور بھارت میں بڑھتی ہوئی قربت اس بات کاواضح اشارہ ہے کہ
امریکہ جنوبی ایشیامیں اپنی ترجیحات تبدیل کرچکا ہے۔اسے پاکستان سے کوئی
سروکار نہیں ہے۔امریکہ نے ہمیں افغانستان میں اپنی جنگ میں فرنٹ لائن
اتحادی بناکرجتنا کام ہم سے لینا تھا وہ لے لیا ہے۔وہ اب بھارت کو خطے میں
مرکزی کرداردینا چاہتاہے۔ ہمیں ایف سولہ طیارے جن کی قیمت بھی اداکی جاچکی
ہے نہیں دیئے جارہے جبکہ بھارت کو جدیدمیزائل اور ڈرون طیارے خریدنے کی
کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی فوجی قیادت امریکی
غلامی کاطوق گلے سے اتارپھینکے اور ہندوستان کے ساتھ دوستی کے خواب دیکھنا
چھوڑدے۔18کروڑ عوام نے مسلم لیگ(ن)کو مینڈیٹ ملکی عزت،بقاء اور سلامتی کے
تحفظ کے لئے دیا ہے ۔ڈرون حملوں پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی طرح سول
حکومت بھی مضبوط موقف اپنائے،امریکہ کو بتا دیا جائے کہ پاکستان کی سالمیت
و خود مختاری کی خلاف ورزی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔امریکہ و انڈیا
کی دوستی سے زیادہ پاکستان کا دفاع اہم ہے۔دفاع پاکستان کے لئے حکومت و
اپوزیشن سمیت تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں متحد ہوں۔ |