آج کل پاکستان کے امور خارجہ کی کمزوریوں
کا ذکر ہو رہا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ علاقائی اور عالمی سطح پہ پاکستان کی
تنہائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک ہمسایہ ملک چین کے ساتھ گہرے دوستانہ
تعلقات ہیں اور دوسرا بڑا ہمسایہ ہندوستان پاکستان کے ازلی دشمن کے طور پر
موجود ہے۔تاہم افغانستان اور ایران کے ساتھ پاکستان کی دوریاں اور ان ملکوں
کی بھارت کے ساتھ قربت پاکستان کے لئے مہلک خطرات کا موجب ہے۔دوسری طرف
بھارت مغربی ممالک کا اسرائیل کی طرح کا’’ ڈارلنگ‘‘ ملک ہے جس کی تمام مغرب
کی طرف سے بھرپور مدد اور اشتراک نے پاکستان کو عالمی تنہائی کی جانب دھکیل
دیا ہے۔کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی انہی خطوط پر استوار ہے جس کا احاطہ
پاکستان بنانے والے رہنماؤں نے قومی امنگوں کی پاسداری میں کیا تھا؟ یقینا
نہیں۔ہماری اسٹیبلشمنٹ کس طرح سوچتی اور فیصلے کرتی ہے،اگر اس بارے میں
عوام کو آگاہی ہو جائے تو وہ جان جائیں گے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ عوامی
امنگوں کی روشنی میں نہیں بلکہ اس سے متضاد انداز فکر و عمل کو ہی’’
دانشمندی ‘‘ تصور کرتی ہے۔ایسی’’ دانشمندی‘‘ جس نے مملکت پاکستان کے دو
ٹکڑے کر کے رکھ دیئے۔مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق پاکستان کی سفارتی
سرگرمیوں کی کمزوری کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ پاکستان کی اولین ترجیحات میں
مسئلہ کشمیر کہیں نظر نہیں آتا،بھارت سے کشمیر پر جنگ نہ کرنے کا ہمارا
’’عہد‘‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط توہوا ہی ہے لیکن اب مقبوضہ کشمیر
میں بھارتی مظالم پر پاکستان کی طرف سے بھارت کے خلاف سخت روئیے کا اظہار
بھی پالیسی سے خارج معلوم ہوتا ہے۔ہماری اسٹیبلشمنٹ میں ایک سوچ یہ بھی ہے
کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کے قیام کومسئلہ کشمیرنے ’’ یرغمال‘‘ بنا رکھا
ہے۔لیکن ہمارے ’’ دانا ‘‘ پالیسی ساز اس حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں کہ اگر
پاکستان مسئلہ کشمیر سے اعلانیہ طور پر دستبردار بھی ہو جائے تب بھی بھارتی
مذموم عزائم سے پاکستان کی جان نہیں چھوٹ سکتی۔
معروف صحافی سلیم صافی نے انہی دنوں ’’ خارجہ پالیسی کے تضادات‘‘ کے عنوان
سے اپنے ایک کالم میں کہا کہ’’ کشمیر کے محاذ پر ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ ہم
نے بنیادی انسانی حقوق کے مسئلے کو کفر و اسلام کی جنگ بھی بنانے کی کوشش
کی،دوسری طرف ہم اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں سے مددبھی مانگ رہے
ہیں۔کبھی ہم نے مسئلہ کشمیر کو دو ممالک کا مسئلہ بنانے کے ہندوستانی
مطالبے کو تسلیم کیا اور کبھی ہم اس کے عالمی مسئلہ ہونے پر اصرار کرتے
رہے‘‘۔پاکستان کے لئے کشمیر کتنی اہمیت رکھتا ہے،اس بارے میں ان کی طرف سے
کوئی رائے دیکھنے میں نہیں آسکی۔پاکستان کے ایک اور معروف صحافی امتیاز
عالم ’’ بکل کے چوروں کو نکالنے کا وقت‘‘ کے عنوان سے اپنے حالیہ کالم میں
لکھتے ہیں کہ ’’کشمیری القاعدہ اور کشمیری جہاد کا حساب چکانے کو بھارت کو
فقط پیسہ چاہئے اور کرایہ کے قاتل اور افغانستان میں جن کی کوئی کمی
نہیں‘‘۔دوسرے صحافی کشمیر کو محض پاکستان اور بھارت کے درمیان’’ پراکسی
وار‘‘ میں محدود دیکھتے ہیں۔ دیکھ لیں کہ پاکستان کے یہ نامور صحافی کشمیر
کو کس انداز سے دیکھتے ہیں اور یقینا ان پر سرکاری پالیسی کے اثرات بھی نظر
آتے ہیں۔
کشمیر سے متعلق پاکستانی صحافت کی ذمہ داریوں کے کئی رخ ہیں۔ایک کشمیر سے
متعلق حالات و واقعات کو سامنے لانا،کشمیریوں کے حقوق و طویل جدوجہد کی
موثر حمایت کرنا ،کشمیر سے متعلق پاکستان کے قومی مفادات کا ادرا ک کرنا
اور حکومت پاکستان پر اس حوالے سے موثر دباؤ ڈالنا۔کشمیر صر ف بھارت نواز
یا حریت رہنماؤں کا نہیں بلکہ ان کشمیری عوام کی بے مثال قربانیوں اور
جدوجہد کا نا م ہے جن کے عزم غیر متزلزل نے بار بار تحریک کو چلایا اور
سہارا دیا ہے۔یوں چند افراد کی بد کرداری،مجبوری کو مورد الزام ٹھہراتے
ہوئے پاکستان کے میڈیا کو کشمیر کو نظر انداز کرنے کی مہلک غلطی ہر گز نہیں
کرنی چاہئے۔یہ صرف پاکستان کے ایک ادارے کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کی
سلامتی اور بقاء سے مربوط معاملہ ہے۔پہلے ہمارا پریس ہمارے قومی مفادات کا
ادراک اور اس حوالے سے حکومت پر دباؤ رکھتا تھا لیکن پاکستان کے میڈیا میں
کشمیر کو جس طرح داستان عہد رفتہ کی طرح بھلا دیا گیا ہے اس سے کشمیریوں کو
غلط اشارے جا رہے ہیں۔کشمیری پاکستان کی حکومتوں کی کشمیر کے حوالے سے ذمہ
داریوں سے چشم پوشی ،کوتاہی اور غلط پالیسیوں پر یہ کہتے ہوئے مطمئن ہوتے
رہے کہ پاکستانی عوام تو ان کے ساتھ ہیں لیکن جب عوام کی سوچ و فکر کا
ترجمان کہلانے والا میڈیا کشمیر اور کشمیر کاز کو نظر انداز کرتا ہے تو وہ
بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
یہ سازشیں اب بھی جاری ہیں کہ حق خود ارادیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے
حل،ریاست کشمیر کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کے مقصد سے جاری کشمیریوں کی
منصفانہ جدوجہد کو دہشت گردی سے منسلک قرار دیا جائے۔بھارت یہ کوشش کرتا
چلا آرہا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے لاتعلق ہو جائے کیونکہ
آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کو پاکستان کی مدد و حمایت سے دور کرتے
ہوئے بھارت کے لئے کشمیریوں کو اپنی فوجی طاقت کے بھر پور استعمال سے دبانا
آسان ہو جاتا ہے اور پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ’’ سٹینڈ‘‘ نہ لینے
سے عالمی برادری بھی اس مسئلے کو اہمیت نہیں دیتی۔پاکستان کی پالیسی میں
خصوصا کشمیر کے حوالے سے اس تبدیلی بلکہ پسپائی کے اثرات پاکستانی میڈیا
میں بھی نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں جو کشمیر کے مسئلے کو خود سے الگ
تھلگ کر کے دیکھنے لگے ہیں اور یہی سوچ عوام میں بھی پیدا کرتے ہوئے کشمیر
سے متعلق پاکستان کی ذمہ داریوں کو محدود سے محدودکرنے کو کوششیں جاری ہیں۔
پاکستان کے ایک سینئرو معتبر صحافی مجیب الرحمان شامی نے میرے گزشتہ کالم
بعنوان’’غیر معیاری کشمیر کانفرنس، غیر ذمہ داری کا عملی نمونہ !‘‘پڑہنے کے
بعد کہا کہ ’’وانی صاحب آپ نے پاکستان میں ترقی کیطریقوں پر توحقارت آمیز
پھبتی کس کر بھڑاس نکال لی لیکن یہ نہیں بتایاکہ وہ کون سی اعلی کشمیری
روایات ہیں جن کا اہتمام آزاد کشمیر میں کیا جا رہا ہے؟ ‘‘۔ اس پر میں نے
عرض کیا کہ ’’ کشمیریوں پہ نسل در نسل اتنے مظالم ڈھائے گئے ہیں کہ ان کے
جسم ہی نہیں ان کی روحیں بھی گھائل ہیں۔کشمیریوں کی بے چارگی،مظلومیت قابل
رحم اور عبرت ناک بھی ہے۔کشمیری روایات سے میری مراد کشمیری کلچر ہے۔کشمیری
بہت '' رکھ رکھاؤ '' والے ہوتے ہیں۔کسی کے گھر دعوت پہ جائیں تو اپنی پلیٹ
میں چاول ،سالن خود ڈالنا گوارہ نہیں کرتے،اگر میزبان اسے سالن نہ ڈالے تو
وہ سوکھے چاول ہی کھاتا جائے گا،اپنے ہاتھ سے خود سالن نہیں ڈالے گا۔آزاد
کشمیر خطے کا نام بھی اپنا نہیں ہے۔یہ نام اس بات سے منسلک ہے کہ یہاں
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی نمائندہ حکومت کے قیام کے حوالے سے آزاد حکومت
ریاست جموں و کشمیر کا نام دیا گیا۔حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر حکومت کا
آئینی کردار آزاد کشمیر کی علاقائی حدود تک محدود کیا تو آزاد کشمیر میں
قبیلائی اور علاقائی ازم کو تقویت حاصل ہوئی اور اب اس کی بدترین صورتحال
درپیش ہے۔آزاد کشمیر میں رہنے والے ریاست کشمیر کے باشندے تو ہیں لیکن بڑی
اکثریت کشمیری نہیں ہے۔یہاں راجپوت،جاٹ ،گوجر،عباسی و دیگر قبائل آباد ہیں
۔آزاد کشمیر میں قبیلائی ازم ہی میرٹ ہے اور اسی بنیاد پر تمام
سیاسی،سرکاری ،حکومتی اور سماجی فیصلے ہوتے ہیں۔بلخصوص آزاد کشمیر کی
موجودہ حکومت کی بد عنوانیوں،اقربا پروری نے آزاد کشمیر کے سرکاری ڈھانچے
کو ہی نہیں سیاست کو بھی سب سے بڑھ کر تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور اس سے
آزاد کشمیر کے عوام بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔پڑھے لکھے نوجوانوں میں
اس حوالے سے یہ احساس تقویت پا رہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر کے
خطے سے زیادتی کی جارہی ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ آزاد کشمیر کے حساس خطے میں اس
طرح کی صورتحال بدستور قائم رکھنے کے سنگین نتائج کا احساس پاکستان میں
کیوں نہیں کیا جاتا؟کشمیری رہنما بھی دریافت کرتے رہتے ہیں کہ آخر پاکستان
کی کشمیر پالیسی ہے کیا؟ بے اعتنائی کے برتاؤ سے تو اب یوں محسوس ہوتا ہے
کہ مقبوضہ کشمیر سے لاتعلقی اختیار کی جاچکی ہے۔آج پاکستان میں اس بات کی
ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ کشمیر کی پاکستان کے لئے اہمیت کا ادراک کیا
جائے کہ یہ مسئلہ پاکستان کی سلامتی اور بقا ء سے مربوط ہے۔پاکستان کی
سیاست ،حکومت اور میڈیا میں جس طرح '' کشمیر گریز ''پالیسی اپنائی گئی ہے
،وہ خود پاکستان کے لئے مہلک نتائج پر منتج ہونے کے خطرات لئے ہوئے
ہے۔ہماری اسٹیبلشمنٹ کا یہ تصور غلط بلکہ خود فریبی پر مبنی ہے کہ پاکستان
کی طرف سے کشمیر سے لاتعلقی کے اعلان کرنے سے بھارت پاکستان کے خلاف اپنے
ان مذموم عزائم سے باز آ جائے گا،جس کے لئے وہ '' سٹیپ بائی سٹیپ'' پیش
قدمی کرتا جا رہا ہے‘‘۔میں یہ عرض نہیں کر سکا کہ پاکستان میں ترقی کے طور
طریقوں پر محترم شامی صاحب زیادہ بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں ۔
آج یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ آمر حکومتوں نے اپنے وقتی مفادات کے لئے
پاکستان کی پالیسی کے بنیادی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا اور ملک کی سلامتی
اور بقاء سے مربوط امور پر بھی ہمہ گیر پالیسی اور حکمت عملی اپنانے کے
بجائے پا؛لیسیوں میں یوں ’’ ڈے بائی ڈے‘‘تبدیلیاں لاتے رہے کہ اب ہماری
اکثر پالیسیاں’’ آدھا تیتر ،آدھا بٹیر‘‘ بن چکی ہیں۔مقولہ عام ہے کہ ’’ جس
کا کام اسی کو سانجھے‘‘ لیکن ہم نے ملک میں طاقت کی بنیاد پر فیصلے کئے
جانے کا رواج قائم کیا اور اسے مضبوط سے مضبوط تر بنایا جا چکا ہے۔سالہا
سال سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پالیسی بیان کرتے ہوئے یہ جملہ دہرایا جاتا
ہے کہ ’’ کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رہے گی‘‘۔یوں
کشمیر کے مسئلے کو پاکستان کا سنگین مسئلہ قرار دینے کے بجائے اسے محض
کشمیریوں کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے کہ پاکستان ہمدرد ہمسایہ کے طور پر
اخلاقی ،سیاسی اور سفارتی مدد جاری رکھے گا۔کیا یہ پاکستان کے خالق قائد
اعظم محمد علی جناح کی پالیسی تھی؟ہر گز نہیں! تو پھر کشمیر سے متعلق
پاکستان کی عشروں سے چلی آ رہی اس پالیسی کو قومی مفاد میں کس طرح قرار دیا
جا سکتا ہے؟ |