بحکم گورنر صاحب۔۔۔پڑھنا منع ہے

بلوچستان پاکستان کا وہ بدقسمت صوبہ ہے جو کہ ایک طرف سب سے زیادہ وسائل سے مالامال ہے تو دوسری طرف سب سے زیادہ کسمپرسی کا شکار بھی ہے آبادی میں سب سے کم ہونے کے باوجود اس کے وسائل اس کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں جہاں اور کئی گھمبیر اور پیچیدہ مسائل بلوچستان میں وجود رکھتے ہیں وہیں ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ اپنے آبادی کی طرح شرح خواندگی میں بھی بلوچستان تمام صوبوں کی فہرست میں سب سے آخر میں نظر آتا ہے پورے بلوچستان میں گنتی کے پانچ جامعات ہیں اور ایک ہی میڈیکل کالج ہے ۔ بلوچستان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ دوسرے صوبوں کے عوام کا بلوچستان سے متعلق سوچنے کا زاویہ بالکل ہی الگ ہے کیا چھوٹا کیا بڑا کیا تعلیم یافتہ کیا ناخواندہ کیا سیاستدان کیااساتذہ کیا طلباء کیا علماء اس معاملے میں تو سب ایک ہی پیج پر نظر آتے ہیں تقریبا سب کے سب بلوچستان میں موجود پیچیدہ مسائل اور زمینی حقائق سے نا بلدہیں اور بلوچستان کے جغرافیہ، سیاست، ادب ، ثقافت نیز کسی بھی شعبے سے متعلق واقفیت نہیں رکھتے ہیں چاہے پنجاب ہو یا سندھ کے شہری علاقے ،خیبر پختون خواہ ہویا پھر گلگت بلتستان وہاں بلوچستان کا تصور ایک جاہل سماج ، خونخوار لوگ، تعلیم سے بالکل نابلد عوام جنہیں بلوچستان کے سرداروں نے غلام بنایا ہوا ہے سردار کی اجازت کے بغیر تو کوئی پتہ بھی نہیں ہلتا اور سرداروں کی طرف سے بلوچستان میں تعلیمی ادارے بنانے اور دیگر ترقیاتی کاموں کی اجازت نہیں ہے تاکہ عوام پڑھ سکے نہ ترقی کرسکے انہوں نے عوام کو جاہل رکھاہوا ہے تاکہ وہ ان پر حکمرانی کرسکیں اور انکو استعمال کرسکیں بلوچستان میں شرح خواندگی کی کمی سمیت جتنے بھی مسائل ہیں ان سب کے ذمہ دار بلوچ سردارہی ہیں اگر بلوچ سردار چاہیں تو یہ مسائل چند دنوں میں حل ہوجائیں بلوچ سردار یہ سب کرنے کیلئے بھارت سے پیسہ لیتے ہیں تاکہ بلوچستان ترقی نہ کرسکے اور اس طرح پاکستان کی ترقی و تعمیر میں رکاوٹ ڈالی جائے اور جاہل بلوچ عوام کو بلوچ سردار ملکی ترقی کے خلاف غیر ملکی مفادات کیلئے استعمال کریں جبکہ پاکستان کے تمام وفاقی اداروں کی کوشش یہی ہے کہ وہ بلوچستان میں تعمیر و ترقی کے حوالے سے بھر پور کام کریں بلوچستان میں نئے اعلی تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں ، پورے صوبے میں ترقیاتی کاموں کا ایک ایسا جال بچھایا جائے جس سے بلوچستان کے عوام کیلئے ترقی کی نہیں راہیں کھل جائیں اور یہاں کی عوام تمام سرداری چالوں اور جالوں سے مکمل آزاد ہوکر تعلیم حاصل کریں اور بلوچستان و ملک کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرسکیں اور سردار کی سوچ سے الگ بھی اپنے بھلے اور برے کے سوچنے کا شعور ان میں آجائے لیکن بلوچستان میں بر سر زمین حقائق اس سوچ اور تصور سے بالکل برعکس ہیں یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ بلوچستان کے مسائل کیلئے بلوچ سرداروں کو مکمل بری الذمہ قرار دے رہا ہوں یا سرداروں کی وکالت کررہا ہوں لیکن جس تصور کا ذکراوپر کیا گیا ہے حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں چونکہ بلوچستان کا قبائلی معاشرہ بھی ایک حقیقت ہے لیکن بلوچستان میں ماسوائے چند علاقوں کے اب نیم قبائلی نظام ہے جہاں صرف ایک مخصوص حلقے تک ہی سردار کا اثر رسوخ چلتا ہے لیکن قبائلی علاقے ہوں یا نیم قبائلی علاقے وہاں سردار کا گرفت یا کردار اس خوفناک تصور سے سو فیصد مختلف ہے جو بلوچستان سے باہرپایا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں موجودریاستی نظام کی کمزوری بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے جس کی حالت ایسی نہیں کہ لوگ ریاستی نظام پر بھروسہ کرکے قبائلی نظام سے مکمل باہر نکل جائیں۔
ؓ
اصل موضوع بلوچ سردار اور بلوچستان کے ناخواندگی کی ہے وہ ناخواندگی جس کیلئے تمام ارباب اختیار اور دیگر صوبوں کی عوام بلوچ سرداروں کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں ان کیلئے ایک حقیقت کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے ایک سابق وزیر اعلی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور ایک معروف بلوچ سردار سردار اختر جان مینگل نے یہ آفر کی تھی کہ وہ اپنے آبائی علاقے وڈھ میں یونیورسٹی کے قیام کیلئے سو ایکڑ زمین مفت میں دیں گے جس کیلئے کوئی بھی حکومتی نمائندہ کسی بھی وقت ان سے رابطہ کرسکتے ہیں اس کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک وفاقی وزیرجناب احسن اقبال صاحب نے اس آفر کو سرہاتے ہوئے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی یہاں اس بات کا اضافہ کرنا بھی لازمی سمجھوں گا کہ یہی بلوچ سرداراختر جان مینگل اپنے آبائی علاقے وڈھ میں اپنی مدد آپ کے تحت دو غیرسرکاری انگلش میڈیم اسکول( ایک وڈھ میں اور ایک انتہائی دشوار گزار علاقے سارونہ میں ) چلارہے ہیں اس کے علاوہ اسی سردار نے اپنے آبائی علاقے میں گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول کیلئے چالیس ایکڑ کے لگ بھگ زمین اور گورنمنٹ انٹر کالج کیلئے بھی زمیں مفت میں دی ہے جو کہ اس کے تعلیم دوستی کا ثبوت ہیں اس نئے آفر کے بعد امید کی کرن نظر آئی تھی کہ وڈھ میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس سے نہ صرف وڈھ بلکہ پورے بلوچستان کے طلباء مستفید ہونگے حکومت اب اس بلوچ سردار کی تعلیم دوستی کو سرہاتے ہوئے اس آفر کا خیر مقدم کرے گا اور یونیورسٹی کے قیام کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کاشروع کیا جائے گا پورے بلوچستان کے تعلیم دوست حلقوں کی توجہ اب حکومت کی طرف تھی کیونکہ جن بلوچ سرداروں پر تعلیم دشمنی کا الزام لگایا جاتا تھا انہی میں سے ایک بلوچ سردار نے گیند اب حکومت کی کورٹ میں ڈال دی تھی پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایک وفد نے یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے وڈھ کا دورہ بھی کیا اور سردار اختر جان مینگل کی طرف سے بھی اپنے وعدے کے مطابق سو ایکڑ زمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کو دے دی گئی ، انتقال اراضی بھی ہوگئی لیکن پھر اچانک یہ خبر موصول ہوا کہ بلوچستان کے گورنر جناب محمد خان اچکزئی صاحب نے وڈھ میں یونیورسٹی پروجیکٹ کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے قلم کی جنبش سے اس کو منسوخ کردیا ہے ۔۔۔ بحکم گورنر صاحب ۔۔۔ پڑھنا منع ہے ۔

آخر میں اس بات کی وضاحت کہ گورنر بلوچستان جناب محمد خان اچکزئی صاحب بلوچ سردار نہیں بلکہ وہ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ جناب محمود خان اچکزئی صاحب کے بڑے بھائی ہیں۔
 
Hizbullah Mujahid
About the Author: Hizbullah Mujahid Read More Articles by Hizbullah Mujahid: 12 Articles with 9212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.