داتا دربار حملے اصل حقائق

پاکستان میں اس سے پہلے جب بھی کوئی بم دھماکہ ہوتا اس کا الزام بھارت پر لگایا جاتا تھا، اور اسی طرح بھارت میں ہونے والی تخریب کاری پر بھارت بلا سوچے سمجھے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کے ساتھ ساتھ امریکا اور اسرائیل کی ایجنسیوں کے ملوث ہونے پر بھی شک کیا جاتا ہے، جو براہ راست نہیں تو بالواسطہ طور پر پاکستان میں تخریب کاری کو بڑھاوا دینے میں کافی سالوں سے سرگرم ہیں۔

پاکستانی قوم کو آج جن خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا سامنا ہے، اس کا سبب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے پچھلے 9 سالوں سے جاری تیسری عالمی جنگ ہے۔ جب سے ہم نے اغیار کی اس جنگ کو اپنی جنگ میں تبدیل کیا ہے حکومتی سطح پر تو نہیں لیکن عوام کو اس کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ خیبر پی کے اور اسلام آباد سے شروع ہونے والا خودکش حملوں کا سلسلہ گزشتہ چند سالوں سے پنجاب کے علاقوں تک پھیل گیا ہے اور صرف لاہور میں جنوری 2008 سے اب تک شیخ علی ہجویری کے مزار پر ہونے والے خودکش دھماکوں سمیت 15 خود کش حملے ہو چکے ہیں، جن میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 450 سے زائد افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ ان حملوں کے پیچھے کون ہے اس کا جواب ملنا اس لئے بھی مشکل ہوتا ہے کہ خودکش حملہ آور خود بھی مر جاتا ہے، تاہم ہنود و یہود اور نصاریٰ گٹھ جوڑ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یاد رہے کہ پچھلے ایک ماہ سے امریکا پاکستان پر شمالی وزیرستان اور جنوبی پنجاب میں آپریشن کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہا ہے، جو پاکستان ضروری نہیں سمجھتا۔ کسی بھی بڑے سانحہ کی مذمت تو سبھی کرتے ہیں، لیکن ساتھ متعلقہ حکومت کے سیاسی مخالفین امن و امان قائم رکھنے میں ناکامی پر اس سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ اس واقعہ میں کون ملوث ہو سکتا ہے، سارا میڈیا اپنے اپنے ذرائع اور ریسرچ کے مطابق تبصرے پیش کرتا ہے۔ عوام مشتعل ہو کر مظاہرے کرتی ہے، اسی طرح کے ماحول میں چند دن گزر جاتے ہیں اور بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ لیکن ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے اصل محرکات کیا ہیں اور اسے کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے، اس کی طرف بہت کم توجہ دی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ نے ملک کو معاشی طور پر تباہ کر ڈالا ہے، اور اہل اقتدار اور سیاستدانوں پر تو معاشی ابتری اثر انداز ہی نہیں ہوتی، لیکن عام لوگوں کو شدید متاثر کررہی ہے۔ حالیہ چند سالوں کا جائزہ لے لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر خودکش حملے، بحران اور آزمائش کا سبب دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ ہے جو اس نے کمال مہارت کے ساتھ پاکستان کی جنگ بنا ڈالی ہے۔

اس جنگ کی وجہ سے ان پانچ سالوں میں 40 ارب ڈالر کا مالی خسارہ ہو چکا ہے، جب کہ بیرونی قرضوں کی مالیت ساٹھ ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، ملکی معیشت سات ارب ڈالر سالانہ کے حساب سے نقصان کا شکار ہے، اور موجودہ حکومت کے دو برسوں کے دوران مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے غربت کی شرح 23 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد ہوگئی ہے۔ دہشت گردی کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی، اور معاشی ترقی کی شرح 7.7 فی صد سے کم ہوکر پہلے 2.5 فی صد پر آئی اور پچھلے مالی سال کے دوران معاشی ترقی منفی 8 فیصد رہی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کرنے والے اتحادی حکمرانوں کو ان کی عوام نے بھی مسترد کر دیا، اور وہ ایک ایک کر کے اقتدار سے محروم ہوتے چلے گئے، لیکن ہمارے حکمران اس امریکی جنگ کی شدت کو قائم رکھنے میں بھرپور وفاداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، تاکہ ڈالروں کی ترسیل بند نہ ہو۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنوبی پنجاب میں آپریشن کا واویلا کرنے والا امریکا لاہور میں ہونے والی دہشت گردی جیسے واقعات میں ملوث کیوں نہیں ہو سکتا، تاکہ حکومت کو آپریشن پر مجبور کر سکے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ لاہور کے اہم مزارات پر حملوں کے حوالے سے حساس ادارے پیشگی اطلاعات فراہم کر چکے تھے، لیکن پولیس سرچ آپریشن کے نام پر لوگوں کو خوار کرنے کے سوا کچھ نہ کر سکی، چنانچہ دو سالوں میں لاہور میں درجن سے زائد خودکش دھماکے سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان تو ہیں ہی، لیکن یہ حقیقت بھی ہے کہ ہماری پولیس کی نفری کم ہے، اور ان حالات سے نمٹنے کے لئے اسے جدید تقاضوں کے مطابق تربیت بھی حاصل نہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ تر پولیس اور سیکیورٹی اہلکار پروٹوکول ڈیوٹیوں، مظاہروں کو کنٹرول کرنے اور اہم شخصیات کی حفاظت پر مامور ہیں۔ جس طرح ملک اللہ توکل چل رہا ہے عوام کی حفاظت بھی اللہ کے سپرد ہی ہے۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90677 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.