ایک عندیہ اور ایک خبر......پیمرا
بل کی منظوری کے بعد کیا میڈیا کی آزادی ختم ہوجائے گی....؟
واہ .....واہ! صدر نے کیا خُوب فرمایا! لوگ دستی جیسے نااہل کو بھی چاہتے
ہیں......اور عدلیہ مان لے اصل طاقت عوام ہیں......
آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی موجودہ انوکھی اور اپنی نوعیت کی اِس بے
مثل اور جمہوری حکومت کو بھی میڈیا سے ڈر اور خُوف لاحق ہوگیا ہے کہ جس کے
سربراہ آصف علی زرداری ہیں اور اِن سمیت حکومتی اراکین پر بھی میڈیا کی
آزادی اور اِس کے حق و سچ کے مِشن سے ایسا خُوف طاری ہے جیسا کہ ہمارے ملک
کی تاریخ گواہ ہے کہ گزشتہ اَدوار کے آمروں کو کبھی میڈیا کا خُوف مارے
جاتا تھا اور وہ ہمیشہ اِس سے بوکھلاہٹ کا شکار رہے اور اِس بوکھلاہٹ ہی کے
نتیجے میں وہ اپنے مظالم کی انتہا کو بھی جا پہنچے اِس لئے کہ وہ یہ سمجھتے
رہے کہ وہ اپنے سخت رویوں اور آمرانہ تَشَدُّد اور میڈیا پر بیجا پابندیوں
سے دنیا کے سامنے حق و سچ آشکار کرنے والے قلم کے پاسبانوں سے قلم کی حُرمت
کو سرنگوں کرالیں گے ....؟اور وہ کچھ کروالیں گے ....؟جو وہ چاہیں گے.....؟
مگر وہ اِس کے باوجود بھی ملک کے کسی ایک بھی قلمکار سے وہ نہیں لکھا سکے
جیسا وہ اپنی مرضی کے مطابق اِس سے لکھوانا اور کہلوانا چاہتے تھے ....اور
یہی وجہ ہے کہ آج تک ملک کا کوئی ادنیٰ و اعلیٰ لکھاری اور اہلِ قلم طبقہ
اپنے جسم و دل اور دماغ پر لگنے والے آمروں کے ظالمانہ تَشَدُّد کے زخموں
کے نشانوں کو نہ تو مٹا سکا ہے اور نہ ہی وہ اِس حقیقت کو بھی قرطاس سے
کُھرچ سکا ہے کہ اُن ظالم فاسق و فاجر آمروں نے اپنے اپنے اَدوار میں اُس
وقت بھی حق و سچ کا علم بلند کرنے والوں پر اپنے سیاہ کرتُوتوں کو عوام تک
پہنچانے والوں( میڈیا ) پر پابندی جیسے فعلِ شنیع کے بعد بھی کیا....؟ کیا....؟
مظالم کے پہاڑ نہ ڈھائے کہ جس سے زمین پتھرّا گئی اور آسمان بھی رو پڑا۔
اور ملک کے سابق آمر فاسق و فاجر حکمرانوں! کی طرح آج ایک بار پھر اِس
موجودہ جمہوری حکومت نے بھی اپنے دو ڈھائی سالہ دور کے سیاہ اور سفید
کارناموں کو جوں کا توں عوام تک پہنچانے والے ملک کے آزادی میڈیا پر پابندی
لگانے کا ایک عندیہ ایک خبر کی صُورت میں کچھ یوں دیا ہے کہ جس کے مطابق
صدر کے ترجمان فرح ناز اصفہانی نے بتایا ہے کہ حکومت نے میڈیا پر پابندی کا
بل تجویز کرنے کا ایک اعلان کیا ہے جس میں حکومت نے یہ جواز پیش کیا ہے کہ
وہ اِس بل کی منظوری کے بعد جہاں ایک طرف جنگجوؤں کے حملوں کی بصری کوریج
کی روک تھام کرسکے گی تو وہیں حکومت اِس بل کے تحت آزاد ٹی وی چینلز کی
جانب سے حکومت کے خلاف تواتر کے ساتھ کھلے عام جاری رہنے والے سخت ترین
تنقیدوں کے سلسلوں پر بھی پابندی لگانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ ہاں البتہ!
خبر کے مطابق صدر کے ترجمان نے اِس حوالے سے اِس اُمید کا بھی اظہار کیا ہے
کہ اگر قومی اسمبلی نے اِس پیمرا بل کی منظوری دیدی تو ریاستی ستونوں کو
بدنام کرنے والے مواد کے نشر ہونے پر بھی مکمل پابندی ہوگی اور اِس بل کی
منظوری کے ساتھ ساتھ میڈیا پر ایسے مباحث تبصروں اور بیانات بھی نشر کرنے
کی سختی سے ممانعت ہوجائے گی جو عدالتی کاروائیوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں
اور جن سے دہشت گردی کے فروغ یا دہشگردوں کی مدد اور حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
مگر اِس موقع پر میرا خیال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت پر کہ جب ساری پاکستانی
قوم حق و سچ سننے اور دیکھنے کی عادی ہوچکی ہے حکومت کو میڈیا پر کسی قسم
کی ہلکی سی بھی پابندی نہیں لگانی چاہئے کہ جس سے ملک میں پنپنے والی اِس
اپنی نوعیت کی انوکھی اور منفرد جمہوری حکومت کے جمہوری رنگ و رُوپ کو گہن
لگ جائے اور اِس جمہوری حکومت کے غیر جمہوری فعلِ شنیع سے اِس کا عوام میں
رہا سہا وقار بھی چکنا چُور ہوکر رہ جائے اور دوسری جانب سے میڈیا پر
پابندی سے متعلق کئے جانے والے اِس اعلان اور عندیے کے بعد حکومت کی جانب
سے لائے جانے والے بل کی منظوری سے یہ بات بھی عیاں ہوجائے کہ موجودہ حکومت
نے ملک کے سابق آمر صدر عزت مآب جنابِ پرویز مشرف کا وہ بل ختم ہوکر رہ
جائے جس بل میں شہنشاہِ آمریت محترم و مکرم جناب پرویز مشرف نے ملک میں
میڈیا کی آزادی متعارف کرائی تھی۔ تو حکمرانوں! ذرا سوچو کہ تمہارے اِس عمل
سے میڈیا پرسنز میں تو بَھونچال آئے گا ہی تو وہیں حزبِ اختلاف کی سیاسی
جماعتوں سمیت مذہبی اور سماجی تنظیموں کے کارکنان کے ساتھ ساتھ ایک عام
پاکستانی شہری بھی میڈیا کے نمائندوں کی جانب سے ملک کے طول و ارض میں
چلائی جانے والی احتجاجی تحریکوں میں شامل ہوکر حکومت کے اِس روئے کے خلاف
اپنے غم وغصے کا اظہار کرتا نظر آئے گا۔اور پھر بالخصوص صدرِ مملکت آصف علی
زراری آپ خود سوچیں اور خیال کریں کہ عوام کی اِس طاقت کے آگے جب آپ بے بس
ہو کر خود میڈیا پر لگائے جانے والا پابندی کا یہ بل واپس لیں گے تو کیا
اِس کے بعد آپ عوام میں اپنا وہ وقار بحال کرا سکیں گے جو آج ہے.....اور
ہاں واہ...واہ! صدر مملکت جناب آصف علی زرداری صاحب! آپ نے گزشتہ دنوں
ایوانِ صدر میں وسیلہ حق پروگرام کے تحت غریب خاندانوں میں چیک تقسیم کی
ایک سب سے منفرد اور ممتاز تقریب میں اپنے خطاب کے دوران کیا خُوب فرمایا
ہے ....؟کہ سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی میں نہ بدلا جائے (تو پھر آپ کیوں
میڈیا کی سیاسی مخالفت کو اپنی ذاتی دشمنی سے تشبیہ دے کر اِس پر پابندی کا
بل منظور کروا رہے ہیں) اور آپ نے اپنے اِسی خطاب میں یہ بھی بڑے عجیب
انداز سے فرمایا ہے کہ عوام دستی کو چاہتے ہیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں....جہاں
تک میرا خیال ہے کہ یہ وہی دستی ہیں ناں! جنہیں نااہل قرار دے دیا گیا تھا
اور جنہوں نے اپنی نااہلی کا برملا خود بھی اعتراف کیا تھا تو یہاں سوچنے
کی بات تو یہ ہے کہ بھلا پھر عوام کسی ایسے شخص کو کیوں چاہیں گے...؟جو
کھلم کھلا اپنی نااہلی کا اپنی زبانی خود اعتراف کرتا ہو....اور پھر عوام
ہرگز کسی ایسے شخص کو ملک کی باگ دوڑ نہیں سونپ سکتے جو خود نااہل ہو۔ اِس
کا اِنتخاب بھی آپ ہی نے کیا ہوگا...؟ورنہ یہ کہاں تھا اِس قابل ....؟بہرحال!
آپ نے اپنے اِسی خطاب میں خود ہی اِس کا بھی اعتراف کرلیا کہ اصل طاقت عوام
ہیں تو پھر جنابِ صدر! اچھی طرح سے یہ بھی سوچ لیں کہ جب عوام کو کبھی ہوش
آیا اور عوام بھی لاٹھی گولی کی پرواہ کئے بغیر آپ کے عوام دشمن کئے گئے
اَب تک کے اقدامات کے خلاف بھی سڑکوں پر نکل کھڑی ہوئی تو پھر یہ یاد رکھیں
کہ آپ کو بھی عوام کی طاقت کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیکنے ہوں گے اور اپنا
سرجھکاتے ہوئے اپنے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ لہٰذا ابھی وقت ہے کہ
سنبھل جائیں اور عوام دشمن اقدامات کرنے سے اجتناب برتیں اور عوام کے لئے
وہی کریں جنہیں کرنے کا آپ اور آپ کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے الیکشن
سے پہلے عوامی خدمات کے جذبے کے تحت عوامی ریلیف کے لئے وعدے کئے تھے۔ اور
اَب آپ کی حکومت کی جانب سے میڈیا پر پابندی کا اعلان حکومت اور عوام میں
دوری کا سبب بن سکتا ہے۔(ختم شد) |