بیسویں صدی میں باکسنگ کی دنیا کے عظیم
باکسرچمپیئن محمد علی کلے کو سپردخاک کر دیا گیا۔ ان کا مشن اور پیغام سیاہ
اور سفیدفام کی تفریق سے بے نیاز دنیا کے کروڑوں عوام کے لئے ہمیشہ زندہ و
جاوید رہے گا۔ آپ کا پیغام امن اور محبت تھا۔ محمد علی نے گمراہی سے
کامیابی کا سفر طے کرنے کے بعد دنیا کو پیغام دیا۔ انہوں نے کہا اسلام امن
کا دین ہے۔ اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ جب اسلام قبول کیا تو اپنا
نام بھی ایسے بدلا جو سب مسلمانوں کے لئے ایک پیغام تھا۔ محمد کا لفظ نبی
پاکﷺ کے نام پر رکھا اور علی بھی حضرت علی کرم اﷲ وجہؓ کی نسبت سے رکھا گیا۔
یعنی انہوں نے اسلام دشمنوں کی جانب سے مسلمانوں کو شیعہ سنی میں تقسیم
کرنے کی نفی کی۔ مسلمانوں کے متحد ہونے کا پیغام دیا۔
محمد علی نے اسلام سے پہلے کی زندگی کو غلامی اور جہالت کے دور سے یاد کیا
ہے۔ وہ ہمیشہ اسلام کے بعد کی زندگی کو آزادی کی زندگی سے تعبیر کرتے رہے۔
انہوں نے جہالت اور گمراہی کی زندگی سے آزدی اور امن کی زندگی میں اکیلے
اکیلے ہی قدم نہیں رکھا بلکہ ان کی تحریک پر لاکھوں کی تعداد میں امریکیوں
نے اسلام قبول کیا۔ لاکھوں افراد نے اسلا کی سچائی اور حقانیت کا اعتراف
کیا۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے محمد علی کلے کو کئی بار حج بیت اﷲ کی سعادت
نصیب فرمائی۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں ضلالت اور گمراہی سے ہٹا کر صراط المستقیم
کی جانب گامزن کیا۔ ایک بندے سے عظیم کیا لیا۔
محمد علی نے حقیقی معنوں میں اﷲ کے زمین پر نائب اور خلیفہ ہونے کا حق ادا
کیا۔ اسلام کی تبلیغ کی۔ خیراتی کام شروع کئے۔ جو مرتے دم تک جاری رہے۔
انہوں نے خود کو اﷲ کی مخلوق کے لئے وقف کر دیا۔ اﷲ کی رضا کے لئے اپنی
زندگی گزاری۔ ان کے دوستی اور دشمنی کا معیار بھی اپنی انا اور خود پسندی
کے بجائے اﷲ اور اﷲ کے نبیﷺ کی رضامندی کی بنیاد پر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ
شادی بیاہ میں بھی یہی اصول اپنایا گیا۔
ویتنام جنگ کی اس وقت مخالفت کی جب کوئی امریکہ پر انگلی اٹھانے کی ہمت نہ
کر سکتا تھا۔ اس جنگ کی مخالفت ہی نہیں کی بلکہ امریکی فوج میں شامل ہو کر
اس جنگ میں شامل ہونے سے صاف انکار کر دیا۔ ایمرجنسی کے دوران انہیں امریکی
فوج میں شامل کرنے کے لئے فٹ اور موزون قرار دیا گیا۔ لیکن محمد علی نے اس
وقت اعلان کیا کہ جنگ قرآن کی تعلیمات کے منافی ہے۔ ان کے اس اعلان کے بعد
ویتام یا امریکہ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں قرآن کی ریسرچ میں تیزی آئی۔
محمد علی نے واضح کیا کہ ایک مسلمان اسی صورت میں کسی جنگ میں شرکت کر سکتا
ہے جب اسے اﷲ یا اﷲ کا رسو ل ﷺ اس کی اجازت دیں۔ یہ اجازت قرآن اور صحیح
احادیث کے مطابق ہے۔
جب محمد علی نے کہا کہ مسلمان کسی عیسائی یا غیر مسلم کی جنگ میں حصہ نہیں
لے سکتے تو دنیا بھر میں اس پر بحث شروع ہو گئی۔ کیوں کہ وہ اس وقت دنیا کے
ایک بڑے باکسر بن چکے تھے۔ ان کی بات انتہائی توجہ سے سنی جاتی تھی۔ اس پر
غور کیا جاتا تھا۔ جو بھی انسان کسی اعلیٰ مقام پر پہنچتا ہے۔ کسی بھی شعبہ
میں محنت سے نام پیدا کرتا ہے۔ اس کی طرف دنیا توجہ دیتی ہے۔ اس کی ترقی
اور کامیابی کا راز معلوم کرنے میں لوگ دلچسپی لیتے ہیں۔ اس لئے اگر اسے اﷲ
ہدایت دے اور وہ اپنا قبلہ درست کر لے۔ صراط المستقیم پر چلے تو دنیا اس کی
پیروی کرتی ہے۔ اگر وہ گمراہی کا انتخاب کرے۔ کرپشن اور دھاندلی کی دلدل
میں پھنس جائے یا نا پسندیدہ کام شروع کرے تو بھی لوگ اس کی طرف راغب ہوتے
ہیں۔ ان لوگوں کی گمراہی بھی اسی کے کھاتے میں جاتی ہے۔ ان کا عذاب بھی اس
کے سرجاتا ہے۔ اسی طرح محمد علی نے سچائی کا انتخاب کیا۔ اس لئے آج تک جو
بھی ان سے متاثر ہو کر اسلام کی طرف آیا اور اس نے نیک کام کئے تو اﷲ تعالیٰ
اس کا اجر محمد علی کو دیں گے۔ انشا ء اﷲ۔
ویتنام جنگ میں شامل ہو کر معصوموں پر بم اور گولیاں چلانے سے انکار کرنے
پر محمد علی کو گرفتار کیا گیا۔ آپ کا باکسنگ لائسنس منسوخ کر دیا گیا۔ پھر
جب ویتنام جنگ کی مخالفت میں اضافہ ہوا تو محمد علی امریکہ میں مقبول بن
گئے۔ جنگ کی مخالفت پر ان کا چرچا ہونے لگا۔ اسلام کا پیغام عام ہونے لگا۔
اسلام معصوموں پر جنگ مسلط کرنے کی سخت مخالفت کرتا ہے۔
آج ایک بار دنیا کا ماحول مسلم دوست نہیں۔ لیکن محمد علی کے پیغام کو لوگ
اس لئے پسند کرتے ہیں کہ انہوں نے منظم نسل پرستی اور ناانصافی کے خلاف جنگ
کی۔ حق کی آواز بلند کی۔ لوگ آج فخر کر رہے ہیں کہ وہ محمد علی کے پیغام کی
روح کے ساتھ زندہ ہیں۔ وہ اس کا اظہاربھی کر رہے ہیں۔ آج مسلمان ہی نہیں
بلکہ دنیا کا ہر ایک انسان محمد علی کے لئے دعا کر رہا ہے۔ امریکی صدر ہی
نہیں دنیا بھر کے حکمران انہیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ وہ انصاف اور
حقوق کے علمبردار بنے۔ دین اسلام کے سفیر کا کام کیا۔ ان کی زندگی اور موت
بھی اسلام کی تبلیغ کا باعث بنی۔ مرنے کے بعد بھی ان کا پیغام عام ہو رہا
ہے۔ لوگ اعتراف کر رہے ہیں اسلام امن کا دین ہے۔ اسلام دشمن بھی یہ اعتراف
کرنے می جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ ان کے نماز جنازہ میں مسلمان شریک تھے۔ غیر
مسلم بھی رو رہے تھے۔ ٹی وی سکرین پر یہ منظر دنیا نے دیکھا۔
ایک عالمی چیمپیئن کی تدفین کے بعد بین المذاہب تقاریب بھی منعقد ہو رہی
ہیں۔ ان کی خدمات اور سماجی خدمت کے کارناموں کو یاد کیا جا رہا ہے۔ صدر
اوباما بھی محمد علی کو عہد کا برتر، روشن تر اور کسی سے بھی زیادہ با اثر
شخص قرار دینے پر مجبور ہوئے اور کہا محمد علی امریکہ تھے، امریکہ رہیں گے۔
باکسنگ کی دنیا کو خیرباد کہے ہوئے 35سال ہو گئے لیکن وہ آج بھی چمپیئن
ہیں۔ 61مقابلوں میں وہ 56میں ناقابل شکست رہے۔ لیکن پھر موت نے انہیں بھی
شکست دے دی۔ موت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ میں ایک عظیم مسلمان کو خراج عقیدت
پیش کرنے میں اس لئے اپنے لئے اعزاز سمجھتا ہو ں کہ اﷲ تعالیٰ اپنے ایک نیک
بندے کی وجہ سے ہماری بھی مغفرت فرما دے۔ |