عبدالستار ایدھی جیسے عظیم انسان صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں

دکھی انسانیت کی خدمت دنیا کا عظیم ترین کام ہے۔ یہ موقع کسی کو نصیب سے ہی ملتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے کسی برگزیدہ اور پیارے بندے کو خدمت خلق کے لئے چن لیتے ہیں۔ ورنہ یہ سعادت ہر کسی کو نہیں مل سکتی۔ آج ہم اپنے ارد گرد دیکھ لیں۔ ہمیں ایسے بے شمار لوگ نظر آ جائیں گے جو خدمت خلق کے نام پر کیا کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد زندگی دولت اور شہرت کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ لوگ سیاست میں بھی مال کمانے آتے ہیں۔ اگر کوئی ان حالات میں ایسا شخص مل جائے جو مال کمانے کے بجائے صرف خدمت میں یقین رکھتا ہوا۔ جو اپنی خدمات خلوص کی بنیاد پر پیش کرتا ہوا۔ جو اپنے اختیارات ، مرتبہکا غلط استعمال نہ کرے۔ جو اپنے دفتر کی تمام سہولیات کو اپنی زات پر استعمال کرنے میں دلچسپی نہ لے۔ اسے لوگ بے وقوف یا پاگل سمجھتے ہیں۔ جو اپنی ذات کو ہر چیز پر ترجیح دے، جو لوٹ مار کرے، رشوت، سفارش، میرٹ پامال کرے، اسے دانا اور سمجھ دار قرار دیا جاتا ہے۔ اگر کسی کا کوئی رشتہ دار وزیر، مشیر، سیکریٹری ہے ، وہ اس کی سفارش کرتا ہے تو سمجھ لیں کہ ادارے میں اس پر نوازشات کی برسات ہوگی۔ ارباب اختیار کے لوگ تلوے تک چاٹ جاتے ہیں۔ ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ ان کی قربت والوں کی چاپلوسی کی جاتی ہے۔ مگر جو صرف میرٹ کی بات کرے ، اس پر فقرے کسے جاتے ہیں۔

عبدالستار ایدھی سے کئی ملاقاتوں کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ جب 2005کا زلزلہ آیا تو عبدالستار ایدھی ہی نہیں بلکہ ان کے بیٹے فیصل ایدھی کو مظفر آباد میں مزدوروں کے ساتھ سخت کام کرتے دیکھا۔ ایدھی صاحب نے نثار کیمپ چہلہ میں اپنا کیمپ لگایا تھا۔ وہاں وہ دن رات زلزلہ متاثرین کی خدمت میں مصروف رہتے۔ لاتعداد بیماروں کو ہسپتال پہنچانے اور ان کا علا ومعالجہ کرانے والے یہ عظیم انسان عبدالستار ایدھی آج خود ہسپتال میں ہیں۔ آپ کے دونوں گردے فیل ہو چکے ہیں۔ ان کی زندگی ڈائیلاسز پر گزر رہی ہے۔ جب معروف سرجن ڈاکٹر ادیب رضوی کی زبانی یہ خبر سنی تو دل سے جناب ایدھی کے لئے دعائے صحت آہ کی صورت میں نکلی۔ اگر چہ وہ اپنے معمولات زندگی سر انجام دے رہے ہیں ، تا ہم ہر ہفتے انہیں ڈائیلاسز کرانا ہوتا ہے۔

عبد الستار ایدھی آج علیل ہیں۔ لیکن انھوں نے اس علالت میں بھی پاکستان کا نام فخر سے بلند کر دیا۔ انھوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ ان سے بڑھ کر کوئی سچا اور بڑا محبت وطن پاکستانی نہیں ہو سکتا۔ ان کا علاج بیرون ملک دنیا کے نامور ہسپتالوں میں کرانے کی پیشکشیں ہوئیں۔ یہاں تک سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے بھی یہ پیشکش کی۔ مگر عیدھی نے پاکستانیت کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ انہوں نے یہ سب پیشکشیں ٹھکرا دیں۔ عیدھی نے کہا کہ وہ اپنا علاج اپنے ملک میں کرائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے صاف کہہ دیا ہ وہ اپنا علاج کسی سرکاری ہسپتال میں ہی کرائیں گے۔ انھوں نے پاکستان کو پوری دنیا پر ترجیح دی۔ اپنے سرکاری ہسپتالوں کوہی عزت دی۔ اپنے ڈاکٹروں پر اعتماد کیا۔ ورنہ ہمارے لوگ زکام نزلہ پر بھی علاج کرانے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ اپنے ملک کے وقار اور عزت کا انہیں کوئی خیال نہیں۔ وہ نہیں سمجھتے جس ملک نے انہیں سب کچھ دیا ، اسے وہ یوں بے توقیر کیوں کر رہے ہیں۔ وہ ان کی ترجیحات میں شامل کیوں نہیں۔ وہ اپنی کمائی یہاں خرچ کرنے کے بجائے باہر کیوں لے جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران اپنا علا باہر سے کراتے ہیں۔ لیکن انہیں اﷲ کا زرا بھر خوف نہیں کہ وہ یہاں کے ہسپتالوں ، یہاں علاج و معالجہ کی سہولیات بہم پہنچانے پر توجہ نہیں دیتے۔ انہیں اپنے ملک ، اپنے ہسپتالوں، اپنے ڈاکٹروں پر اعتماد نہیں۔ وہ اگر توجہ دیتے تو یہاں بھی جدید ٹیکنالوجی فراہم ہو جاتی۔ یہاں کے غریب اور نادار لوگ یہاں اہم بنیادی سہولیات کو ترستے ہیں اور وہ خود سیر سپاٹے کے لئے باہر چلے جاتے ہیں۔ لیکن جناب عبدالستار ایدھی نے اپنے ملک کو سب پر ترجیح دی اور ثابت کیا کہ وہ ایک نایاب انسان ہیں۔

عبد الستار ایدھی نے وصیت کی ہے کہ بعد از مرگ ان کے اعضاء عطیہ کر دیئے جائیں۔ یہ ایک عظم کارنامہ ہے۔ زندگی اور موت کے بعد بھی خدمت کا جذبہ۔ اﷲ انہیں سلامت رکھے۔ خدمت کا یہ جذبہ ہو تو محترم ایدھی کی طرح ایک ایمبولنس اور ایک ڈسپنسری سے کام شروع کیا جا سکتا ہے۔ آج ان کی ملک بھر میں ایمبولنس سروس، لاوارث بچوں کے مراکز، منشیات کے عادی لوگوں کی بحالی کے سنٹرز کام کر رہے ہیں۔ عبد الستارا یدھی، بیگم بلقیس ایدھی، ان کابیٹا فیصل ایدھی کے لئے سب کچھ خدمت خلق ہے۔ ان مشن دکھی انسانوں کی خدمت ہے۔ اسی کے لئے وہ جینے مرنے کا عزم رکھتے ہیں۔

ایدھی کا ڈائیلاسز پہلے ہفتے میں دو بار ہوتا تھا۔ اب تین بار کروایا جا رہا ہے۔ ان کی عمر تقریباً90سال ہے ۔ اس لئے ڈاکٹرز ان کے گردے تبدیل کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ بلقیس ایدھی کو فخر ہو گا کہ ان کا شوہر عبدالستار ایدھی ہے۔ فیصل بھی ایدھی صاحب کا بیٹا ہونے پر فخر کرتے ہوں گے۔ ایدھی کی خدمات بے شمار ہیں۔ اﷲ انہیں قبول فرمائے ۔ وہ پاکستان کاانمول اثاثہ ہیں۔ ایسے انسان صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ قحط الرجال کے اس دور میں عبد الستار ایدھی جیسی عظمت والی شخصیت پر قلم اٹھاناسعادت کا باعث ہے۔ ان کی خدمات کا احاطہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔ یہاں مقصد ان کی صحت کے لئے اﷲ کے حضور دست بدعا ہونا ہے۔ اﷲ پاک ایدھی صاحب کو صحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 493060 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More