رمضان المبارک کی نیک ترین
ساعتیںبڑی سرعت کے ساتھ نکلتی جا رہی ہیں،پہلا عشرہ ٔ رحمت تو ختم ہوچکا ،
اب دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے جس کی وادیوں سے ہم اس وقت گذر رہے ہیں، تیسرا
عشرہ جہنم سے آزادی والا ہمارے سامنے موجود ہے ،ظاہر ہے جو عشرہ گذرچکا
ہے، اس میں ہم نے جو بھی اچھے اوربرے کام کئے اس کی جزا یا سزا ملنے والی
ہے ، اللہ بڑا رحیم ہے اس کے کارخانہ ٔ قدرت میںکوئی کمی نہیں ، وہ تو بس
اپنے بندوں کو دینے کے بہانے ڈھونڈھتا ہے ۔بس بندے کو اس قابل بننے کی
ضرورت ہے۔ جو فی الوقت انتہائی مشکل کام ہے ۔روزہ ہمیں سماج ومعاشرہ میں
رہنے کی ڈسپلن سکھاتا ہے وہ ہمارے اندر صبراور برداشت کی اسپرٹ پیدا کرتا
ہے ، تاکہ ہم سماج میں ایک مثبت رول ادا کرسکیں ،وہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے
کہ زندگی کو کس طرح متوازن اور پرسکون بنایا جاسکتا ہے ۔ بھوک پیاس کی شدت
ہمارے اندر یہ احساس جگاتی ہے کہ وہ غربا ء و مساکین جو طرح طرح کی
پریشانیاں اٹھاتے ہیں ،بھوک پیاس کا تجربہ کرتے ہیں، ان کے سخت ایام کس طرح
گذرتے ہونگے ۔ یہی احساس ہمیں متوازن بناتا ہے، اور ہمارا یہی متوازن اندا
ز اللہ کو بے حد مرغوب ہے ۔ رسول کریم ؐنےہمیں اسی کی تعلیم دی ہے ۔ لیکن
عجیب بات ہے ہم دوسروں کے سامنے کچھ اور ہی منظر پیش کرتے ہیں ، ہمارے
علاقو ں میں رات بھر کھانے پینے کی دوکانیں کھلی رہتی ہیں مختلف اقسام
کےرنگ برنگےکھانے ہمارے صبرو ضبط کا بندھن توڑتے رہتے ہیں۔ ،ہمیں بھوک پیاس
کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا، ہم رات بھر جاگتے تو ضرور ہیں لیکن عبادت اور
تہجدگذاری کیلئے نہیں بلکہ کھانے اور مٹر گشتی کیلئے ،کیرم ،پربیاٹ اور طرح
طرح کی فضولیات کیلئے ، یہ ایسے حقائق ہیں جس کے لئے کسی کو کوئی ثبوت و
پروف دینے کی ضرورت نہیں ۔ نماز تراویح ہورہی ہے، وہیں دوسری طرف کھیل کود
اور ہلڑ بازی اور آس پاس کے ہوٹلوں میں شورو ہنگامہ ایسا کہ بس اللہ کی
پناہ، کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔
ایک دوسرا رخ بھی ہے جو بڑی تیزی سے برادران وطن میں منفی پیغام پہنچا رہا
ہے۔عبادت اللہ کیلئے ہوتی ہے، جو نہایت خاموشی کے ساتھ اللہ کے حضور اس طرح
پیش کی جاتی ہے کہ کسی کو کانوں کان بھی خبر نہ ہو ،جس میں نمائش و دکھاوا
کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔لیکن آج کل عبادت نے بھی اپنے زاویئےتبدیل
کرلئے ہیں اور نمائش و دکھاوے والی جگہ پر پہنچ گئی ہے اور یہ سب اللہ کو
سخت ناپسند ہے جس کی وارننگ قرآن مجید میں متعدد جگہوں پرموجود ہے ۔ایسی
عبادات اجر و فائدے کے بجائے خسارے اور عذاب کا سبب بن جاتی ہیں۔اسی کے
ساتھ کچھ افعال ایسے بھی ہوتے ہیں جو اصلا ً تو درست ہوتے ہیں لیکن برادران
وطن اس سے منفی پیغام لیتے ہیں۔ ہمیں اس تعلق سے بھی غورکرنے کی ضرورت ہے
کہ ہمارا کوئی بھی فعل منفی رد عمل والا نہ ہو بلکہ مثبت نفسیات کی طرف لے
جانے والا ہو ۔تاکہ اس کے نتائج بھی مثبت ہی نکل سکیں ۔
کل ممبئی سینٹرل سے ناگپاڑہ آتے وقت بس میں ہماری نشست سے آگے دو غیرمسلم
مسافر عربیہ ہوٹل سے متصل لگی افطاری کی دوکانوں کو دیکھ کر کہنے لگے کیا
یہ مسلمانوں کے کھانے کا مہینہ ہے ؟اسی طرح ایک اور موقع پرہونے والی گفتگو
کچھ اس طرح تھی کہ مسلمانوں کا کھانے والا مہینہ کب آتا ہے ۔ برادران وطن
لب سڑک انواع و اقسام کے کھانوں کی قطاراندرقطار لگی دوکانیں دیکھ کراس کے
سوا اور کیا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مسلمان کھانے سے کس قدر دلچسپی
رکھتاہے؟ ۔یہ کوئی سادہ بات نہیںان جملوں میںہمارے ماضی و حال کی تاریخ درج
ہوگئی ہے، لیکن ہم نے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں،کیا ہمیں اپنے اس طرز
عمل کو تبدیل کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی ۔عمر فاروق ؓ کے دور خلافت
میں جب فلسطین فتح ہوا اور مسلم فوجیں پورے علاقے پر قابض ہوگئیں تو کچھ
کلیدی عہدوں پر مسلم حکام کو متعین کرکے فوجیں لوٹ گئیں ، وہاں قیام پذیر
مٹھی بھر مسلمانوں کے اعلیٰ کردارو عمل کو دیکھ کر عیسائیوں کی ایک بڑی
تعداد بے حد متاثر ہوئی اوراسلام قبول کرلیا ،کچھ عرصہ بعد گرجاگھروں کے
مبلغین ( جو مسلمان ہوگئے تھے ) اور عوام کی ایک بڑی تعدادنے امیرالمومنین
حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس قاصد روانہ کرکے درخواست کی کہ ہم اس خدائے واحد
پر یقین رکھتے ہیں اور اس کے بھیجے ہوئے پیغمبر آخرالزماںؐ کے احکامات و
پیغامات پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، اس لئے ہمارے پاس کچھ مسلمان بھیجیں تاکہ
ہم ایک اچھے انسان بننے کا عمل سیکھ سکیں اور وہ اعمال کرسکیں جو اللہ اور
اس کے رسول کو مطلوب ہیں۔ ذرا سوچیں ، اس واقعے کی روشنی میں کیا ہم بھی
کہیں نظر آتے ہیں |