شلوار اتارنا اور پگڑھی اچھالنا شہرت یافتہ
محاورے ہیں۔ دونوں کا مفہوم ایک جیسا ہے۔ پگڑی خواتین نہیں بلکہ مرد حضرات
باندھا کرتے تھے۔ نصف صدی قبل برصغیر میں تقریباً تما م مرد پگڑھیاں باندھا
کرتے تھے۔ اگر ہم برسوں قبل کی تصاویر کا مشاہدہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ
یہاں اکثریت میں لوگ سفید پگڑھی استعمال کرتے تھے۔ ہر رنگ و نسل، مذہب اور
فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص مزدورہو یا افسر پگڑھی باندھتا تھا۔ ان پگڑیوں
کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ لمبی پگ کی مثال دی جاتی تھے۔ پگڑی کو دستار بھی
کہتے ہیں۔ اس کا احترام تھا۔ پگڑی عزت کی ایک عمدہ نشانی سمجھی جاتی تھی۔
پھر آہستہ آہستہ اس کی جگہ ٹوپی نے لے لی۔ ہماری یاد میں جناح اور نہرو کیپ
کافی معروف ہوئیں۔ کشمیری ٹوپی کی بھی اپنی ہیت حلیہ تھا۔ اسی طرح عیسائی
اور یہودی اپنی مخصوص ٹوپی پہنتے تھے۔ لونگی قلہ کا رواج بھی عام تھا۔ بعد
ازاں یہ پگڑھیاں، ٹوپیاں شادی بیاہ یا دیگرخاص تقریبات تک محدود ہو گئیں۔
آج بھی کہیں کہیں ایسا ہے۔ پگڑی یا دستار بندی عزت و تکریم کے طور پر ایک
رسم بن چکی ہے۔ پگڑی اچھالنے کا اسی وجہ سے مقبول محاورہ بنا۔ کسی کی عزت
خاک میں ملانا ہی پگڑھی اچھالناہے۔ آج بھی عزت اور بے عزتی علامتی طور اسی
پگڑھی سے جڑی ہے۔
خواتین پگڑھی نہیں باندھتیں۔ خواتین کی چادر ہی ان کی عزت کی نشانی ہو
اکرتی تھی۔ چادر اتارنا ہی پگڑھی اچھالنے کے مترادف تھا۔ لیکن یہ چادر
آہستہ آہستہ پگڑھی کی طرح ہی نایاب ہونے لگی۔ یہ بھی پگڑھی کی طرح خاص
مواقع پر ہی استعمال ہونے لگی۔ اس کی جگہ دوپٹے اور حجاب نے لے لی۔ پھر یہ
بھی اتر گئے۔ یہ الگ معاملہ ہے کہ پگڑھی اور چادر اترنے یا اچھلنے سے کون
فائدہ میں رہا اور کسے اس کا نقصان ہوا۔ تا ہم دکھ یہ ہے کہ مشرقی روایات
اور عزت و تکریم کی یہ علامتیں نا پید ہو گئیں۔ آج نیا دور ہے۔ سائینس و
ٹیکنالوی کا دور۔ آج کا انسان خود کو ماڈرن اور روشن خیال سمجھتا ہے۔
خواتین کے حقوق کی تحریکیں اٹھی ہیں۔ اب یہ چادر اور پردہ داری دقیا نوسی
لوک کہانیاں لگتی ہیں۔ اب کہتے ہیں کہ کسی کی عزت چادر اور پردے کی محتاج
نہیں رہی۔ اس لئے نوبت شلوار تک آن پہنچی ہے۔ اب چادر کے بجائے شلوار اترنے
کا محاورہ شہرت پا رہا ہے۔ اگر شلوار اترے گی تو بے عزتی ہو گی۔ ورنہ آپ کی
عزت شلوار اترنے تک محفوظ ہے۔
شلوار اور پگڑھی کی کہانی بھی عجیب ہے۔ جے یو آئی (ف)کے رہنما سینیٹر حمد
اﷲ کو ہمارے ٹی وی چینلز ٹاک شوز میں مدعو کر رہے ہیں۔ نیوز ون کی نادیہ
مرزا نے اپنے شومیں ’’زندہ جلتی خواتین۔۔۔درگور ہوتی عزتیں‘‘کے موضوع پربحث
کے لئے سینیٹر حمد اﷲ، پی ٹی آئی کے فیاض الحسن چوہان ، ماہر قانون بیرسٹر
مسرور، تجزیہ کار ماروی سرمد کو مدعو کر رکھا تھا۔ ہمارے اکثر بحث مباحثے
اس غرض سے ہوتے ہیں کہ مخالف موقف کے حامل لوگ شوز میں آئیں۔ ایک دوسرے کو
گالیاں دیں۔ بدکلامی کریں۔ہاتھا پائی ہو۔گریبان چاک ہوں۔ دنیا کے سامنے
اپنا ظرف بیان کریں۔ ایک دوسرے کی پگڑھیا ں اور شلواریں اتاریں۔
ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے لوگ شوز میں بلائے جاتے ہیں۔پہلے انہیں بریفنگ دی جاتی
ہے۔ یہ سب چینلز ریٹنگ کے لئے کرتے ہیں۔ریٹنگ کی دوڑ میں اخلاقیات اور
میڈیا رہنما اصول بھلا دیئے ہیں۔
کسی اہم مسئلہ کو زیر بحث لانے کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس پر ہر پہلو ،
زاویہ ، نکتہ نظرسے بات چیت کی جائے اور اس کا کوئی قابل عمل یا معقول حل
تلاش کیاجائے۔ اس کے لئے علمی گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی گفتگو اعلیٰ
تعلیم یافتہ لوگ، ماہرین یا انتہائی تجربہ کار ہی کر سکتے ہیں۔ مگر یہاں
دلیل اور علم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک ڈرامہ چلے۔ جسے دیکھ
کر سب مزے لیں۔ انہیں کسی کی شلوار اترنے یا پگڑھی اچھلنے سے کوئی تعلق
نہیں۔ یہ اپنی واہ واہ چاہتے ہیں۔ دوسرے کو بے عزت کر کے خود عزت کمانے کی
کوشش کرتے ہیں۔ ان کے عقل اور سوچ پر افسوس اور ماتم کیا جا سکتا ہے۔
ہم نے عورت کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔ اس عظیم ماں، بہن، بیٹی، بہو کو ہم صرف
ایک شو پیس کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اسے ماڈلنگ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس
کے حقوق کے نام پر خوب استحصال ہو رہا ہے۔ یہی حال ہم نے داڑھی اور پگڑھی
کا بنا رکھا ہے۔ اسے جہالت اور دقیانوسی پن کی نشانی کی شکل دی جا رہی ہے۔
کلین شیو والے کو ہم دنیا کا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب انسان سمجھتے
ہیں۔ جو داڑھی رکھے ، وہ غیر مہذب سمجھا جا نے لگا ہے۔یہ ایک بحث طلب ایشو
ہے۔ ایک فروعی معاملہ ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے وہ صاف ستھرا رہے۔ اس کی پوشاک
اور لباس سے اس کا درست تشخص سامنے آئے۔ وہ جاذب نظر لگے۔ ایک سلجھا ہوا
اور با سلیقہ انسان کیسے بنا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں ہر کوئی خود پر دھیان
دینے میں آزاد ہے۔ ہم کسی کے زاتی معاملات میں بے جا مداخلت نہیں کر سکتے۔
کسی کے ذاتی ڈریس کوڈ کو نشانہ نہیں بنا سکتے۔ تا ہم یہ ضروری ہے کہ ہمارا
لباس انتہائی صاف ستھرا ہو۔ تنگ اور چست لباس ہمارے جسم کے اعضاء کو تکلیف
پہنچاسکتا ہے۔ جسم میں خون کی گردش میں خلل پڑ سکتا ہے۔ نیز سردی گرمی میں
بھی اور گرد و غبار سے بچنے کے لئے بھی ہم لباس کا درست انتخاب کر سکتے
ہیں۔ اس لئے ہمیں لباس کے بارے میں سائینسی بنیادوں پر بھی سوچنا چاہیئے۔
یہ میری ذاتی رائے ہے۔ مشاورت یا تجویز کو ہم کسی پر زور زبردستی کے لئے
استعمال نہیں کر سکتے۔ ہم پردے کے حامی ہیں۔ اسلام کو ہم سایئنٹیفک دین
سمجھتے ہیں۔ جو انسان کی تمام ضروریات کو مدنظر رکھتا ہے۔ جو بھی چیز انسان
کو کسی بھی صورت میں فائدہ پہنچائے ، وہ نیکی ہے ۔ جو بات کسی بھی صورت میں
نقصان کا باعث بنے ، وہی برائی ہے۔ یہ سادہ سی بات ہر کوئی آسانی سے سمجھ
سکتا ہے۔
سینیٹر حمد اﷲ اور ماروی سرمد بھی تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کے درمیان جو بحث
ہوئی۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ نوبت پگڑھی اچھلنے اور شلوار اترنے تک کیوں
پہنچائی جاتی ہے۔ اصل ایشووہیں رہتا ہے اور ہم جنگ و جدل شروع کر دیتے ہیں۔
یہ لڑائی جھگڑا اصل مسلہ کو جوں کا توں رکھنے کی ہی کوشش ہوتی ہے۔ اگر مقصد
علمی بحث ہو۔ دلیل اور تحمل سے بات ہو۔ مہذب انداز اپنایا جائے تو دوسرے کی
عزت کو سب اپنی عزت سمجھیں گے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی عزت کی جائے تو
آپ پہلے دوسروں کی عزت کرنا سیکھیں۔ دوسروں کی عزت ہی اپنی عزت ہے۔ اسی طرح
دوسری کی پگڑھی اچھلنے یا شلوار اترنے کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ کی اپنی
پگڑھی اچھل اور شلوار اتر رہی ہے۔
|