راجیہ سبھا کا حالیہ انتخاب اور بہار کے مسلمانوں کا بڑھتا احتجاج
(Syed Ahmed Qadri, India)
راجیہ سبھا کے لئے جب کبھی انتخاب عمل میں
آتا ہے ،طرح طرح کے تنازعات ضرور سامنے آتے ہیں ۔لیکن اس بار جس طرح کے
تماشے دیکھنے کو ملے اورکامیابی حاصل کرنے کے لئے جیسے جیسے ہتھکنڈے اپنائے
گئے ، اس نے یقینی طور پر بقول سابق مرکزی وزیر سبودھ کانت سہائے ، جمہوریت
کو نہ صرف شرمسار کیا ہے بلکہ جمہوریت کی آبروریزی کی ہے ۔جھارکھنڈ میں بی
جے پی کے پاس اپنے ایک امیدوار کو کامیاب کرانے کے لئے کل 19 اضافی ووٹ تھے
، جبکہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے کم از کم پہلی ترجیح کے 28 ووٹوں کی ضرورت
تھی ۔ اب ان کا امیدوار کیسے کامیاب ہوا ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔اس
بار ہریانہ میں تو انتہا ہی ہو گئی کہ میڈیا ہاؤس کے ایک ارب پتی امیدوار ،
زی نیوز کے مالک سبھاش چندرا ، جو مودی کے گن گان کے لئے کسی حد تک جانے کے
لئے مشہور ہیں ۔ انھیں کامیاب کرنے کے لئے، یہاں کے 14 ووٹ کو ایک منظم
سازش کے تحت رد کرا دیا گیا ، جس میں 12 ووٹ کانگریس امیدوار اور مشہور
وکیل آر کے آنند کے لئے تھے ۔ اس ضمن میں کانگریس رہنمأ بھوپیندر ہڈا نے
چیف الیکشن کمشنر سے جانچ کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چندرا کو
کامیاب بنانے کے لئے جان بوجھ کر ان ووٹوں کو خراب کیا ہے۔یہ حکومت کی جانب
سے سازش ہوئی ہے ۔ یہاں روپئے کے لین دین کا کھلم کھلا مظاہرہ ہوا ہے ،جو
جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی ایک کوشش ہی کہی جا سکتی ہے ۔ اسی طرح کا کھیل
کھیلنے اور سازش رچنے کا الزام کرناٹک میں کانگریس پر، جنتا دل سیکولر کے
رہنمأ اور سابق وزیراعظم دیوگوڑا نے لگایا ہے اور کہا ہے کہ کانگریس نے
یہاں کے علاقائی اور سیکولر جماعتوں کو نقصان پہنچانے کے لئے بہت گندہ کھیل
کانگریس نے کھیلا ہے ، جس کے لئے ان کی پارٹی کانگریس کو آئندہ سبق
سکھائیگی ۔ جنتا دل سیکولر نے اس سازش میں شامل ہونے کی پاداش میں اپنے 8
ممبران اسمبلی کو معطل کر دیا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ 23 اگست1954 کو آزاد ہندوستان میں آئین ساز اسمبلی کے فیصلے
کے مطابق راجیہ سبھا کی تشکیل کا اعلان کیا گیاتھا ۔ جس میں ماہرین کی
تقرری کی وجہ سے اسے نظر ثانی ایوان بھی تصور کیا جاتا تھا ۔راجیہ سبھا کو
ایوان بالا کا بھی نام دیا گیا ہے اس لئے کہ اسے کبھی بھی لوک سبھا کی طرح
تحلیل نہیں کیا جا سکتا ہے ۔لیکن بدلتے وقت اور سیاسی حالات نے راجیہ سبھا
کی رکنیت کے لئے ہونے والے انتخاب میں سپریم کورٹ کے ذریعہ 2006 میں کئے
گئے فیصلہ کے مطابق دل بدل مخالف قانون کا نفاذ نہیں ہوتا ، جس کے باعث
سیاسی جماعتیں ، اپنے ممبران اسمبلی پر قانونی وہپ جاری نہیں کر سکتی ہیں ۔
اس سے ممبران اسمبلی کے درمیان خرید وٖروخت کا بازار گرم ہو جاتا ہے ۔ یہی
وجہ ہے کہ دولت کی فراوانی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راجیہ سبھا جیسی اہم ترین
جمہوری جگہ پر ملک کی اعلیٰ اور نمائندہ شخصیات کی بجائے اب کبھی کنگ مہندر
اور کبھی وجئے مالیا جیسے لوگ پہنچ کر ملک وقوم کے مفادات کی بجائے اپنی
تجارت کے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس سے جن مقاصد کے لئے راجیہ سبھا کی
تشکیل عمل میں آئی تھی ، وہ سارے مقصد ہی فوت ہو گئے ہیں ۔
ڈاکٹر بھیم راؤ امبیدکرنے آئین سازی کے وقت یہ بھی واضح کیا تھا کہ راجیہ
سبھا کی رکنیت کے لئے امیدوار کا اسی ریاست کا شہری ہونا ضروری ہوگا ، جس
ریاست کی اسمبلی سے ممبر کا منتخب ہونا ہے ۔ لیکن سپریم کورٹ میں جب یہ
معاملہ زیر بحث آیا تو سپریم کورٹ نے اس شرط کو بھی خارج کر دیا ۔ جس کی
وجہ کر مختلف ریاستوں سے اب باہری لوگ بھی کبھی کسی سیاسی جماعت کو خوش کر،
یا کبھی مختلف ممبران اسمبلی کو اپنا بنا کر راجیہ سبھا کی رکنیت حاصل کر
لیتے ہیں ۔اس سے ان ریاستوں کی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں میں اندر ہی اندر
کافی ناراضگی بھی پائی جاتی ہے۔ ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے اکثر راجیہ
سبھا کو تحلیل کرنے کا مطالبہ ہوتا رہتا ہے ۔ اس بار کی 57 سیٹوں پر جس طرح
راجیہ سبھا میں کراس ووٹنگ ، سیاسی پارٹیوں کا من مانا رویہ اور خرید و
فرخت کا سلسلہ دیکھنے کو ملا ہے، اسے دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ راجیہ
سبھا کو ختم کرنے کی آواز بہت شدت سے اٹھے گی ۔
مختلف ریاستوں سے ممبران اسمبلی کے ذریعہ اس بار چونکہ 57 سیٹوں پر ہونے
والے انتخاب میں کسی بھی سیکولر پارٹی نے مسلمانوں کو ترجیح نہیں دی ہے ،
اس لئے مسلمانوں کا احتجاج بھی فطری ہے ۔ حد تو یہ ہو گئی کہ ایک سال بعد
ہی اتر پردیش اسمبلی کا انتخاب ہونے والا ہے ، اورجس سماجوادی پارٹی کو
برسراقتدار لانے میں اتر پردیش کے مسلمانوں کا زبردست رول رہا ہے ،اس سپا
کے سربراہ ملائم سنگھ یادونے بھی یہاں کے مسلمانوں کو بری طرح نظرانداز کیا
ہے ۔ اس بار 2014 ء کے پارلیامانی انتخاب میں آزادی کے بعد ایسا پہلی بار
ہوا ہے کہ لوک سبھا میں اتر پردیش سے کسی ایک بھی مسلمان کی نمائندگی نہیں
ہے ۔ اس لحاظ سے بھی یہ زیادہ ضروری تھا کہ سپا کسی مسلمان کو راجیہ سبھا
ہی میں سہی اتر پردیش کی نمائندگی کے لئے بھیجتی۔ بہوجن سماج وادی پارٹی کی
سربراہ مایا وتی نے بھی کچھ ایسا ہی سلوک مسلمانوں کے ساتھ کیا ہے ۔
ابھی کے راجیہ سبھا کی 57 سیٹوں پر ہونے والے انتخاب میں ملک کی سیکولر
سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو جس طرح نظرانداز کیا ہے ۔ اس پر یوں تو پورے
ملک کے مسلمانوں نے دبی زبان میں احتجاج کیا ہے ، لیکن بہار کے مسلمانوں کا
زبردست غم وغصہ سامنے آیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ابھی حالیہ بہار
اسمبلی انتخاب میں مسلمانوں نے جس طرح سیکولر سیاسی پارٹیوں کو پورے جوش و
خروش اور بڑے منطم انداز میں اتحاد کا ثبوت دیتے ہوئے عظیم اتحاد کو عظیم
تر بنا کر برسراقتدار لا یا ۔ جس کی تعریف پورے برصغیر میں ہوئی ۔ اس تعلق
سے بہار کے مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ ان کے اس عملی مظاہرہ کا صلہ حکومت
سازی میں ضرور ملے گا اور اس بار نائب وزیراعلیٰ کو ئی مسلمان ضرور بنے گا
۔ لیکن جس دن بہار میں نئی حکومت کی تشکیل عمل میں آئی اور راجد کے کافی
سینئراور تجربہ کار رہنمأ عبدالباری صدیقی کے مقابلے راجد سربراہ لالو یادو
نے پہلی بار اسمبلی کے لئے منتخب ہونے والے اور ناتجربہ کار اپنے منجھلے
فرزند تیج پرتاپ یادوکو ترجیح دیتے ہوئے ا نھیں نائب وزیر اعلیٰ کی کرسی پر
بٹھا دیا اور اپنے دوسر ے ناپختہ ذہن بڑے بیٹے کو وزیر صحت بنوا کر
عبدالباری صدیقی کو تیسرے نمبر پر لا کھڑا کیا ۔ اس دن بہار کے مسلمانوں کو
نہ صرف گہرا صدمہ پہنچا بلکہ بڑی مایوسی بھی ہوئی اور ان لوگوں نے خود کو
بہت ٹھگا ہوا محسوس کیا ۔ اس غیر منصفانہ عمل پر دبی زبان میں اعتراض کیا
گیا تھا ۔ لیکن بعد کے دنوں میں اس توقع پر خاموشی اختیار کر لی کہ ممکن ہے
آئندہ دنوں میں اس کا ازالہ برسراقتدار سیکولر پارٹیاں کریں۔لیکن ابھی جب
بہار کے کوٹے سے راجیہ سبھا کی پانچ سیٹوں کے لئے انتخاب کا موقع آیا ، تو
تعداد کی مناسبت سے دو سیٹ پر راجدکے امیدوار، دو سیٹ پرجدیو کے امیدواراور
ایک سیٹ پر بھاجپا کے امیدوار کے ناموں کا اعلان ہوا۔ ان ناموں میں کسی ایک
بھی مسلمان کا نام دونوں سیکولر پارٹیوں کی جانب سے جاری فہرست میں نہیں
تھا ۔بہار کے مسلمان کو نظر انداز کئے جانے کا یہ انداز دیکھ کر بہار کے
مسلمانوں کا زخم ایک بار پھر ہرا ہو گیا کہ جدیو کے قومی صدر نیتیش کمار نے
اپنے دو خاص شرد یادو اور آرسی پی سنگھ کو، اور راجد سربراہ لالو یادونے تو
اور بھی حد کر دی کہ نہ صرف بہار کے مسلمانوں کو درکنار کیا بلکہ اپنے بہت
سارے اہم راجد رہنماؤں کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے راجیہ سبھا کی رکنیت
اپنی بڑی بیٹی میسا بھارتی کوسونپ دی اور دوسری رکنیت جو یقینی طور پر کسی
مسلمان کے لئے ہونا چاہئے تھا۔ اس سیٹ کے لئے خود کو چارہ گھوٹالے سے نجات
دلانے کے لئے مشہور وکیل رام جیٹھ ملانی کو نامزد کر دیا ۔ یاد دلا دیں کہ
رام جیٹھ ملانی اس سے قبل بھاجپا کے ٹکٹ پر راجیہ سبھا کے ممبر رہ چکے ہیں
۔ لالو پرساد کے ذریعہ اس طرح راجیہ سبھا کی ممبرشپ کے لئے اپنی ذات تک
محدود رہنا اور جدیو صدر نیتیش کمار کی جانب سے اسی سال راجیہ سبھا سے
ریٹائر ہونے والے مولانا غلام رسول بلیاوی کا پر کترتے ہوئے انھیں راجیہ
سبھا کی بجائے قانون ساز کونسل میں بھیجے جانے پر بہار کے مسلمانوں کے اندر
سلگ رہے غم وغصہ کو محسوس کرتے ہوئے اور اپنی ذمہّ داری کا ثبوت دیتے ہوئے
امارت شرعیہ ، بہار ، جھارکھنداور اڑیسہ کے امیر شریعت، مسلم پرسنل لأ
بورڈکے جنرل سکریٹری اور مشہور عالم دین مولانا محمد ولی رحمانی نے راجیہ
سبھا کے لئے سیکولر سیاسی جماعتوں کی جانب سے مسلمانوں کو پوری طرح
نظراندازکئے جانے پر بہت شائستگی لیکن پُر زور طریقہ سے احتجاج بھرا بیان
دیا کہ ’سیکولر جماعتوں نے مسلمانوں کو نظرانداز کیا ہے اور کم از کم بہار
کے گٹھ بندھن سے ایسی امید نہیں تھی ، جسے مسلمانوں نے اقتدار بخشا۔ ‘
حقیقت یہ ہے کہ مولانا رحمانی کا بیان مسلمانوں کے احساسات وجزبات کا
ترجمان تھا ۔ اس میں کوئی ایسی ناشائستگی یا نازیبا بات نہیں تھی ۔ لیکن
سچائی کڑوی ہوتی ہے ۔ بہار کے مسلمانوں کی پیہم کوششوں سے حاصل ہونے والے
اقتدار کے نشے میں چور ہو کر مسلمانوں کے تمام تر ایثار و قربانی کو فراموش
کرنے والے کو، مولانا رحمانی کا یہ جائز اور حقیقت پر مبنی احتجاج بھی
ناگوار گزرا اور جدیو کے ایک ترجمان کے سی تیاگی نے مولانا رحمانی کے بیان
کے جواب میں ایک ایسی بات کہہ دی کہ ہمیں ان کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں ۔
تیاگی کے اس ایک جملہ نے بہار کے مسلمانوں کوچراغ پا کر دیا اور ان کے
احساسات و جزبات کے اٹھتے شعلوں پر گھی کا کام کیا۔ اس کے بعد جس طرح غم
وغصہ اور زبردست احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا ، اسے دیکھتے ہوئے ایسا لگا کہ
اس ایشو پر بہار کے سارے مسلمان اور ان کی تنظیمیں پوری طرح متحد ہو کر
تیاگی کی مخالفت پر اُتر آئی ہیں ۔کئی مسلم قائدین اور مسلم تنظیموں نے
اپنے شدید ردّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کے سی تیاگی کے اس بیان کو نہ صرف
مولانا رحمانی کے لئے، بلکہ بہار کے تمام مسلمانوں کے لئے تذلیل سے تعبیر
کرتے ہوئے تیاگی سے اپنا بیان واپس لینے کے ساتھ ساتھ مولانا سے معافی
مانگنے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے ۔ سابق ممبر را جیہ سبھا ڈاکٹر اعجاز
علی نے اس ضمن میں بیان جاری کر وضاحت کی ہے کہ 1950 ء میں دفعہ 341 سے بے
دخل کئے جانے کایہ اثر ہے کہ بھارتیہ سماج میں ہم آج اصل چھوت بن کر رہ گئے
ہیں اور جمہوریت کے نام نہاد مندر(پارلیامنٹ) میں ہماری انٹری پر روک لگتی
چلی جا رہی ہے ۔ مسلم قوم کی گرتی ہوئی حیثیت پر بریک لگانے کا ایک ہی
آئینی راستہ ہے کہ دفعہ 341پر لگے بریک کو ہٹایا جائے ۔ فی الوقت یہ معاملہ
سپریم کورٹ میں التوامیں پڑا ہوا ہے ۔ یہی وہ تدبیر ہے جو مسلمانوں کا
کھویا ہوا وقار دوبارہ بحال کر سکتا ہے ۔ ورنہ دیگر ساری تدبیریں اب الٹی
نظر آرہی ہیں ۔ مشہور سماجی کارکن اور دانشور فیاض حالی نے بھی مولانا
رحمانی کے احتجاجی بیان پر تیاگی کے نازیبا کلمات کے استعمال پر اپنی برہمی
کا اظہار کیا ہے اور تیاگی کو ایک شعر کے ساتھ مشورہ دیا ہے کہ جب کبھی
کسی پر تبصرہ کیجئے آئینہ سامنے رکھ لیا کیجئے ۔ سیاسی اور سماجی رہنمأ
باری اعظمی نے تو یہ کہہ کر اپنے عزم کا بھی ثبوت دے دیا ہے کہ ہم کسی بھی
قیمت پر امیر شریعت کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرینگے، تیاگی کے بیان
سے تمام مسلمانوں کو زبردست چوٹ پہنچی ہے ، اس طرح کا حملہ دراصل مسلمانوں
پر حملہ ہے ۔ آل انڈیا مسلم بیداری کارواں نے امیر شریعت کے سلسلے میں
نازیبا کلمات کے احتجاج میں اپنے تمام ممبران کے ساتھ ایک میٹنگ کا بھی
انعقاد کیا اور ایک قرارداد میں سخت مزمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عظیم اتحاد
گزشتہ اسمبلی انتخاب میں مسلمانوں سے 85 فیصد ووٹ لینے کے بعد مسلمانوں کو
صرف ٹھگنے کا کام کر رہی ہے ۔ عظیم اتحاد نے ووٹ مسلمانوں سے لیا اور وزارت
کی اہم اور بڑی کرسیاں اپنوں کے درمیان تقسیم کر لیا ہے ۔ اس تنظیم نے
تیاگی کے ذریعہ مولانا سے معافی نہ مانگنے کی صورت میں جدیو کیخلاف آئندہ
انتخاب میں سبق سکھانے اور ان کے خلاف تحریک شروع کرنے کی بھی دھمکی دے
ڈالی ہے ۔ آل انڈیا مجلس مشاورت ، بہار کے سکریٹری جنرل انوارالہدیٰ نے
تیاگی کے متنازعہ ریمارکس پر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں نے
ہمیشہ سیکولر پارٹیوں کا ساتھ دیا ہے اور سیکولر حکومت سازی میں اہم کردار
نبھاتے رہے ہیں ۔ اس کا تقاضہ تھا کہ پارلیامنٹ میں مسلسل مسلمانوں کی
گھٹتی تعداد کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو راجیہ سبھا کی رکنیت زیادہ سے
زیادہ دی جاتی ۔ لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں
کو بری طرح نظرانداز کیا ، جس پر مولانا رحمانی نے اپنے غم وغصہ کا اظہار
کیا تھا ۔ اس غم و غصہ کے تدارک کی بات کرنے کی بجائے جدیو نے اپنے ایک
قومی ترجمان کے ذریعہ مولانا کو ہی ہدف بنانے کی کوشش کی ہے ۔ جو ناقابل
برداشت ہے ۔ اس سلسلے میں بہار کے وزیر اقلیتی فلاح ، عبدالغفور سے بھی
بہار کے مسلمانوں کے وفد نے مل کرمطالبہ کیا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ کو بہار کے
مسلمانوں کے اندر بڑھتے انتشار و اضطراب کی کیفیت سے آگاہ کر دیں ۔ اگر وقت
رہتے اس طرح کے غیر منصفانہ عمل اور نازیبا الفاظ کی ادائیگی پر مناسب
فیصلہ نہیں لیا جاتا ہے تو اس کے مثبت نتائج کی توقع سیکولر پارٹیاں نہ
رکھیں ۔ لیکن عبد الغفور جیسے کمزور وزیر سے ایسی امید کم ہی ہے کہ ان کی
باریابی بھی وزیراعلیٰ تک ہو پائیگی اور وہ وزیراعلیٰ تک مسلمانوں کے
احساسات و جزبات کی ترجمانی کر سکینگے۔ |
|