بجٹ کی کہانی ۔۔۔اعداد وشمار کی زبانی
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
ہرسال بجٹ جون کے مہینے میں پیش کیا جاتا
ہے ،ساری قوم کی نظریں بجٹ پر ہوتی ہیں لیکن ہر سال قوم کے ساتھ بجٹ کے نام
پر مذاق کیا جاتا ہے ۔مہنگائی کا طوفان بپا کرنے کیلئے تمام اقدام بروئے
کار لائے جاتے ہیں امسال 2016- 17 کا بجٹ بھی حسب روایت پیش کیا گیا جس کا
حجم 4395 کھرب تھا ۔ یاران نقطہ داں کہتے ہیں کہ یہ بجٹ بھی الفاظ کا ہیر
پھیر ہی تھا امسال بھی عوام کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ۔انسانی بنیادی
ضروریات زندگی فراہم کرنے کے سلسلے میں حکومت نے کوئی واضح لائحہ عمل پیش
ہیں کیا ۔ایسے بجٹ کو عوامی ،فلاحی بجٹ کہنا عوام سے سراسر زیادتی ہی کہا
جا سکتا ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے تاریخ کا سب سے زیادہ متواز بجٹ پیش کیا
گیا ۔آئیے بجٹ کے اہم حصوں پر روشنی ڈالتے ہیں ۔کسی بھی بجٹ کا اہم حصہ صحت
ہوا کرتا ہے حالیہ بجٹ میں صحت کے اہم ترین شعبے کیلئے .42 0 فیصد مختص کیا
گیا جو کہ اس شعبے کے ساتھ مذاق کے برابر ہے کیونکہ ملک پاکستان میں صحت کی
صورت حال ابتر ہو چکی ۔ یہاں 1308 فراد کیلئے ایک ڈاکٹر ،1613 افراد کیلئے
ایک بستر،ہر پانچواں پاکستانی علاج کروانے سے قاصر ہے ۔جب صحت کی صورت حال
اس قدر گھمبیر ہوتو اس شعبہ کیلئے اتنا قلیل ترین بجٹ کو مذاق کے سوا اور
کیا کہا جائے۔دوسرا اہم شعبہ تعلیم ہے جو قوم کو لیڈرز مہیا کرتی ۔تعلیم پر
2.2 فیصد مختص کیا گیا جبکہ تعلیمی حالت یہ ہے کہ شرح خواندگی 57فیصد
اور43فیصد ان پڑھ لوگ ہیں ،متعددتعلیمی اداروں میں فرنیچر تک میسر نہیں
اساتذہ جیسے اہم ستون کو دیوار کے ساتھ لگانے کا ہر حربہ استعمال ہو رہا ہے
اسی لئے تو اساتذہ وقتاً فوقتاًسڑکوں پر سراپائے احتجاج نظر آتے رہتے ہیں ۔سینکڑوں
تعلیمی ادارے ایسے ہیں جہاں اساتذہ ہیں ہی نہیں ۔اس آئینہ کو دیکھنے کے بعد
کیا قرین انصاف یہ نہیں کہ تعلیم کا بجٹ دفاع کے برابر ہونا چاہیے ۔پاکستان
کی طلبہ تنظیمات اسلامی تحریک طلبہ،سلامی جمعیت طلبہ،المحمدیہ سٹوڈنٹس ،جے
ٹی آئی ودیگر کا حکومت سے ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ تعلیم کا بجٹ دفاع کے
برابر ہونا چاہیے تاکہ ملک میں تعلیمی انقلاب ممکن ہو سکے ۔جبکہ پنجاب کا
تعلیمی بجٹ پچھلے سال کی نسبت 12 ارب روپے کی اضافے کے ساتھ مختص کیا گیا
ہے کو بجٹ کا 18 فیصد بنتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ
تعلیمی انقلاب بپا کرنے کیلئے اغیار سے تعلیم کے نام پر بھیک مانگنے قومی
وسائل دل کھول کر بروئے کار لائے جائیں تاکہ ہم خود اپنی نسل کو تیار کریں
جو ملک وملت کی وفادار ہوگی ۔اگر مانگ تانگ کر تعلیم کی گاڑی چلانے کی غلطی
کو بار بار دہرایا گیا تو پاکستان کا نظام تعلیم اسلام دشمن کی گرفت میں
آجائے گا جس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان کا خدانخواسیہ اسلامی تشخص
برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
سب سے درد ناک حقیقت یہ ہے بجٹ کا 42 فیصد قرضوں کا سود ادا کرنے میں صرف
کیا جاتا ہے امسال سود ادا کرنے کیلئے 1360 ارب روپے رکھے گئے ہیں جسکی وجہ
سے 1148ارب کے نئے ٹیکسز لگائے جائیں گے ۔ہم یہاں یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیااسلام نے سود کو اﷲ ورسولﷺ سے کھلی
جنگ قرار دیا ہے جس کا نتیجہ تباہی وبربادہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوسکتا ۔امسال
کابجٹ حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے کہ ہم بحیثیت قوم اﷲ ورسولﷺ
سے حالت جنگ میں ہیں ۔یہ خطرناک جنگ کی تباہی اس طرح وارد ہورہی ہے کہ مارے
بجٹ کا 42 فیصد سودی قرضے کھا رہے ہیں ۔ پھر بھی ہم سودی قرضوں کو ترک کرنے
کو تیار نہیں اگر ہمارے پیپسی اور برگر کھانے والے حکمران سودی قرضے لینے
سے باز نہ آئے تو سود کی تباہی ہمارا سار بجٹ کھا جائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ بجٹ میں عوام کو 90 قسم کے نئے ٹیکس لگا دئیے
گئے ہیں جو عوام کی جیبوں پر ڈاکے کے مترادف ہے ۔دوسری طرف صورتحال یہ ہے
کہ عام شہری بلوں کی ادائیگی سے قاصر نظر آتا ہے۔ملازمین کی تنخواہوں میں
10 فیصد اضافہ کرکے احسان جتلایا جارہاہے کہ ہم نے بڑا تیر مارلیا ۔اضافہ
کو شامل کیاجائے ۔مزدور کی تنخواہ14000 روپے مقرر کی گئی ہے ،کوئی ماہر
معیشت ہمیں چار افراد پر مشتمل گھرانے ماہانہ بجٹ اس مزدوری میں بنا کر
دکھائے تو ہم مان جائیں گے کہ یہ بجٹ عوام دوست ہے ہمارے نزدیک تو چودہ
ہزار روپے میں کسی کرایہ دار تو دور کی بات ہے اپنے ذاتی مکان کے مالک
مزدور کا بجٹ نہیں بن سکتا ۔ اس کے بعد آتے ہیں ایسے شعبے کی طرف جو
پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کی ھیثیت رکھتا ہے وہ شعبہ ہے زراعت کا۔۔۔ اس شعبے
کی وجہ سے پاکستان ہی نہیں ہر ملک ترقی کرتا ہے حالیہ بجٹ میں اس شعبے کے
ساتھ زرعی پاکستان کی حکومت نے کیا سلوک کیا آئیے اس پر طائرانہ نظر ڈالتے
ہیں ۔پاکستان کی 64 فیصد آبادیزراعت سے وابستہ ہے ماہرین معاشیات کا کہنا
ہے کہ حکومت نے کسانوں کو بھی کوئی ریلیف نہیں دیا ،بیج،کھادوں کی قیمتوں
میں قلیل مقدار میں کمی کسان کو خوش حال نہیں کر سکتی۔جبکہ ورلڈ بنک کا
کہنا ہے کہ 5فیصد جاگیر دار 64فیصد زمرعی زمینوں پر قابض ہیں زرعی پیکج کا
فائدہ عام کسان کی بجائے 5 فیصد جاگیردار ہی اٹھا سکیں گے ۔بے روزگاری کے
خاتمے کیلئے مختص کی گئی رقم کو بھی ناکافی قراردیا جارہا ہے ۔وفاقی بجٹ کے
بعد صوبائی بجٹ بھی ایسی ہی کہانیوں پر مشتمل ہیں جنھیں مختصر الفاظ کا ہیر
پھیر کہہ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔کیونکہ صوبائی بجٹ میں بھی عوام کو
ریلیف کے نام پر دھوکا دیا گیا ہے ۔دوسری صوبائی حکومتوں کی نسبت کے پی کے
بجٹ کو چند ماہرین کی طرف سے متوازن بجٹ قرارد یا جا رہاہے،معیاری وہ بھی
نہیں ہے ،کے پی کے حکومت نے بائیس فیصد بجٹ کا حصہ تعلیم کیلئے مختص کیا ہے
جسے خوش آئند قرار دیا جارہاہے۔٭٭
|
|