سادگی؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
روزینہ الین خان کی خبر کو پاکستانی
میڈیا میں خوب کوریج ملی، اسے لندن کے شہریوں نے ووٹ دے کر پارلیمنٹ کی رکن
منتخب کر لیا ہے، یہ سیٹ صادق خان کے لندن کا مئیر بننے پر خالی ہوئی تھی۔
پاکستانی اس لئے بھی خوش ہیں کہ روزینہ کے والد کا تعلق پاکستان سے ہے،
پاکستانیوں کے لئے دوسری خبر جسے بہت اہمیت دی جارہی ہے کہ روزینہ کے والد
ٹی وی میکنک ہیں، ان کی والدہ جو کہ پولش خاتون ہیں، ایک پٹرول پمپ پر کام
کرتی تھیں۔ صادق خان کے لندن کے مئیر بننے پر بھی اس بات میں بہت دلچسپی لی
گئی تھی کہ ان کے والد بس کے ڈرائیور تھے۔ یہ دونوں خبریں پاکستانیوں کے
لئے فخر کی بات ہیں، ظاہر ہے فخر دو ہی ہیں ، اول یہ کہ وہ پاکستانی ہیں،
دوم یہ کہ وہ عام لوگ ہیں۔ پاکستانی عوام کے لئے یہ خبریں مثال ہیں، مگر
ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پاکستانی عوام نے لندن کی مثال کو خود کبھی نہیں
اپنایا، یہاں تو یہی کلچر ہے کہ جس کے پاس گاڑیوں کا بیڑہ ہے، جس کا گھر
محل نما ہے، جس کا کاروبار دور و نزدیک تک پھیلا ہوا ہے، جس کے ارد گرد
بندوق بردار محافظ ہیں۔ خواہ اس کی ڈگری جعلی ہو، خواہ خلقِ خدا اس سے تنگ
ہو، خواہ اس کا اخلاق کردار قابلِ اعتراض ہو۔ عوام نے کبھی غور نہیں کیا۔
مقابلے میں اگر کوئی بہت ہی اچھا آدمی بھی آگیاتو وہ ووٹوں سے اس لئے محروم
رہے گا کہ وہ عام آدمی ہے، عوام میں رہتا ہے، اس کے پاس وہ چیزیں نہیں ہیں
جن کا مالک اس کا مخالف ہے۔ یہ ہماری سادگی ہے یا بھولپن یا تضاد کہ ہم
پسند کچھ کرتے ہیں، داد کسی کو دیتے ہیں اور ووٹ کسی اور کو۔
لندن میں ہی جب اپنے وزیراعظم کا آپریشن ہوا، تو ان کے چھوٹے بھائی
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ٹیکسی میں بیٹھ کر ہسپتال سے گھر واپس
گئے۔ یہ تصویر قوم نے سوشل میڈیا اور اپنے اخبارات میں بھی ملاحظہ کی۔ وہاں
سادگی اختیار کرنا ایک عام بات ہے، وہاں کا وزیراعظم بھی اسی ماحول میں
رہتا اور سادگی سے زندگی گزارتا ہے۔ پاکستان واپس آتے ہی اپنے حکمرانوں پر
مرتب ہونے والا اثر فوری طور پر زائل ہو جاتا ہے، یہاں وہی شاہانہ اندازِ
زندگی کے اطوار لوٹ آتے ہیں۔ پروٹوکول پر بے دریغ خرچ کیا جاتا ہے، گاڑیوں
کی قطاریں، پولیس کی سیکڑوں کی نفری، بندوبست ، اہتمام ذرا سی نقل و حرکت
پر بہت زیادہ رقم اڑا دی جاتی ہے۔ اب رمضان میں سستے بازاروں کا عالم ہی
دیکھ لیں کہ وہاں پر وزراء کی ڈیوٹیاں ہیں، انتظامی افسران پابند ہیں، چار
سُو میاں برادران کے چھوٹے بڑے سیکڑوں فلیکس آویزاں ہیں، یہ تمام اخراجات
غیر ضروری ہیں، قیمتوں کو کنٹرول کرنا حکومت کا کام ہے، مگر یہاں تو اس کی
تشہیر پر ہی لاکھوں لگا دیئے جاتے ہیں ۔
سادگی اور بچت کے دعوے تو بہت سنائی دیتے ہیں، ایوانِ صدر اور وزیراعظم
ہاؤس کے علاوہ وزیراعلیٰ ہاؤس پنجاب کے اخراجات میں بھی کروڑوں روپے کا
اضافہ کردیا گیا ہے۔ اب تازہ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ایوانِ وزیراعظم کی
تزئین و آرائش پر بیس کروڑ روپے کے اخراجات اٹھیں گے۔ ممکن ہے اس مسکین
دفترکی حالت اس قدر خستہ ہوگئی ہو، یا اس کی دیواروں پر بچوں نے پنسلوں سے
لکیریں کھینچ دی ہوں، یا اس کے فرش اکھڑ گئے ہوں، یا اس کی دیواروں سے چونا
گر رہا ہو، اس لئے اس کی دوبارہ تزئین وآرائش کی ضرورت پڑ گئی ہو۔ بیس کروڑ
اگرچہ بہت بڑی رقم ہے، مگر کھرب پتی لوگوں کے سامنے کروڑوں کی کوئی زیادہ
اہمیت نہیں ہوتی، وہ بھی اس صورت میں جب معاملہ قومی خزانے کا ہو، اگر
سرکاری خزانے سے بھی بے دریغ روپیہ استعمال نہ کیا جائے تو حکمرانی کا کیا
مزہ؟ بتایا گیا ہے کہ دو کروڑ سے زائد کے باتھ روم بنیں گے۔ اُدھر قومی
اسمبلی میں وزیرخزانہ کے خطاب کے دوران پنتالیس حکومتی ارکان واک آؤٹ کر
گئے، ان کا مطالبہ تھا کہ ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے،
اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹس کی تنخواہیں کم
کردی جائیں۔ ان کایہ بھی کہنا تھا کہ اسحاق ڈار ہماری بات نہیں سنتے اب ہم
کسی وزیر کو نہیں وزیراعظم کو اپنے مطالبات پیش کریں گے۔ ممبران اسمبلی جب
دفاتر کی آرائش اور باتھ روموں کی تعمیر پر بیس کروڑ کا خرچہ دیکھتے ہیں،
تو انہیں اپنی تنخواہیں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ ان کی یہ بھی سادگی ہے یا
پھر وزیر خزانہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کہ جن کی بات ایک وزیر نہیں سنتا تو
وزیراعظم ان کی کیا سنیں گے؟ |
|