ریلوے کی کہانی سنتا جا شرماتا جا

کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن کی پٹریاں ٹرینوں کے انتطار میں خاموشی سے راستہ تکتی ہیں۔ لیکن ویران اور اجاڑ پلیٹ فارم پر ماضی کی کوئی رونق نظر نہیں آتی۔ برصغیر میں ٹرین لانے کے لئے انگریز نے بڑی جدوجہد کی، سرمایہ لگایا، اور اس سستے وسیلہ سفر کو عام کیا۔ پاکستان کی تباہی میں ریلوے کا ہاتھ زیادہ ہے یا واپڈا کا۔ کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن ان دو اداروں میں جو لوٹ مار کی گئی ہے اور اداروں کو تباہ وبرباد کردیا گیا ہے اس کے اثرات اور مضمرات پوری قوم کو برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ ریلوے کی وزارت ان چار وزارت میں سے ایک ہے جسے اربوں روپے کے فنڈز دیئے گئے۔ لیکن اس پیالے کے پیندے میں سوراخ ہے جو اسے کبھی بھرنے نہیں دیتا۔ عوام ریلوے حکام کو اپنی شکایات سنائیں تو ہمارے وزیر مملکت برائے ریلوے فقیر جادم منگریو انہیں ٹرین میں سفر کے دوران درود شریف پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس ملک کے عوام کا اللہ سے ایک رشتہ خاص ہے۔ یہ اپنے حکمرانوں کی بداعمالیوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اور اس پر جس شکر اور صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسی کے طفیل یہ گاڑی چل رہی ہے۔ ریلوے کا خستہ حال ٹریک بہت پرانا ہوچکا ہے، ٹرینوں اور پٹریوں کی حالت نہایت خراب ہے۔ آئے دن حادثات اور انکوائریاں ہوتی ہیں۔ لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ اس غریب محکمے پر دو دو وزیروں کا بوجھ ہے۔ ریلوے کی کراچی سے میرپور خاص تک کی سینکڑوں ایکڑ اراضی کو غیرقانونی طور پر فروخت کردیا گیا یا پھر اس پر قبضہ کر کے کرپٹ افسران نے اپنے لوگ بٹھا دیئے ہیں۔ یہ اتنی مالیت کی ہے کہ اس سے ریلوے کو نیا وجود دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان ریلوے ایک ایسا ادارہ ہے جو تمام تر مساعد اور زبوں حالی کے باوجود عوام کو ایک آرام دہ اور سستا سفر اور مال برداری کے انتہائی کم قیمت پر فرائض سر انجام دے سکتا ہے۔ لیکن حکمرانوں اور بیورو کریسی کی لوٹ مار کی وجہ سے یہ ادارے تباہ حال ہیں۔ حکمرانوں کی نااہلیوں اور بیورو کریسی کی بے ایمانیوں نے اس ادارے کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ مزدور کہتے ہیں کہ اگر ریلوے کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے تو چھ ماہ سے ایک سال کے مختصر ترین عرصے میں اس کو منافع بخش ادارہ بنایا جاسکتا ہے۔ پاکستان ریلوے میں انیس سو آٹھہتر کے بعد یکے بعد دیگر اقتصادی جھٹکے دئیے گئے۔ انیس سو چھہتر کے آخر میں پاکستان ریلوے کیرج فیکٹری اسلام آباد کا ایک معاہدہ بنگلہ دیش ریلوے کے ساتھ کیا گیا۔ جس میں کیرج فیکٹری کو ایک سو پچاس کوچز بناکر بنگلہ دیش کو دینی تھیں۔ جس پر عمل درآمد انیس سو ستتر میں ہوا۔ اور بیس کوچز بنگلہ دیش کو دی گئیں اور جب ضیاءالحق آمریت ملک پر مسلط ہوئی تو ریلوے کی بد عنوان اور نااہل بیوروکریسی نے گھپلے کرنا شروع کر دئیے جس کی وجہ سے وہ معاہدہ ختم ہو گیا۔ پھر مشرف آمریت میں تمام مزدور دشمن اقدامات کئے گئے۔ فوجی حکومت اور کمیشن مافیہ نے مل کر ریلوے کیرج فیکٹری کو دیوالیہ کرنے کے اقدامات کئے۔ بجائے فیکٹری کو خام مال مہیا کرنے کے جس کی وجہ سے فیکٹری اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھائے اور اس فیکٹری میں کام کرنے والے تقریباً تین ہزار پانچ سو محنت کشوں کو فائدہ پہنچتا اور ادارے کو بھی فائدہ ہوتا۔ اس کے برعکس چین سے ایک معاہدہ کوچز خریدنے کا کیا گیا جس کی وجہ سے اربوں کا نقصان ہوا اور کروڑوں روپے کا کمیشن کھایا گیا۔ ریل کا محنت کش انتہائی کسمپرسی کی حالت میں مبتلا ہے۔ تنخواہ کم اور ڈیوٹی 12گھنٹے کرنی پڑتی ہے ۔ ادارے میں مسلسل ڈاؤن سائزنگ کی جارہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لگ بھگ ڈیڑھ ارب روپے ماہانہ خسارے پر چلنے والا سرکاری ادارہ پاکستان ریلوے پینسٹھ ارب روپے کا مقروض ہونے کے بعد دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ قومی خزانے پر بوجھ اس ادارے نے بھاری شرح سود پر مزید 21ارب روپے کا قرض لے لیا ہے اس رقم سے پاکستان ریلوے چین سے نئے انجن اور بوگیاں خریدے گا۔ ریلوے کی کہانی کرپشن' غیر ذمہ داری' اقربا پروری اور سیاسی نوازشات کی ایسی عجیب کہانی ہے جس کا ہر لفظ حسرت و یاس میں ڈوبا ہوا ہے۔ تین عشرے قبل پاکستان ریلوے منافع بخش ادارہ تو نہ تھا لیکن ملک بھر کے عوام بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنے کی بجائے ٹرین میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور پلیٹ فارمز پر ہر وقت عوام کا رش رہتا تھا۔ لیکن اب اس کی سروس کئی علاقوں میں بند کردی گئی ہے۔۔ وہ علاقے جن میں ریلوے نے اپنی سروس بند کر دی تھی' ریلوے حکام نے ان علاقوں سے ریل کی پٹڑیاں اکھاڑ کر بیچنی شروع کر دیں۔ ملک میں جب بھی کوئی حکومت تبدیل ہوئی تو نئی آنے والی حکومت نے اپنے لاڈلوں اور چہیتوں کو ریلوے میں بھرتی کرانا شروع کر دیا۔ بڑے بڑے نالائق اور کام چور افراد ریلوے میں بھرتی کئے جاتے رہے اور محکمانہ خسارے کا باعث بنتے رہے۔ اس وقت بھی ریلوے پر بھرتیوں کے لئے زبردست دباﺅ ہے۔ ہر روز ہزاروں افراد بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہیں۔ کرپشن عام ہے۔ مشرف دور میں ریلوے کے خسارے سے تنگ آکر اس کی نجکاری کی بات بھی چلتی رہی لیکن پتہ نہیں کن وجوہات کی بنا پر یہ ادارہ نجی تحویل میں نہ دیا جاسکا اور ایک نئی گیم شروع کر دی گئی کہ اگر چین سے نئے انجن اور نئی بوگیاں خرید لی جائیں تو معاملات کو درست کیا جاسکتا ہے اس حوالے سے مشرف دور میں ایک عجیب لطیفہ بھی ہوا چین سے انجن اور بوگیاں منگوالی گئیں اور پاکستان پہنچنے پر پتہ چلا کہ یہ پاکستانی ریلوے لائن کے حساب سے زیادہ چوڑی ہیں۔ کیا پاکستان انہی لطائف کے لیئے بنا تھا،۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418888 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More