بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مٹی میں ملے ہوئے بہت سے بیج اور جڑیں جو طویل عرصے سے نیم مردہ حالت میں
پڑے ہوتے ہیں، جونہی موسم بہار آتا ہے تو ان میں زندگی کی رمق پیدا ہو جاتی
ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے گردو غباراڑانے والے میدان شادا بی سے لہلہانے
لگتے ہیں۔ آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے سبزہ اور ہریالی کو دیکھ کر انسان
تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس سے قبل یہاں دھواں اڑا کرتا تھا اور دلوں کو
فرحت بخشنے والے سبزہ کا یہاں نام و نشان تک نہیں تھا۔ بالکل ایسی ہی مثال
مسلمان اور رمضان المبارک کی ہے، چونکہ انسان خطا کا پتلا ہے ، سارا سال
عبادات و معاملات میں اس سے غلطیاں اور کوتاہیاں سرز د ہوتی رہتی ہیں اور
امت مسلمہ کے بہت سے افرا دکے دلوں میں ایمان کی حرارت کمزور ہونے لگتی
ہے۔ایسے میں اﷲ تعالیٰ رمضان المبارک کا موسم بہار لے آتا ہے۔ مسلمان مساجد
کا رخ کرتے ہیں ، اﷲ کی رضا کے لئے بھوک اور پیاس برداشت کرتے ہوئے روزے
رکھتے ہیں ، قرآن کی تلاوت اور صدقہ و خیرات کو معمول بنا لیتے ہیں۔ اسی
طرح جن کو اﷲ توفیق سے نوازے وہ اعتکاف کی بھی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ اپنی
نظروں کی حفاظت ، جھوٹ ، غیبت ، چغلی ، حسد ، بغض ، کینہ اور اس طرح کے
دیگر گناہوں سے بچتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کے اندر ایمان کی چاشنی اور
شادابی پھر سے تازہ کر دیتا ہے اور وہ تقویٰ اور پرہیز گاری کے راستے پر چل
پڑتے ہیں۔ رمضان المبارک میں ایک ماہ کے مسلسل روزے رکھوانے کا مقصد ہی یہ
ہے کہ وہ تمام گناہ جو انسان کی عادت بن چکے ہوتے ہیں اور انسان انہیں گناہ
ہی نہیں سمجھتا، اﷲ تعالیٰ انہیں بھی ختم کروانا چاہتا ہے اور اپنے بندوں
کو گناہوں سے بالکل پاک صاف کرنا چاہتا ہے۔ روزہ کے مسائل و احکامات ،
فضائل ، نما زتراویح ، کن لوگوں پر روزہ رکھنا فرض اور کن لوگوں کو اس کی
رخصت ہے ، اعتکاف و دیگر مسائل پر اخبارات میں علمائے کرام کے بہت سے
مضامین شائع ہو چکے ہیں اور ان پر دوبارہ قلم اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم
درج ذیل سطور میں صرف رمضان المبارک میں ادا کئے جانے والے ایک اہم فریضے
کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں جس کا ادا کرنا سب پر واجب ہے، اسے صدقہ فطر
کہتے ہیں۔صدقہ فطر کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کی حدیث ہے کہ
عید الفطر سے قبل پیدا ہونے والے ایک دن کے بچے کا فطرانہ ادا کرنا بھی
لازم ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے روزہ دار
کو لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک کرنے اور مساکین کو کھلانے کے لئے صدقہ
فطر مقرر فرمایا ہے، لہٰذا جو نمازعید سے قبل ادا کرے، اس کا صدقہ مقبول
ہوا اور جو نماز کے بعد ادا کرے تو عام صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے ( نہ کہ
واجب صدقہ )…… یعنی اسے صدقہ فطر نہیں کہا جا سکتا ……( ابن ماجہ ، کتاب
الزکوٰۃ ، باب صدقۃ الفطر )……اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں کہتے ہیں کہ ’’ ان (
امیروں ) کے مال میں سے سائل اور محروموں کا حق ہے ‘‘ اس لئے یہ بات بھی
ذہن نشین رہنی چاہیے کہ غربا ء و مساکین کو صدقہ فطر ادا کرنا ان پر کوئی
احسان نہیں ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی حدیث ہے کہ صدقۃ الفطر ادا کرنا ہر غلام اور
آزاد ، مرد اور عورت ، چھوٹے اور بڑے ہر مسلمان پر فرض ہے……( بحوالہ : صحیح
بخاری )……بعض کم علم لوگ اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کسی
صورت درست نہیں ہے۔ صحیح احادیث میں صدقہ فطر(فطرانہ) کی مقدار ایک ’’ صاع
‘‘ یعنی تقریباً اڑھائی کلو ہے ……( بخاری ، مسلم)…… مختلف صحیح احادیث میں
صدقہ فطر کی ادائیگی کے لئے مندرجہ ذیل چیزوں کا ذکر ہوا ہے : گندم ، جو ،
کھجور ، آٹا ، پنیر اور عام خوراک۔ مثلاً دالیں ، چنا ، سوجی وغیرہ……(بحوالہ
: صحیح بخاری )……یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ صدقہ فطر ہر گھرانے پر اس کی
استطاعت اور حیثیت کے مطابق فرض ہے، یعنی امیر اور غریب دونوں پر ایک ہی
جنس کے حساب سے فطرانہ ادا کرنے کی بات درست نہیں ہے۔ جن گھرانوں کے باورچی
خانوں میں گندم کے ساتھ ساتھ چاول ، پنیر ، کھجور وغیرہ کثرت سے استعمال
ہوتے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ اڑھائی کلو گندم کے حساب سے فطرانہ دے کر ہی
گزارہ کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق جو چیزیں آپ کثرت سے
استعمال کرتے ہیں، وہ اعلیٰ اور قیمتی چیزیں بطور صدقہ فطر ادا کریں۔ مثلاً
پنیر ، کھجور وغیرہ یا اس کی مالیت کے مطابق رقم ادا کریں تاکہ غریبوں کو
بھی مہنگی اور اچھی اشیاء کھانے کو مل سکیں۔آج بھی تھرپارکر سندھ، بلوچستان
اورملک کے مختلف علاقوں میں ایسے افراد کی بڑی تعداد موجود ہے جنہیں رمضان
المبارک کے ایام میں سحری و افطاری کے لئے بھی کچھ میسر نہیں ہے اور وہ
پانی پی کر روزہ رکھنے پر مجبور ہیں۔وہ غریب اور مستحق بھائی جنہیں خوراک ،
لباس اور صاف پانی کی اشد ضرورت ہے۔ پوری قوم کو چاہیے کہ وہ اپنی زکوٰہ ،
صدقات اور فطرانہ انہیں ادا کرے تاکہ ان کی مشکلات کم کی جا سکیں۔ اس سلسلے
میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن جیسی رفاہی و فلاحی تنظیموں نے تھرپارکر سندھ
اور بلوچستان کے انتہائی پسماندہ علاقوں میں زبردست ریلیف آپریشن شروع کر
رکھا ہے اور اس مقصد کے لئے کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔اسی طرح تعلیم و
صحت سمیت دیگر شعبہ جات میں بھی ہر سال کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اس
لئے اس کار خیر میں حصہ لینے کیلئے ان ٹیلی فون نمبرز 0321-8444991 ،
0300-4455591اور 042-37230550پر رابطہ کیاجاسکتا ہے تاکہ متاثرین وزیرستان،
غرباء ، مساکین اور مستحق افراد کے معمولات زندگی بحال کرنے میں ان کی مدد
کی جا سکے۔ فطرانہ ادا کرنے کے وقت سے متعلق نبی اکرم ﷺ کی حدیث ہے کہ صدقہ
فطر(فطرانہ)لوگوں کے عید گاہ کی طرف جانے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے ……(بحوالہ
: بخاری ، مسلم )……سیدنا ابن عمر رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ لوگ یہ
صدقہ عید سے ایک دو روز پہلے دیدیا کرتے تھے ……( بخاری )…… صدقہ فطر کا
ابتدائی وقت عید سے چند روز پہلے اور آخری وقت عید کی نماز سے پہلے ہے ……(
موطا امام مالک )……علمائے کرام نے یہاں بھی مختلف احادیث کو تطبیق دیتے
ہوئے یہ بات کہی ہے کہ فطرانہ جس قدر جلد ممکن ہو اد ا کرنا چاہیے تاکہ
مستحق لوگوں تک بروقت پہنچ سکے اور انہیں بھی عید کی خوشیوں میں شریک کیا
جا سکے۔
|