تحریر: قاضی کاشف نیاز
ایک عرصے بعدپاکستان کے لیے ایک بڑی حوصلہ افزا ء اور خوش کن خبرآئی کہ
پاکستان بھارت کے خلاف حیدرآباد دکن فنڈ کامقدمہ جیت گیاہے۔ یہ مقدمہ
برطانیہ کی لندن ہائی کورٹ میں68سال سے زیرسماعت تھا۔ دفترخارجہ کے مطابق
انگلش ہائیکورٹ نے بھارت کی طرف سے پاکستان کے حیدرآباد فنڈ دعویٰ کے خلاف
کوشش کو مسترد کردیا۔انگلش کورٹ کی طرف سے منگل کو سنائے گئے75 صفحات کے
فیصلے میں جج ہینڈرسن نے واضح طورپر پاکستان کے اصولی موقف کی تصدیق
کردی۔بھارت عدالت میں پاکستان کے اس دعویٰ کو غلط قرار دلوانے میں ناکام
رہا کہ 20 ستمبر 1948ء سے پاکستان کے ہائی کمشنر کے نام پر بنک میں پڑے
ہوئے 35 ملین برطانوی پاؤنڈپاکستان کی ملکیت ہیں۔ جج نے اس بات کو قبول کیا
کہ اس رقم کے پاکستانی دعویٰ کی حمایت میں مضبوط شہادت موجود ہے جن کو
ٹرائل کے دوران پوری طرح سے زیر غور لایا جائے گا۔ جج نے یہ بھی تسلیم کیا
کہ پاکستان کے موقف کے حق میں مضبوط قانونی دلائل دئیے گئے ہیں۔ بھارت کو
اس کی درخواستیں مسترد ہونے کے نتیجے میں کافی اخراجات کے دعویٰ کا سامنا
کرنا پڑے گا۔1947-48ء کے واقعات بہت گھمبیر تھے۔ ریاست حیدرآباد دکن (جسے
جج نے اس وقت ایک آزاد ریاست تسلیم کیا)پر بھارتی حملے اور قبضے کا خطرہ
تھا۔ اس نے پاکستان کو مدد کیلئے بلایا۔ برطانوی حکومت کی دستاویزات کے
ریکارڈ کے مطابق برطانوی حکومتی حکام کو بھارت کے ریاست(حیدرآباددکن) اور
اس کے عوام کے ساتھ سلوک کے بارے میں تشویش تھی جس میں محاصرہ کئے جانے،
ریاست میں خوراک اور ادویات کی سپلائی روکنے کی وجہ سے نظام کو بھارت میں
شمولیت پر مجبور ہونا پڑا۔ جج کے سامنے رکھی گئی اعانتی شہادتیں برطانیہ کے
سرکاری آرکائیو سے آئی تھیں جو اس وقت کی برطانوی انٹیلی جنس رپورٹس اور
برطانوی حکومت کی دستاویزات پر مشتمل تھیں جو برطانوی حکومت کی طرف سے سارے
معاملہ کا علم رکھنے سے متعلق تھیں۔بھارت کی طرف سے اس مواد کو مسترد کیا
گیا حالانکہ یہ برطانوی انٹیلی جنس ذرائع سے آیا تھا اور بھارت کی طرف سے
کہا گیا کہ آخری ساتویں نظام نے اسے یہ رقوم پاکستان کو منتقلی کے بعد دنوں
کے اندر واپس لانے کے لئے کہا تھا کیونکہ یہ ان کی مرضی سے پاکستان کے
حوالے نہیں کی گئی تھیں۔ جج نے آبزرویشن دی کہ ان حالات میں جب بھارت نے
ملک پر قبضہ کرلیا اور اسے زبردستی اپنے آپ کو حوالے کرنے اور اختیارات
دینے پر مجبور کردیاتوساتویں نظام سے اپنی آزادانہ خواہش کی توقع نہیں رکھی
جاسکتی تھی۔ جج نے کہا کہ یہ تصور کرنا بے وقوفی ہوگی کہ انڈین قبضے کے بعد
نظام نے یہ مطالبہ اپنی مرضی سے کیا ہوگا۔ اس مقدمے کی اب اس کے حل کئے
جانے تک سماعت ہو گی۔ ستمبر 1948ء میں اس وقت کی دکن حکومت کے وزیر خزانہ
نے 940،1.007 پاؤنڈ اور 9 شیلنگ کی رقم خاموشی کے ساتھ لندن میں اس وقت کے
پاکستانی ہائی کمشنر حبیب ابراہیم رحمت اﷲ کے نام بنک میں جمع کرا دی تھی
جو اب بڑھ کر 3کروڑ 50 لاکھ پاؤنڈ ہوچکی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا
نے ایک بیان میں کہا کہ75 صفحات پر مبنی عدالتی فیصلہ حیدر آباد فنڈ پر
پاکستان کے اصولی موقف کی تائید ہے۔یقینا یہ بات درست ہے لیکن سوال یہ ہے
کہ کیاہمارا اصولی موقف صرف پیسوں کے حصول کی حدتک تھا۔ یہ پیسے
اگرپاکستانی روپوں میں بدلے جائیں تو 5ارب روپے سے کچھ زائد بنتے ہیں۔اگرچہ
یہ کسی حدتک ایک خطیررقم ہے لیکن اتنی بڑی بھی نہیں کہ اس کے لیے ہم
حیدرآباد دکن کے حوالے سے اپنے اصل اصولی مؤقف کو یکسرفراموش کیے رکھیں۔رقم
چاہے اس سے بھی کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوتی‘قومیں پیسوں کے عوض اپنے اصل
موقف کو کبھی نہیں بھولتیں۔ پاکستان کااصل موقف تو حیدرآباد دکن کی پوری
ریاست پراپنے دعویٰ کا تھا۔ آج پیسوں کے اس کیس میں خود برطانوی جج نے
تسلیم کرلیاکہ بھارت نے حیدرآباد دکن پر بزور طاقت قبضہ کیا اور یہاں تک
کہہ دیا کہ نظام حیدرآباد نے اگر قبضے کے بعد حیدرآباد دکن فنڈ کاپیسہ
پاکستان سے واپس کرنے کوکہا تھا توبرطانوی جج کے نزدیک نظام کایہ
کہنابھارتی قبضے کے بعد کبھی بھی آزادانہ نہیں ہوسکتا۔حیدرآباددکن کے حوالے
سے پاکستان ہمیشہ یہ کہتاآیاہے کہ نظام حیدرآباد نے اصولی طورپر پاکستان سے
الحاق کا فیصلہ کر لیاتھا لیکن بھارت نے 11ستمبر1948ء کو قائداعظم کی وفات
کے فوراً بعد حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 13ستمبر1948ء کو وہاں پولوآپریشن
کے نام سے ملٹری ایکشن کیا۔ 2لاکھ کے قریب لوگوں کا وہاں قتل عام کیاگیا۔
نظام نے قتل وغارت روکنے کی شرط پرہتھیار ڈالنے اور بھارتی فیصلوں کو
مجبوراً تسلیم کرنے کااعلان کردیا۔ اب ظاہرہے یہ سب کچھ بھارت نے نظام سے
گن پوائنٹ پرکرایا۔اس کی تصدیق حیدرآباددکن کے فنڈ کے مقدمے سے اب واضح
طورپرسامنے آگئی ہے۔جب ایک برطانوی ہائیکورٹ کاجج صرف مال مقدمہ کے فیصلے
میں بھارت کی یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیارنہیں کہ نظام نے بھارتی قبضے کے
بعدپاکستان سے پیسے کی واپسی کامطالبہ آزادانہ کیاہوگا‘توپوری ریاست کے
حوالے سے اگربھارت کی طرف سے نظام کی بات سامنے لائی جائے کہ اس نے بھارتی
قبضے کے بعد بھارت کے حق میں الحاق کی حمایت کردی تھی تو یہ بھی اسی طرح
کابلکہ اس سے بھی بڑا جھوٹ ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست حیدرآباددکن
پربزور طاقت بھارتی ناجائزقبضے کابھی پوری دنیانوٹس لے۔ پاکستانی حکام کا
خاص طورپر فرض ہے کہ وہ مال مقدمے پربھارتی جھوٹ واضح ہونے کے بعدصرف اس
پراطمینان کاسانس لے کرخاموش نہ ہوجائیں بلکہ اس سے فائدہ اٹھاکرریاست پر
بھارت کے ناجائز قبضے کو بھی پوری دنیاکے ہرفورم اور ہرادارے میں بے نقاب
کریں۔ جوناگڑھ‘مناوادر‘کشمیراورمشرقی پاکستان پربھی اسی طرح بھارت نے ملٹری
ایکشن کرکے ہی قبضے کیے۔ اب بھارت کے ان غاصبانہ ہتھکنڈوں کوپوری دنیاکے
سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ افسوس کی بات تویہ ہے کہ بھارت کی جواہرلال
نہرویونیورسٹی کی ہندوپروفیسرز نویدیتامیمن‘ تانیکالرکاراورپروفیسرہیلی مون
توچندماہ قبل ببانگ دہل یہ کہہ چکے ہیں کہ بھارت نے غیرقانونی طورپرنہ صرف
جموں کشمیر‘حیدرآباددکن‘جوناگڑھ بلکہ منی پور اور ناگالینڈ پربھی جبری
طورپر قبضہ کررکھاہے۔نویدیتامیمن کے بیان کی ویڈیو یوٹیوب پر بھی موجودہے
لیکن پاکستان میں اس مسئلے پر مکمل خاموشی ہے جسے توڑنااب ازحدضروری ہے۔
یہ بات یادرہے کہ قیام پاکستان سے قبل حیدرآباددکن کی ریاست ایک آزاد
وخودمختار ریاست تھی۔1292ء میں علاؤالدین خلجی نے اس ریاست کو تسخیرکیااور
یہاں سے خراج لیتارہا۔بعدمیں حسن گنگو بہمنی نے آزاد وخودمختار اسلامی
سلطنت کی بنیاد رکھی ۔اورنگ زیب عالمگیر کے کمانڈر قمرالدین خان نظام الملک
نے اٹھارہویں صدی میں اس کی عنان اپنے ہاتھ میں لے لی اور پھر سات پشتوں تک
ان ہی کے خاندان میں یہ حکومت رہی۔ ریاست کارقبہ فرانس کے برابر ہے۔ جب
سعودی عرب میں تیل دریافت نہ ہوا تھا توحیدرآباد دکن سعودی عرب کا ایک
تہائی بجٹ برداشت کرتی تھی۔ دیگر عرب اورمسلم ملکوں کی بھی یہاں سے کافی
امداد کی جاتی۔علامہ شبلی نعمانی ‘علامہ سید سلمان ندوی‘علامہ اقبال
اورایسے بہت سے مشاہیر اسلام کو یہی مملکت و ظائف عطاکرتی تھی۔1924ء میں
مسلمانوں کے معزول ہونے والے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید کی بیٹی دکن کے
آخری نظام آصف کی بہوتھیں۔ غرض نظام حیدرآبادکی تمام ترہمدردیاں اسلام اور
عالم اسلام کے ساتھ تھیں تووہ پاکستان کے خلاف کیسے ہوسکتاتھا۔پاکستان بنا
تواس کے حصے کے صرف 3فیصد ہتھیار بھارت نے پاکستان کو لینے دیئے۔سرکای
ملازموں کی تنخواہوں کے لیے خزانے میں پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔ان حالات میں
ہندوبنئے کاخیال تھاکہ پاکستان بمشکل چندماہ ہی چل سکے گا۔اس مشکل وقت میں
حیدرآباددکن نے پاکستان کی10کروڑ کی امداد کی خواہش پر20کروڑ تمسکات کی
امداد کی۔1948ء میں پیپرمل کے لیے دکن آنے والی مشینری نظام کے حکم پرمشرقی
پاکستان کی بندرگاہ پراتارلی گئی۔ پاکستان بننے سے پہلے ہی مملکت دکن کی
جانب سے پاکستان میں سفارتخانہ کھول دیاگیا۔ اسٹیٹ بنک آف حیدرآباد دکن بھی
قائم ہوچکاتھاجس میں مملکت دکن کا52کروڑ اثاثہ جمع تھا‘یہ بھی پاکستان کے
حوالے کردیاگیا۔ آج بھی عبداﷲ ہارون روڈ کراچی پراسٹیٹ بنک کی بلڈنگ
حیدرآباددکن کی خریدی ہوئی ہے۔ یورپی ممالک کے بنکوں میں جورقومات مملکت
دکن کی جمع تھیں‘ وہ بھی حکومت پاکستان کومنتقل کردی گئیں۔ہتھیاروں سے بھرے
ہوئے جہاز جو حیدرآباد نے منگوائے تھے‘بھارت کے قبضہ شروع ہونے کے خدشہ کے
تحت کراچی اور چٹاگانگ روانہ کردیے گئے۔جوسوناملکی حالات کی سنگینی کی وجہ
سے پاکستان منتقل کیاگیاتھا‘وہ بھی سقوط دکن کے بعدحکومت پاکستان کو ہی
ملا۔کیاکوئی معمولی عقل رکھنے والا بھی یہ سوچ سکتاہے کہ بھارت کی بجائے
پاکستان کی ہرطرح سے مدد کرنے والا بلکہ پاکستان پر اپنے سارے وسائل نچھاور
کرنے والا حکمران پاکستان کی بجائے بھارت سے الحاق کا فیصلہ کر سکتاہے۔یہ
سب تو تاریخی حقائق کوجھٹلانے کے مترادف ہے۔ تاریخی حقائق تویہ ہیں کہ نظام
آف حیدرآباد دکن نے بھارتی قبضے کے بعد بھارت کواستصواب رائے کی پیشکش بھی
کی تھی لیکن بھارت اسے بھی نہ مانا۔حیدرآباد دکن کے ریاستی ذمہ داران
بھارتی ملٹری ایکشن کے خلاف اپنا کیس سلامتی کونسل بھی لے گئے لیکن یہ کیس
آج تک کشمیرکی طرح اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہونے کے باوجود سردخانے میں
پڑاہے۔ب وقت آگیاہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کی طرح حیدرآباددکن اور جوناگڑھ
ومناوادر کے مسئلوں کو بھی زندہ کرے۔ خاص طورپر حیدرآباددکن فنڈ کاجوفیصلہ
پاکستان کے حق میں ہوا‘اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاکر بھارت سے نہ صرف
پیسہ لیاجائے بلکہ ریاست بھی واگزار کروائی جائے۔اس لیے کہ قومیں اپنا
اصولی موقف کبھی نہیں چھوڑتیں ‘نہ اپناایک انچ بھی کبھی دشمن کو بخشتی ہیں۔ |