یمن،شام کی صورتحال اور ہمارے فرائض
(Prof Talib Ali Awan, Sialkot)
گذشتہ چند سالوں سے وطن عزیز میں دہشت گردی،فرقہ واریت اور
ٹارگٹ کلنگ پورے عروج پر رہی ہے جس سے ہر اک محب ِوطن شہری اور امن کا داعی
پریشان تھا مگرجب چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے حلف اٹھایا توان کے
خاندانی پس منظر کو دیکھتے ہوئے اور ان کے پہلے ہی خطاب( جس میں انہوں نے
پاکستان کواندرونی وبیرونی خطرات سے پاک کرنے کا اعادہ کیا تھا)سے ہرانسان
دوست اورپاک سر زمین سے محبت و عقیدت رکھنے والے کے دل میں یہ اُمید پیدا
ہوئی کہ شائد ہم بھی ایک ایسے معاشرے کو پروان چڑھتا ہوا دیکھ سکیں گے جس
میں انسانیت کی قدر کی جا ئے گی اورنہ کہ ایسے معاشرے میں جہاں اسے جس کاجی
چاہا جانوروں کی طرح سڑکوں اورچوراہوں پر ذبح نہیں کیا جائے گا،جہاں اس وطن
کے معصوم پھولوں کو محض صرف سکول سے دور رکھنے کی غرض سے نہیں مسل دیا جائے
گا،یا بیچارے غریب ،بھوک کے ماروں مزدوروں کو صرف پیسوں کی حرص کی بدولت
زندہ نہیں جلادیا جائے گا۔
حالات جیسے بھی ہوں ہم سب کے انفرادی و اجتماعی فرائض ہیں جواس ملک کا شہری
ہوتے ہوئے ہم سے ہمارے مثبت کردار کو ادا کرنے کا تقاضا کرتے ہیں
اورخدانخواستہ اگراب کی بار بھی ہم اپنا مثبت حصہ ڈالنے سے قاصر رہ گئے تو
شائد آئندہ ہمیں موقع نہ ملے اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کوستی رہیں۔
پاکستان آرمی نے جہاں ’’آپریشن ضربِ عضب ‘‘میں دہشت گردوں کو کاری ضرب
لگائی ہے اور ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہاں اندرون ِملک بھی ملک دشمنو ں
کا صفایا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھ رہی ہے۔شائد اسی وجہ سے عوام میں
سابقہ ادوار کی نسبت، فوج سے امن و امان کے حوالہ سے ہر پاکستانی کے دل میں
کافی زیادہ اُمیدیں پیدا ہو گئیں تھیں۔پھر اچانک یمن،شام کی خانہ جنگی نے
عالمی صورتِ حال ایسی بدلی ہے کہ پاکستان کوتاریخ کے اک نازک دوراہے پر لا
کھڑا کیاہے اورایسے لگ رہاہے کہ ہم پرایک بار پھر 9/11کے بعد جیسے حالات
تھوپے جا رہے ہیں ۔اگرتاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو سعودی عرب اور ایران
دونوں مختلف ادوار میں پاکستان کے نہایت قریبی دوستوں میں سے رہے ہیں جہاں
سعودی عرب نے ہر مشکل گھڑی میں ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے وہاں ایران نے
بھی ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں ہماری ہر سطح پر حمایت کی تھی۔مزید برآں یہ
بھی حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں ان ممالک کے بارے میں پسندیدگی کے حوالہ سے
دو مختلف آراء موجود ہیں لہذاوقت کا یہ تقاضا ہے کہ کسی کی جنگ میں کودنے
سے پہلے تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لیا جائے ، ایسا نہ ہو کہ ہمیشہ کی طرح
وقت گزر جانے کے بعدپچھتانا پڑے ۔اس مسئلہ کا سب سے بہتر اور پائیدار حل اس
سلسلہ میں یہ ہے کہ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو بشمول
اپوزیشن وپاک فورسزاعتماد میں لے کر ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے
قومی مفاد کو ترجیح دی جائے اور کوشش کی جائے کہ تمام متاثرہ فریقین مل کر
کوئی جامع اور دیر پا حل نکالیں ،پاکستان مشترکہ دوستی کا حق رکھتے ہوئے
ثالث کا اہم کردار ادا کر سکتا ہے تاہم خدانخواستہ اگر حرم پاک کی عزت و
تکریم کو کوئی ٹھیس پہنچنے لگے تو پھر صرف پاک فوج ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان
کو اس کی خفاظت کی خاطرہر قسم کی قربانی کے لیے تیا ر اور سیسہ پلائی کی
دیوار ثابت ہونا چاہیے۔ |
|