سیاست کی بساط تو پوری دنیا میں سجتی ہے لیکن جو سیاسی
منظرنامہ سرزمین پاکستان کے باشندوں کو دیکھنے کو ملتا ہے وہ شاید دنیا کے
کسی اور ملک کے نصیب میں نہیں ہے ۔اور یہ اعزاز بھی پاکستان کو ہی حاصل ہے
کہ سیاست دان یہاں جمہور کے کندھوں پر سوار ہو کر اور جمہوریت کے ڈھول کی
تھاپ پر رقص کرتے ہوے اقتدار کے ایوانوں میں متمکن ہوتے ہیں اور پھر آمریت
کا لباس پہن کر کھوکھلی جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں جبکہ دوسری جانب
آمر طاقت کے زور پر مسند اقتدار تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور بعدازاں جمہوری
تماشہ لگا کر عوام کو مطمن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔البتہ آمروں اور جمہوری
حکمرانوں کے نشیب و فراز کے اس کھیل میں سیاسی مہروں میں کوئی خاطر خواہ
تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ ہر دور حکومت میں اپنے مفادات کی بنجر زمین
کو سیراب کرنے والے یہ سیاسی مہرے لیاقت، قابلیت اورصلاحیت جیسے اوصاف سے
نابلد ہی کیوں نہ ہوں عیاری،مکاری ،طوطا چشمی اور سازشوں کا جال بچھانے میں
اور حکومتوں پر قبل از وقت برا وقت پہچاننے میں یدطولیٰ کے حامل ہیں۔۔جب تک
حکومت ثابت قدم ہویہ ان کی شان میں معمولی سی گستاخی کو بھی گناہ سمجھتے
ہیں بلکہ ان کی شان میں کوئی دوسرا بھی اس عمل کا مرتکب ٹھہرے تو یوں
ہنگامہ برپا کرتے ہیں جیسے یہ اپنے لیڈر کے سب سے بڑے خیرخواہ ہیں اور ان
کے راستے میں بچھے کانٹوں کو اپنے ہاتھوں سے چن رہے ہیں ۔ میری دانست میں
آسمان بھی ان کی عقیدت کے اس انوکھے انداز پر مسکراتا ہو گا اورفضاوں میں
اڑتے پرندے بھی ان کی وفاداری اور اپنے لیڈر سے لگاو کو دیکھ کر محو رقص
ہوتے ہوں گے ۔جیسا کہ میں ذکر کرچکا کہ حکومت پر برے وقت کو پہچاننے میں ان
کا کوئی ثانی نہیں لہٰذا ان دنوں اک مرتبہ پھر ان سیاسی مہروں کی جانب سے
اک انوکھا اور منفرد کھیل شروع ہونے کو ہے ۔کچھ عرصہ پہلے تک مسلم لیگ ن
بطور ایک سیاسی جماعت کافی مضبوط نظر آ رہی تھی ۔ چوہدری نثار اور خواجہ
آصف کے گروپس کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہتی تھیں لیکن دونوں سیاستدانوں
کے میچور ہونے اور پارٹی سے والہانہ نسبت کی وجہ سے پارٹی میں نقب لگنے کے
امکانات نہ ہونے کے برابر تھے لیکن اب ملک کی اس اہم سیاسی جماعت میں
سازشوں اور دھڑے بندی کی بازگشت بام عروج پر پہنچ چکی ہے ۔شنید ہے کہ
اختلافات معمولی نوعیت سے چھلانگ لگا کر سمندر کی طرح وسعت اختیار کر چکے
ہیں اور ایک بے چین گروپ بھی منظر عام پر آچکا ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ
پارٹی میں اپنا وقار ڈھونڈ رہے ہیں جو انہیں تاحال نہیں مل سکا۔درحقیقت یہ
ایک ایسا مفاد پرست ٹولہ ہے جنہوں نے حکومت کا برا وقت سونگھ لیا ہے ۔ کوئی
مانے نہ مانے لیکن سچ یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی اولاد کا نام پاناما لیکس
کی زد میں آنے کے بعد اور اپوزیشن کے متحد ہونے پر ن لیگ دفاعی پوزیشن پر
چلی گئی ہے اور رہی سہی کسر میاں صاحب کی بیماری نے پوری کر دی ہے ۔میاں
صاحب عارضہ قلب میں مبتلا کیاہوے پارٹی میں ایسے ایسے لوگوں نے پر پرزے
نکالنے شروع کر دئیے ہیں جن سے کچھ عرصہ قبل تک اس قسم کے اقدام کی ہرگز
توقع نہ تھی۔ میں سمجھتا ہو ں موجودہ صورتحال کی ذمہ داری ن لیگ کی قیادت
پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ن لیگ 2013 کے الیکشن میں واضح اکثریت سے جیت گئی تھی
لیکن نہ جانے میاں صاحب کو کیا سوجھی کہ چن چن کر ق لیگ سے وابستہ سیاست
دانوں کو پارٹی میں شامل کرنا شروع کر دیا حتیٰ کہ میاں برادران پارٹی کے
سینئر اور مخلص ساتھیوں کے احتجاج کو بھی خا طر میں نہ لائے اور اپنی یہ
مشق جاری رکھی۔سچ تو یہ ہے کہ میاں صاحب نے یہ سب کچھ چوہدری برادران کی
سیاست کو دفن کرنے کے لیے کیا تھا اور ق لیگ کی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے
یہ کڑوا گھونٹ پیا تھالیکن میاں صاحب اس دوران یہ بھول گئے کہ یہ سیاست دان
موقع دیکھ کر ایسی ضرب لگاتے ہیں کہ پارٹی کا دھڑن تختہ ہونے میں کوئی
زیادہ دیر نہیں لگتی ۔میاں صاحب نے ان سیاست دانوں کو اپنی صفوں میں شامل
کرتے وقت اس بات کو فراموش کر دیا کہ یہی وہ سیاست دان ہیں جن کی جانب سے
رچائے گئے مفاد پرستی کے کھیل نے پاکستان کے سینہ پر ایسے گہرے زخم لگائے
ہیں جن کا مداوا ناممکن نظر آتا ہے ۔ان حریص اور لالچی عوامی نمائندوں کی
وجہ سے ہی پاکستان کی معاشی کشتی کو ہمیشہ سوراخ ہوتے رہے ہیں اور اب تو ان
کی روش میں تبدیلی کے امکانات بھی معدوم ہو چکے ہیں ۔ان بہروپیوں کی زبان
پر ہمہ وقت حب الوطنی کا ترانہ رواں رہتا ہے لیکن حقیقت میں ملک کو دیمک کی
طرح چاٹ رہے ہوتے ہیں ۔اب ایک مرتبہ پھر حکومت کو کمزور ہوتا دیکھ کر بلیک
میلنگ پر اتر آئے ہیں ۔کچھ عرصہ تک میاں صاحب کی زیارت کو ترسنے والے اب
حکومتی دعوتوں اور ضیافتوں کو بھی ٹھکرانے لگے ہیں جس سے میرے گزشتہ کالم
کی تائید ہوتی ہے کہ نئی سیاسی جماعت کی آمد آمد ہے ۔اور ان میں سے بیشتر
حکومتی رویہ کو جواز بنا کر نئے سیاسی گھر میں منتقل ہو جائیں گے ۔میں
سمجھتا ہوں ایسے عوامی نمائندے پاکستانی سیاست کے ماتھے پر بد نما داغ ہیں
۔ عوام کو ایسے مفاد پرست عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور اپنے ووٹ کا
درست استعمال کر کے ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹھکرا دینا چاہیے تا کہ نہ
رہے بانس نہ بجے بانسری ۔یہ وہ لوگ ہیں جو بار بار چہرہ بدل کر مفاد پرست
نظام کو تقویت پہنچاتے ہیں ۔ دوسری جانب میاں صاحب بھی اپنی عادت سے مجبور
ہیں اور دھن کے پکے ہیں جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو عام کارکن سے بھی
بغل گیر ہونے میں فخر سمجھتے ہیں اور جونہی اقتدار کی لذت سے سرشار ہو
جائیں اپنی جماعت کے ایم این اے تک کو گھاس نہیں ڈالتے ۔میاں صاحب کی یہ
عادت متعدد دفعہ ان کو امتحان میں ڈال چکی ہے اور اب ایک نئی آزمائش ان کے
لیے تیار ہے ۔میاں صاحب کو ایک جانب تو موقع پرست اور باغی ساتھیوں کی سازش
کا مقابلہ کرنا ہو گا اور دوسری جانب محترمہ مریم صاحبہ اور حمزہ شہباز کے
درمیان اقتدار کے حصول کے لیے جاری کوششوں کو بھی مثبت سمت دینا ہو گی
۔مریم صاحبہ کا میاں صاحب کی غیر موجودگی میں پارٹی امور کی دیکھ بھال کرنا
اور غیر ملکی سفیروں سے ملنا جلنا اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ وہ
مستقبل میں جاندار سیاسی کردار ادا کرنے کو تیار ہیں جبکہ دوسری جانب مریم
صاحبہ کے اس متحرک کردار پر حمزہ شہباز کے مضطرب ہونے کی بھی اطلاعات
ہیں۔یاد رہے حمزہ شہبازبھی بعض مواقعوں پر اپنی سیاسی دھاک بٹھا چکے ہیں
اور ن لیگ میں ایک بہت بڑا سیاسی حلقہ ان کی صلاحیتوں کا معترف ہے ۔
میری دانست میں میاں برادران کی سیاسی بصیرت کودیکھتے ہوے یہ کہا جا سکتا
ہے کہ وہ شاید اس مسلہ کو تو حل کر لیں لیکن باغی ارکان کی بے چینی اور
بغاوت ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ کیونکہ یہ وہ فصلی بٹیرے ہیں جو
صرف سرسبزو شاداب پیڑ پر ہی بسیرا کرتے ہیں خزاں کے موسم میں کنارہ کش ہو
جاتے ہیں ۔ان کی ساری سیاست ہی بہار اور خزاں کے پینڈولم کا طواف کرتے
گزرتی ہے ۔ اب دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ میاں صاحب کس طرح اس صورتحال کو
قابو کرتے ہیں ۔ ان باغی ارکان کی سازشوں کا گلہ دبانے میں کامیاب رہتے ہیں
یا خود حسب روایت اقتدار سے الگ ہوتے ہیں۔ |