تاریخ ساز

تقسیم برصغیر کے نتیجہ میں پاک بھارت دو ممالک نے آزادی کا علان کیا ،بلا شعبہ اس دوران برطانیہ معاشی بدحالی کے باعث کئی ممالک سے رول بیک کرنے جا رہا تھالیکن اس کے یہاں سے جانے کے پیچھے ایک عوامی و مسلح جدوجہد کاواضع اثرتھا یہاں کے لوگوں نے آزادی کے لئے بڑی قربانیاں دیں اور بھاری قیمت ادا کی تھی ۔لیکن شو مئی قسمت کہ عشروں آزدی کی جنگ لڑنے و قربانیاں دینے والوں نے آزادی ملتے ہی محض دوماہ تیرہ دن بعد اپنے پہلو میں موجود ایک چھوٹے سے ملک’’کشمیر‘‘ کی آزادی کو صلب کر لیا تھا ۔برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا یہ وہ سیاہ کالا کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک ان کی تاریخ کو چڑاتا رہے گا ۔یہ جتنے بھی عظیم وسپر پاور بن جائیں لیکن جب جب مورخ کا قلم اس خطے کی تاریخ کی جانب رخ کرے گا تو اسے ان کے عظیم چہروں پر ایک کالا دھبہ نظر آئے گا ۔ان ممالک نے فقط ریاست کی آزادی کوہی صلب نہیں کیا بلکہ اس کی وحدت کو بھی پارہ پارہ کیا ۔جبراً دو حصوں میں تقسیم کر کے اس کے سینے پر ایک سرخ لکیر کھینچ ڈالی اور اس پر ہی قناعت نہیں کی بلکہ مذید تقسیم کے عمل کو جاری رکھا اور ان دو حصوں کو مذید تقسیم کر دیا اور اس پر ستم کہ اس کی اس جغرافیائی تقسیم کے ساتھ ساتھ اس کے باسیوں کو بھی تقسیم کرکے بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا دیں ۔جموں لداخ کو وادی سے الگ کر دیا اور گلگت کو آزاد کشمیر سے الگ کر دیا ، تقسیم کے اس بھیانک کھیل نے اس قدیم و محکوم ومظلوم قوم کی کمر توڑ کر رکھ دی ،اس کی وحدت پارہ پارہ ہو گئی ۔

ابتداء سے ہی اس ریاست کو ہڑپنے کی جستجو میں مصروف عمل قوتوں نے اس کی جغرافیائی و فکری وحدت پر حملے کئے اور منقسم ریاست کے سبھی حصوں و وسنیکوں کے درمیاں مصنوعی فاصلے پیدا کئے اور پھر ان میں نفرتوں کا بیج بویا ۔جموں لداخ کو وادی کے خلاف وادی کو جموں کے خلاف گلگت کو آزاد کشمیر کے خلاف اور آزادکشمیر کو وادی کے خلاف ۔جب اس تقسیم سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اپنے حاشیہ آلہ کاروں کے زریعے جو پہلے سے آن ڈیوٹی تھے ‘‘لوگوں کو برادریوں ،قبیلوں میں تقسیم کروایا اور پھر اس تقسیم کو گاوں کی سطح تک پہنچا دیا اور یوں وہ قوم جو کبھی اتحاد و یگانگت کی مثال ہو اکرتی تھی آج مکمل طور منتشرہے ۔اس دیس میں 1586میں دیار غیر سے حکمراں درآمد کر کے ایک انوکھی روائت قائم کی گئی جس کی جڑیں اس قدر مضبوط ہیں کہ آج منقسم ہونے کے باوجود اس کے سبھی حصوں کے لوگوں نے ’’آقا‘‘ درآمد کرنے کی اس بھیانک روائت کو شدومد سے جاری رکھا ہے فرق اتنا ہے کہ 47کے بعد یہاں مشرقی و مغربی سرحدوں سے ملحق علاقوں میں دیوی دیوتاوں کے مختلف کارخانے قائم ہو چکے ہیں جہاں ان داخلی راستوں سے آئے روزہجوم یہ صدائیں بلند کرتے نمو دار ہوتے ہیں ’’دیکھو دیکھو کون آیا ‘‘۔۔ان کے کندھوں پر کوئی نئے ماڈل کا دیوتا یا ’’آقا‘‘ہوتا ہے ۔غلامی کی اس بدترین روائت نے اس قوم کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیاہے، ترجیحات بدل چکی ہیں احساس مر چکا ہے ۔لوگ غلامی سے پیار کرتے ہیں آزادی کو غداری کہنے لگے ہیں ۔سطحی سی ضروریات کے لئے عوام کے اقتدار اعلی کو بیچا جاتا ہے ۔ووٹ بکتے ہیں ضمیر بکتے ہیں سرعام دکانیں سجتی ہیں ۔عشروں تک لوگوں کے سامنے آزادی و خودمختاری کا راگ الاپنے والے غیر ملکی سیاسی کمپنی کا محض ٹوکن حاصل کرنے پر فخریہ اندازمیں نظریاتی وابستگی سے انحراف کر نے میں زرہ شرم محسوس نہیں کرتے ،کہیں سرعام قومی غیرت بک رہی ہے تو کہیں چھپ چھپا کر ۔اکثریتی سوچ محض شام تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور ایلیٹ کلاس در حقیقت غیر ملکی آلہ کار و ملازمین کا وہ جتھہ ہے جس نے یہاں کے عام آدمی کی اس سطحی سوچ کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے خاندانوں کو پر آسائش زندگی دینے کامیاب ہوا۔اور یوں چند لوگوں کی عیش وآسائش سے بھرپور زندگی پر قومی آزادی ووحدت و اختیارات سبھی کچھ غیر کے ہاں گروی رکھ دیئے گئے لیکن’’ عام آدمی‘‘ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کیوں کہ وہ بالادست قوتوں کے پھیلائے ہوئے جال میں بری طرح پھنس چکا ہے ان حالات نے اسے ہیبناٹائز کر دیا ہے ۔دونوں حصوں میں مختلف ممالک کا قبضہ مختلف قوانین اور مختلف ٹاوٹ ہیں ،ہاں ایک قدر مشترک ہے کہ جہاں جب بھی کوئی صدائے حق بلند ہو تب بڑی آسانی سے اسے’’ غداری ‘‘کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے ۔عجیب رسم ہے جو اپنی قومی آزادی و وحدت کا مطالبہ کرے وہ غدار اور ’’وطن فروش‘‘محب وطن ہوتے ہیں ۔گلی گلی میں غلامی کا پرچار کرنے والوں کو پھولوں کے ہار پہنا کر کندھوں پر اٹھا کر جشن منائے جاتے ہیں اور ہر پانچ برس بعد غیر ملکی سیاسی کمپنیوں کے لئے اس دیس کے اقتدار کا ٹینڈر کھلتا ہے اور جواچھی بولی لگاتا ہے اسے اپنا کمیشن ایجنٹ مقرر کر کے یہ علاقے ٹھیکے پر دیدیئے جاتے ہیں ۔ان وطن فروشوں کو جنہیں حکمراں کہا جاتا ہے غیر کے ہاں استعمال ہونے کے دو اہم راستے ہیں ایک تو ان سے وزارتوں کا سودہ کیا جاتا ہے اور پیشگی اور ماہانہ کمیشن مقرر ہوتا ہے دوسرا دنیا کے سامنے ان کے منتخب ہونے کو کشمیر کی متعلقہ ملک سے وابستگی ظاہر کیا جاتا ہے بدلے میں انہیں مخصوص مراعات دیدی جاتی ہیں اور اس طرح اس سارے عمل میں قومی مفاد کی قیمت پر چند خاندان کو پرآسائش زندگی گزارنے کی ضمانت مل جاتی ہے جب کہ متعلقہ عوام ہر بارپہلے سے زیادہ مسائل میں گھر جاتے ہیں جس سے نجات کے لئے غیر اخلاقی وغیر انسانی راستے تلاش کئے جاتے ہیں جس کے باعث معاشرہ روزافزوں زوال پذیر ہے ۔دوسری جانب انقلابیت کے دعویدار وں میں بھی بڑی تعداد بہروپیوں کی ہے جن کا برا مسئلہ انقلابیت کے نقاب میں چھپے روائتی لوگ جن کی عادات اطوار کے باعث سادہ لوح انسانوں کا آزادی پسندوں پر سے اعتبار مفقود ہو رہا ہے ۔پندرہ ،بیس حتیٰ کے تیس تئس برسوں انقلاب و آزادی و خود مختاری کا پرچار کرنے والے کچھ تو زاتی انا کی خاطر دریا برد ہوئے اور کچھ انتہائی حقیر قیمت پر دہلی اسلام آباد بنی گالہ رائیونڈ و گڑھی خدا بخش میں سربسجود ہوئے’’تو جھکا جو غیر کے آگے نہ تن تیرا ناں من تیرا‘‘۔۔۔تو ایسے ماحول میں اگر کوئی دھرتی پتر صدائے حق پر اپنی جان تک قربان کر دے پھانسی پر جھول جائے حتیٰ کے ان تمام تر خرافات و کٹھنائیوں کا سامنا کرتے اپنے اٹل ارادے و نظریات پر قائم و دائم رہتے ہوئے چھیاسٹھ برس گزار دے توشائد ہی کوئی ایسا باضمیر انسان ہوگاجس میں زرہ برابر قومی یا خاندانی غیرت باقی ہو اور وہ اس کی عظمت کو سلام پیش نہ کرے ۔اگر کوئی ہے تو اسے زندہ انسان نہیں کہا جا سکتا ۔یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے سینوں میں آہنی دل رکھتے ہیں جنہیں تاریخ ساز کہا جاتا ہے ۔
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 82095 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.