اِن حالات میں احتساب ممکن نہیں
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
ہماری ایک ٹی او آرز نامی پارلیمانی کمیٹی
بنی تھی۔ شور بہت تھا کہ 12 رکنی یہ پارلیمانی کمیٹی متفقہ ٹی او آرز بنا
کر ہی دم لے گی لیکن کچھ اہلِ عقل و دانش متواتر یہ کہہ رہے تھے کہ یہ محض
وقت کا زیاں ہے، کمیٹی متفقہ ٹی او آرز نہیں بنا پائے گی۔ پھر وہی ہوا جس
کا پہلے سے اندازہ تھا، پارلیمانی کمیٹی ناکام ہوئی اور اب پیپلزپارٹی اور
تحریک انصاف نے مرکزِنگاہ نوازشریف کی ذات کو بنا لیا ہے۔ کپتان صاحب، شیخ
رشید اور حواری تو پہلے ہی اس شوق میں مرے جا رہے ہیں کہ کب وزیراعظم سے
جان چھوٹے اور کب وہ لنگوٹ کس کر میدان انتخاب میں اتریں۔ یوں محسوس ہوتا
ہے کہ جیسے انھیں یقین ہو کہ خفیہ طاقتوں نے اقتدار کا ہما ان کے سر پر ہی
بٹھانے کا ارادہ کر رکھا ہو۔ ہمارے خیال میں اوّل تو کسی ایسی تحریک کا دور
دور تک امکان نہیں جس کے نتیجے میں نوازلیگ کی حکومت کو گھر بھیج دیا جائے،
اگر ایسا ہوا بھی تو پھر حکومت کو گھر بھیجنے والے خود حکومت سنبھالیں گے
نہ کہ کپتان صاحب کے قدموں میں رکھ کر ان کے آگے زانوئے تلمذ تہ کریں گے۔
پاکستان کی تاریخ تو یہی بتلاتی ہے کہ ایسی صورت حال میں ہمیشہ جمہوریت کی
دوکان بند کر کے مارشل لاء کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ اس لیے نقصان تو
بہرحال جمہوریت ہی کا ہو گا۔ رہا احتساب کا معاملہ تو وہ نہ کبھی جمہوری
دور میں ہوا نہ آمریت کے سائے تلے۔ اب کی بار بھی سلطانیٔ جمہور ہو یا
’’طالع آزماؤں‘‘ کی حکمرانی، احتساب بہرحال نہیں ہو گا۔ کیونکہ احتساب سے
کس کو کوئی دلچسپی نہیں۔
تحریک انصاف نے کرپشن کے الزامات لگا کر الیکشن کمیشن میں وزیراعظم کے خلاف
ریفرنس دائر کر دیا ہے اور کپتان صاحب کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن سے
انصاف نہ ملا تو وہ سپریم کورٹ جائیں گے۔ یہ وہ صورت حال ہے جو نوازلیگ کے
لیے مرغوب ترین اور پسندیدہ ترین ہے کیونکہ اس کے پاس وکلاء کی ایسی ٹیم
موجود ہے جو بڑی آسانی سے چکر چلا کر 2 سال تو نکال ہی سکتی ہے۔ ویسے بھی
کیا تحریک انصاف کو نہیں پتہ تھا کہ الیکشن کمیشن تو نامکمل ہے اور اس کی
تکمیل میں ابھی پتہ نہیں کتنا عرصہ درکار ہو گا۔ جب الیکشن کمیشن مکمل ہو
گا تبھی وزیراعظم کے خلاف ریفرنس کی کارروائی شروع کی جا سکے گی تو پھر
تحریک انصاف نے ریفرنس دائر کر کے کس کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی ہے؟ ادھر
ہمارے نظام انصاف کا یہ عالم ہے کہ کینسر کے فیصلوں کا انتظار کرتے کرتے
انسان بوڑھا ہو جاتا ہے اور بعض اوقات تو انصاف کے کل پرزوں کی کارکردگی
دیکھ کر ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ پچھلے دنوں اسلام آباد کی انسدادِدہشت گردی
کورٹ میں تھانہ سیکرٹریٹ کے ایڈیشنل ایس ایچ او نے جو تعمیلی رپورٹ جمع
کروائی وہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کروانے کے قابل تھی۔ 2014ء میں
دھرنوں کے دوران عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کے خلاف ایس ایس پی عصمت
جونیجو اور دیگر پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے خلاف ایف آئی آر
درج ہوئی۔ کیس اسلام آباد کے انسدادِ دہشت گردی عدالت میں گیا لیکن عدالت
کے بار بار بلانے پر بھی جب ’’ملزمان‘‘ حاضر نہیں ہوئے تو عدالت نے ان کے
بلاضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور پولیس کو انھیں گرفتار کر کے عدالت
میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ ایڈیشنل ایس ایچ او نے تاریخی پیشی پر عدالت کو
رپورٹ دی کہ پولیس اپنے طور پر معلوم کر رہی ہے کہ ملزم عمران خاں کہاں ہے
لیکن کوئی مصدقہ اطلاع نہیں مل رہی۔ اگر ملزم کا پتہ چل جائے کہ وہ کہاں ہے
تو اسے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔ ملزم طاہرالقادری ملک
سے باہر ہے اس لیے اس کی گرفتاری ممکن نہیں۔ (یہ رپورٹ علامہ طاہرالقادری
کے لاہور مال روڈ پر دھرنے سے ایک دن بعد پیش کی گئی۔) عدالت نے برہمی کا
اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے ذریعے یہ دونوں ملزمان پورے پاکستان کو
نظر آ رہے ہیں لیکن اگر نظر نہیں آتے تو صرف پولیس کو۔ شاید ہمارے دہشت
گردی کے محترم جج صاحب نہیں جانتے ہوں گے کہ ایسے معاملات میں پولیس کی
آنکھوں میں ہمیشہ ’’ککرے‘‘ پڑے ہوتے ہیں اور ککروں کی موجودگی
میں بینائی تو کمزور ہو ہی جاتی ہے۔ معاملہ اگر عامیوں کا ہوتا تو پولیس
ملزمان کیا، ان کے تمام گھر والوں کو بھی گھیر کر عدالت میں پیش کر دیتی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اداروں کی کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان بنی
رہی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ ادارے حکمرانوں کے در کی لونڈی اور گھر کی
باندی بن کر ہی کام کرتے ہیں۔ اب جبکہ حاکمانِ وقت اور اقتدار کے ایوانوں
کے امیدوار، دونوں ہی احتساب نہیں چاہتے اور ادارے ان کے اشارہ ابرو کے
منتظر رہتے ہیں تو پھر احتساب کیسے ممکن ہے۔ ویسے بھی نوازلیگ ہو،
پیپلزپارٹی یا تحریک انصاف، تینوں بڑی جماعتیں کرپشن کے مگرمچھوں سے بھری
پڑی ہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ احتساب کا ڈول ڈالا جا سکے۔ |
|