سرگوشی!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
وڈے سائیں نے سندھ اسمبلی میں ایک
نیا ریکارڈ قائم کردیا، اپنے ہی قائم کردہ ریکارڈ کو توڑ دیا۔ گزشتہ روز
انہوں نے سندھ اسمبلی میں دو گھنٹے باون منٹ طویل خطاب کیا۔ اس دوران مذاق،
طنز، طعنے، مخالفتیں، ترقی اور دیگر امور پر بات ہوئی۔ ظاہر ہے اس قدر طویل
خطاب میں تنوُّ ع تھا تو دلچسپی قائم رہی۔ وزیراعلیٰ نے اپنی تقریر کو
ہمیشہ کی طرح شعروں سے بھی مزین کیا، اور غلط شعر پڑھنے والی اپنی روایت کو
قائم رکھا۔ بھول جانا ان کی پرانی عادت ہے، شعر اکثر بھول جاتے ہیں اور بعض
اوقات تو دوسروں کے نام بھی، یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے امجد صابری کے قتل
پر بات کرنا چاہی تو وہ جنید جمشید کو شہید کہہ گئے۔ اس سے ایک اندازہ تو
ہوتا ہے کہ جنید جمشید کو بھی وہ اچھی طرح جانتے ہیں، ورنہ یہ نام ذرا مشکل
سے زبان پر چڑھتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ بعض اوقات اپنی سیٹ
بھی بھول جاتے ہیں، جس پر انہیں ان کی مخصوص نشست کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
طویل ترین تقریر میں یقینا اپوزیشن نے مداخلت بھی کی، جس کا شاہ صاحب نے
خوب جواب دیا، پورا بازو ایک طرف کو لہراتے ہوئے مخالف کو مخاطب کیا، ان کے
طعنوں کے جواب دیئے اور جوابی طعنے ارسال کئے۔ اسی دوران سپیکر سراج درانی
نے بھی اپنے وزیراعلیٰ کا بھر پور ساتھ دیا، اور اپوزیشن کے تقریر میں
مداخلت کرنے والے ارکان کو اس طرح ڈانٹا جیسے کوئی سخت مزاج استاد اپنی
کلاس کو ڈانٹتے ہیں۔ ’’سِٹ ڈاؤن، سِٹ ڈاؤن، اسمبلی کا ماحول خراب نہ کریں‘‘۔
اس جملے کو دہرایا بھی گیا اور باڈی لینگویج کا بھی بھر پور استعمال کیا
گیا۔ یوں یہ تقریر طویل سے طویل ہوتی گئی۔ تقریر کے دوران وزیراعلیٰ نے
اچانک سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا، ’’سائیں! آپ میری تقریر سے بور تو
نہیں ہورہے‘‘۔ سپیکر وزیراعلیٰ کی تقریر سے یقینا بور نہیں ہو رہے ہونگے،
کیونکہ وہ تو ’وڈا سائیں ‘ ہیں، اور ان کے سامنے بولنا یا انہیں ٹوکنا گناہ
سے کم نہیں، یہ اپوزیشن ہی ہے جو گستاخی وغیرہ کرتی رہتی ہے، ورنہ پی پی کے
ترکش میں ان سے بہتر کوئی تیر نہیں۔
قائم علی شاہ نے اپنے ہیلی کاپٹر کو بابا آدم کے زمانے کا کہا اور بتایا کہ
اس میں جان خطرے میں ڈال کر سفر کیا جاتا ہے۔ یہ جام صادق کے دور میں خریدا
گیا تھا۔ اب بھی اگر نیا ہیلی کاپٹر لینے کی بات ہوئی ہے تو لوگوں کو
پریشانی ہو رہی ہے۔ عجیب بات ہے کہ یار لوگ شاہ صاحب کو بھی قدیم زمانے کا
انسان سمجھتے ہیں، اس ضمن میں مذاق اور مزاح سے بھر پور تصاویر اور تحریریں
اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہ
صاحب کو کسی بھی صوبے کا سب سے زیادہ عمر رسیدہ وزیراعلیٰ ہونے کا شرف حاصل
ہے، آخر ان میں کوئی خوبی تو ایسی ہے کہ سندھ میں پی پی کی نگاہِ انتخاب
سید قائم علی شاہ پر ہی پڑی ہے۔ ان کی زندہ دلی اور مخالفین کو آڑے ہاتھوں
لینے کی پالیسی بھی بہت کارآمد ثابت ہوتی ہے، جس سے ان کی مقبولیت میں
اضافہ ہوتا ہے۔ اگر اس ہیلی کاپٹر کے بارے میں کسی صحافی یا مخالف سیاستدان
سے معلوم کیا جاتا تو وہ یہی جواب دیتا کہ یہ ہیلی کاپٹر قائم علی شاہ کے
زمانے کا ہے۔ مگر انہوں نے ہیلی کاپٹر کی قدامت کو مزید طول دینے کے لئے
اسے بابا آدم سے جاملایا، ظاہر ہے جہاں تک نگاہ جاتی ہے وہیں تک مثال دی
جاسکتی ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اسمِ بامسمیٰ ہیں، وہ ایک عرصے سے قائم ہیں
اور آج بھی مخالفین کے طعنوں اور طنزوں کے تیر سہتے ہیں، انہیں جواب دیتے
ہیں مگر اپنی سیٹ پر قائم دائم ہیں۔ بہت ساری ظاہری اور باطنی خوبیوں کے
باوجود بھولنے والی عادت ذرا پریشان کرتی ہے، مگر شاہ صاحب اس معاملے میں
پڑتے ہی نہیں، تقریر کے دوارن تو چونکہ وہ اکیلے ہی کھڑے ہو کر تقریر
کرسکتے ہیں، اسمبلی کے فلور پر کوئی ان سے تعاون نہیں کرسکتا، مگر گزشتہ
روز بھی جب وہ تعزیت کے لئے مرحوم امجد صابری کے گھر گئے تو حسبِ روایت
میڈیا نے انہیں آن لیا، اس موقع پر انہوں نے جوبات بھی کی، ان کے کان میں
سرگوشی کی آواز ضرور آئی، تاکہ وہ کسی کا غلط نام نہ بول جائیں۔ اگر سرگوشی
کرنے والے کسی صاحب کی مستقل ڈیوٹی لگا دی جائے تو شاہ صاحب اسمبلی میں شعر
بھی درست پڑھ سکتے ہیں او ر بھولنے والے دیگر معاملات سے بھی نجات پا سکتے
ہیں۔
|
|