ُٓپاکستان کو افغان مشیر رنگین کی, رنگین
اور مضحکہ خیز تنبیہ......؟؟؟؟
نو سال سے افغانستان پر بے تحاشہ بمباری کر کے اِسے کھنڈر بنانے کے بعد
سبکدوش ہونے والی امریکی قونصلر جنرل کینڈس پوٹینم نے پشاور میں ایک پریس
کانفرنس میں بغلیں جھانکتے ہوئے اِن خیالات کا برملا اظہار کیا ہے کہ صدر
اوباما کی پالیسی یکدم واضح اور شفاف ہے کہ ہم افغانستان میں القاعدہ اور
دہشت گردوں کو شکست دینے آئے ہیں اوراِس کے ساتھ ہی اِس موقع پر اُنہوں نے
انتہائی مدہم آواز میں یہ بھی کہا کہ ہم افغانستان سے القاعدہ اور دہشت
گردوں کے مکمل خاتمے تک واپس نہیں جائیں گے تاہم اِن کا یہ بھی کہنا تھا کہ
پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے دہشت گردوں کے گڑھ ہیں اِن کے خلاف
مؤثر کاروائی کی جانی بہت ضروری ہے ہاں البتہ !اُنہوں نے اپنی اِس پریس
کانفرنس میں انتہائی دیدہ دلیری سے امریکا اور اپنے صدر مسٹر اوباما کی اِس
خواہش اور انکشاف کا بھی اظہار کرتے ہوئے حکومت ِ پاکستان کو مشورہ دیا کہ
صدر اوباما اور امریکی عوام چاہتے ہیں کہ پاکستان کے شمالی وزیرستان میں جو
حقانی گروپ چھپا ہوا ہے پاکستان اِس کے خلاف فوری طور پر آپریشن کرے اور
اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے اِس معاملے میں ذرا سا نرم گوشہ رکھتے ہوئے یہ
بھی کہا کہ اَب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ِ پاکستان اِس امریکی مشورے پر کب
اور کیسے عمل پیرا ہوتی ہے .....؟اور اِس کا فیصلہ حکومت پاکستان کو ہی
کرنا ہے کہ وہ اِس امریکی مشورے پر عمل کرتی بھی ہے کہ نہیں.....؟یہ حکومتِ
پاکستان کی صوابدید پر ہے کہ وہ اِس امریکی خواہش کا کتنا احترام کرتے ہوئے
امریکا کی قربت حاصل کر کے اِس سے اِس بہانے اِمداد کی مد میں کتنے ڈالر
بٹورنے میں کامیاب ہوتی ہے.....؟؟؟؟
یہاں میرا خیال یہ ہے کہ جب امریکا افغانستان میں اپنی منہ کی کھا چکا ہے
تو پھر اِسے کیا ضرورت پڑی ہے .....؟کہ وہ اپنی شکست کو زبردستی کی فتح میں
بدلنے کے لئے پاکستان پر اپنا بےجا دباؤ کیوں ڈال رہا ہے.....؟
بہرکیف!اَب اِس بات کی نزاکت کو سمجھنا اور اِس کا انتہائی ترش جواب دینا
ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور فورسز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس امریکی
مشورے اور خواہش کا کس حد تک کس طرح سے جواب دیتے ہیں جس میں امریکا نے
اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے پاکستان شمالی وزیرستان میں حقانی
گروپ کے خلاف بھی آپریشن کرے۔
اور اِسی کے ساتھ ہی ہم پاکستانیوں کے لئے ایک انتہائی مضحکہ خیز خبر یہ
بھی ہے کہ افغانستان جو اِن دنوں نیٹو افواج کی کمین گاہ بنا ہوا ہے جہاں
افغان اور نیٹو افواج معصوم انسانی جانوں کو مار کر اپنے ہاتھ اِن کے خون
سے رنگین کررہی ہیں اِس افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر رنگین وادفر
سپالتا نے کابل میں اے ایف پی کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں امریکی
زبان استعمال کرتے ہوئے اپنے پڑوسی ملک پاکستان کو التجایہ کم مگر دھمکی کے
انداز میں الزام لگاتے اور اِسے تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ القاعدہ اور
دوسرے دہشت گرد گروپ پاکستانی سرزمین سے افغانستان پر حملے کرتے ہیں جس کے
لئے ضروری ہے کہ پاکستان شدت پسند گروپوں کے خلاف سنجیدگی سے کاروائی کرے۔
افغان مشیر مسٹر رنگین کی اِن ساری باتوں کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا
ہوں کہ ایسا لگتا ہے کہ جب افغان مشیر مسٹر رنگین کے پاس اپنے اِس انٹرویو
میں کہنے کو کچھ نہ ملا تو اِس نے اپنے اِس انٹرویو کو کسی معیار کا بنانے
کے لئے ایسی رنگین باتیں کردیں ہیں کہ جس سے ایک طرف تو اِس کا یہ انٹرویو
رنگین ہوگیا ہے تو دوسری طرف اِس نے خود کو یہ کہہ کر عالمی بیان بازی کا
ایک بھاری بھرکم فرد بھی بنانا ہے جس سے اِس کی شخصیت ذرا سی عالمی ہوگئی
ہے۔ ورنہ اگر یہ اپنے اِس انٹرویو میں ایسی بات نہ کرتا تو شائد اِس کے
انٹرویو میں کوئی ایسی خاص بات بھی نہیں تھی کہ اِس کے اِس انٹرویو کو
میڈیا میں کوئی خاص جگہ اِسے ملتی اور یہ موضوع بحث بنتا۔
ویسے اتنا تو مسٹر رنگین کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ نیٹو افواج افغانستان
کو القاعدہ اور دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے یہاں آئی ہیں۔ کیونکہ دنیا
بھر کے القاعدہ کے جنگجو اور دہشت گرد افغان مشیر مسٹر رنگین کے ملک میں
چھپے ہوئے ہیں نہ کہ پاکستان میں ہیں۔ لہٰذا اِسے معلوم ہونا چاہئے کہ دہشت
گرد اور القاعدہ افغانستان میں ہیں جو یہیں سے افغانستان میں حملے کرتے ہیں
اور یہیں چھپ جاتے ہیں۔ تو مسٹر رنگین اَب آئندہ پاکستان سے متعلق اِیسا
پروپیگنڈہ کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی جھانک لو کہ تم اور تمہار ا
ملک خود کیا ہے.....؟؟؟
اور آج یہ دنیا کے لئے یقیناً ایک انتہائی غور طلب پہلو ہے کہ امریکا جو
21ویں صدی کے جدید اور مہلک ترین جنگی سازوں سامان کے ساتھ نو سال قبل
افغانستان میں اِسے فتح کرنے اور اِس پر جبراً اپنا قبضہ جمانے کی نیت سے
گُھسا تھا اُسے اتنا عرصہ پہاڑوں پر بمباری کرنے کے باوجود بھی ابھی تک یہ
یقین کیوں نہیں آرا کہ وہ افغانستان میں اپنے اربوں اور کھربوں ڈالرز بھونک
ڈالنے اور اپنے ہزاروں فوجیوں کو واصلِ جہنم کر ڈالنے کے بعد بھی وہ کیا یہ
جنگ جیت چکا ہے......؟؟؟؟ یا ہار اِس کے مقدر میں کب کی لکھی دی گئی ہے۔
جبکہ تجزیہ نگاروں اور جنگی مبصرین کا یہ خام خیال ہے کہ امریکا افغانستان
میں اپنی یہ جنگ یہ بہت پہلے ہی ہار گیا ہے۔ جس کے باوجود بھی یہ شکست
خوردہ عناصر کی طرح افغانستان میں رکا ہوا ہے۔
مگر دنیا کے سامنے ایک حیرت انگیز نکتہ یہ بھی ہے کہ اَب تک اِن تمام حقائق
سے بے خبر امریکا اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے اپنے اِس عزم میں کیوں غرق ہے
.....؟کہ دنیا کی کوئی طاقت اِسے افغانستان میں فتح سے ہمکنار ہونے سے نہیں
روک سکتی.....؟ اور یہ ہر صورت میں اِن پہاڑوں کی سرزمین اور مضبوط بازوں
اور جسموں والے لوگوں کے ملک افغانستان پر اپنی حکومت قائم کر کے یہاں اپنا
جشنِ فتح منائے گا۔
مگر اِسی کے ساتھ ہی دوسری جانب دنیا اِس حقیقت سے بھی منہ چرانے سے قطعاً
انکاری نہیں ہے کہ امریکا کے افغانستان پر قبضے کے سارے عزائم فیل ہوچکے
ہیں اور امریکا درپردہ افغانستان میں جاری اپنی یہ جنگ بہت پہلے ہی ہار چکا
ہے مگر یہ اِسے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں چُور رہنے اور دنیا کا دادا گیر
بننے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے اِس کھلی حقیقت کو تسلیم کرنے سے کترا
رہا ہے کہ کہیں اِسے افغانستان میں اپنی شکست کا اعلان کردینے کے بعد دنیا
کے سامنے اِس کی سُبکی نہ ہوجائے اور اِس پر دنیا افغانستان میں ذلیل خوار
ہونے کا لیبل نہ چسپاں کردے۔ اور یوں اِس کی داداگیری کا سارا بھرم خاک میں
نہ مل جائے۔ اِس منظر اور پس منظر میں میرا خیال یہ ہے کہ آج امریکا اِس
وسوسے اور ڈر و خوف میں مبتلا رہنے کے باعث افغانستان میں اپنی جنگی شکست
تسلیم کرنے سے گریزاں ہے۔
مگر اِس کے ساتھ ہی دوسری جانب ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ کچھ امریکی جنرلز
گزشتہ کئی دنوں سے اَب اِس حقیقت سے بھی آہستہ آہستہ خود ہی پردہ اٹھانے
لگے ہیں کہ امریکا افغانستان میں بُری طرح سے پھنس چکا ہے اور وہ یہ بھی
کہتے اور دنیا کے ساتھ ساتھ اپنے صدور کو بھی یہ سمجھانے کی کوششوں میں
مصروف ہیں کہ افغان جنگ کا حل طاقت کا استعمال نہیں بلکہ پُر امن مذاکرات
ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اَب اِن تمام باتوں کا ایک ہی ماخذ ہے کہ امریکا اَب
اِس حقیقت کو دنیا کے سامنے رفتہ رفتہ سامنے لانا چاہتا ہے کہ وہ افغانستان
میں جنگ چھیڑ کر بُری طرح سے پچھتا رہا ہے اور یہ جنگ اِس کی توقعات سے
کہیں زیادہ مشکل ثابت ہورہی ہے کیونکہ نو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود
بھی امریکا اِس جنگ سے وہ مقاصد اَب تک حاصل نہیں کرسکا ہے جس کے لئے یہ
افغانستان میں گھُسا تھا۔ امریکا کی اِس غیریقینی کیف کے منظر اور پس منظر
میں مجھے جوزف روکس کا ایک قول یاد آرہا ہے کہ”برائی جیت توسکتی ہے لیکن
برائی کے نصیب میں جشنِ فتح نہیں ہوتا“اور آج دنیا خود دیکھ رہی ہے کہ
امریکا افغانستان میں تباہی مچانے کے بعد بھی اِس مخمصے میں مبتلا ہے کہ
اُسے اَب تک جشنِ فتح منانا کیوں نہیں نصیب ہوا.....؟؟؟؟جو شائد کبھی بھی
نہ ہو اور وہ دن کوئی دور نہیں جب دنیا پر اپنی داداگیری کرنے والا امریکا
جلادِ اعظم افغانستان سے ذلیل و خوار ہوکر نکلے گا۔ |