طالبان سے مذاکرات کیوں

اب تو ناٹو مغربی میڈیا تسلسل سے طالبان سے مذاکرات کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ برطانوی حکومت اس بارے میں سنجیدگی سے کوشاں ہے اور جب برطانوی کسی بارے میں عندیہ دیں تو وہ صیہونی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے جس پر سب کاربند بھی ہوتے ہیں۔ پہلے انہوں نے طالبان کو دہشت گرد سے شدت پسند کہنا شروع کیا پھر مذاکرات اور روابط کا عندیہ دیا۔ پھر یہ بیان آیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مذاکرات شروع کیے جائیں۔

طالبان کے نام پر لاکھوں پاکستانیوں افغانوں اور اسلامی ذہن رکھنے والوں کا قتل عام کیا گیا۔ اس مقصد کے لئے بے تحاشہ ڈالروں سے لوگوں کو خریدا گیا۔ لیکن پھر بھی مؤثر دسترس میں بری طرح ناکامی انکو ذلت آمیز شکست سے قریب تر لیجاتی نظر آرہی ہے۔

اب طالبان کیوں ان سے مذاکرات پر تیار ہونگے ان کا صرف یہ مطالبہ ہے کہ غیر ملکی افواج خطہ سے نکل جائیں۔ اگر امریکا اور اس کے اتحادی مذاکرات پر آمادہ ہیں تو انہیں چاہئیے کہ پاکستان اور افغانستان میں لاکھوں بیگناہوں کے قتل عام پر معافی مانگے۔ جنگ میں اس نے جتنی بربادی کی ہے اسکی تعمیر کا معاوضہ ادا کرے خطہ سے غیر مشروط فوجی انخلا اور خطے میں مداخلت سے باز آ جائیں طالبان حکومت کے اقتدار کو تسلیم کرے۔

ایسی صورت حال میں پاکستان طالبان کی مکمل حمایت کر کے اپنی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدات کی مؤثر حفاظتی اقدام اٹھا کر غیر ملکی مداخلت کے دروازے مکمل بند کرے۔ اور مداخلت پر راست کاروائی کرے۔

طالبان سے مذاکرات کا مطلب آپریشن میں ناکامی ہے۔ اس جنگ کے اخراجات اور اسکے نتائج ہی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ اسے اپنی بقا سے دوچار کردینگے۔ اگر اس صورت میں طالبان مذاکرات کیے بغیر انہیں شکست سے دوچار کر کے خطہ سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئے تو اب امریکہ کے ٹوٹنے کے نظارے بھی دکھائی دیں گے جیسے یو ایس ایس آر دوچار ہوا تھا۔ جس کی متوقع ابتدا 2012 کا سال ہے۔ یہ حالات اسی سمت جاتے نظرآ رہے ہیں۔

لیکن اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں ناکامی کی صورتحال کا متوقع ردعمل بھی سامنے رکھ کر اسکی تیاری بھی ہونی چاہیے۔ پہلے تو امریکہ نے روسیوں سے مذاکرات کر کے اسے واپسی کا موقع فراہم کر دیا تھا لیکن اس بار امریکہ کو محفوظ رستہ دکھانے والا کون ہوگا۔

کیا او آئی سی اس موقع پر جو امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو پوری58 مسلم ریاستوں میں عدم مداخلت اور فوجی اڈے ختم کرنے کی صورت میں محفوظ رستہ فراہم کر سکتی ہے۔ اور صلیبی جنگ کے خاتمے کا اعلان کرے پھر تو نہ صرف خطہ بلکہ دنیا میں امن کا قیام ممکن ہے۔ امریکہ اور اسکے اتحادی پھر بھی ہٹ دھرمی پر آمادہ ہیں تو نہ صرف طالبان بلکہ مسلم امہ بھی مسلط کی گئی صلیبی جنگ کے خلاف مؤثر حکمت عملی اختیار کر کے خلافت کے اجراء کی جدوجہد کرے۔

ایک صدی گزر چلی ہم نے خلافت کے خاتمے سے کیا کیا ثمرات اٹھائے کتنے حکمران کھوئے کتنے علاقوں کو کھویا ۔کتنی ترقی کی۔ یہ جائزہ ہی غلامی سے باہر آنے اور مؤثر اقدمات کے لیے کافی ہے۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75618 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More