صحت کی سرکاری سہولیات ناپید ۔ذمہ دار کون

وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے کہا ہے میں نے دکھی انسانیت کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے ہسپتالوں کو درست کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے جس کے نتائج ایک سال میں عوام دیکھیں گے۔ عام آدمی کو اچھی طبی سہولتوں کی فراہمی کیلئے ہسپتالوں کو ٹھیک کرکے دم لوں گا۔ ہسپتالوں کے غیر اعلانیہ دورے کرکے زمینی حقائق کا جائزہ لے رہا ہوں جس سے حقیقی معلومات ملتی ہیں۔ ہسپتالوں کے معاملات اب اس طرح نہیں چلیں گے۔ متعلقہ حکام کو نتائج دینا ہوں گے۔ شعبہ صحت کی بہتری کیلئے فراہم کئے گئے اربوں روپے کے وسائل کسی صورت ضائع نہیں ہونے دوں گا۔ عوام کو اچھی طبی سہولتیں فراہم کرنے کے حوالے سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افسروں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو اپنے عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ جو کام نہیں کرے گا وہ عہدے پر نہیں رہے گا۔عام آدمی کو بہتر طبی سہولتوں کی فراہمی کیلئے صحت کے شعبہ کیلئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ریکارڈ فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ مریضوں کو ہسپتالوں میں مفت ادویات کی فراہمی پر ہر سال اربوں روپے کے وسائل صرف کئے جا رہے ہیں اور اس کے ثمرات ہرصورت مریضوں تک پہنچنے چاہئیں۔ وزیراعلیٰ نے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال ننکانہ صاحب میں مریضوں کو مناسب طبی سہولتیں فراہم نہ کرنے پرڈی سی او کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے کی ہدایت کی اور ڈی سی او شیخوپورہ کو ہسپتال کے معاملات میں دلچسپی نہ لینے پر وارننگ دی اور ڈی جی ہیلتھ پنجاب کو بھی وارننگ دیتے ہوئے کہا وہ اپنی کارکردگی مزید بہتر بنائیں۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ کمشنرز اور ڈی سی اوز ہسپتالوں کے باقاعدگی سے دورے کریں اور صورتحال کوبہتر بنانے کیلئے اقدامات اٹھائیں کیونکہ اب معاملات کو درست کرنے کیلئے میں خود دورے کر رہا ہوں۔ وزیراعلیٰ نے غریب مریضوں کیلئے منگوائی جانے والی ادویات کی خوردبرد میں ملوث ہسپتال کے اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہسپتالوں میں ادویات کی خوردبرد ایک سنگین جرم ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا ہسپتالوں میں ائیر کنڈیشنز اور جنریٹرز کی مرمت و دیکھ بھال کا مناسب انتظام ہونا چاہیے۔وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا ہسپتالوں کے دورے کرنا اور انکے معاملات کو درست کرنا بے شک احسن قدم ہے۔لیکن انہیں حقائق سے آگاہ ہی نہیں کیا جاتا،صوبائی دارالحکومت لاہور میں بھی بڑے سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے تو ادویات بھی غائب ہوتی ہیں۔ایک چھوٹے سے ٹیسٹ کے لئے چار چار ماہ کی تاریخ دی جاتی ہے۔غریب ہسپتال جائیں تو انکے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسے ان ہسپتالوں میں مسیحا نہیں جلاد بیٹھے ہیں۔مریض کی کسی کو فکر نہیں ہوتی۔پنجاب میں 9واں بجٹ دینے اور مسلسل 8سال حکومت کرنے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کہہ رہے ہیں کہ وہ ہسپتالوں کو ٹھیک کر کے دم لیں گے۔یہ دعویٰ بھی ایک مذاق اور دو روپے میں روٹی بیچنے اور 6 ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوؤں جیسا ہے۔ اگر وزیراعلیٰ پنجاب کے پاس ہسپتالوں کی حالت زار بدلنے کا کوئی ماڈل یا پالیسی ہوتی تو یہ کام آٹھ سالوں میں ہو چکا ہوتا۔8سال کے بعد ہسپتالوں کی حالت زار بدلنے کا عزم پنجاب حکومت کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ شہباز حکومت میں دم ہوتا تو غریب مریض ہسپتالوں کی سیڑھیوں میں دم نہ توڑتے،ینگ ڈاکٹرز، نرسز مسلسل ہڑتال پر نہ ہوتے اور ایک ایک بیڈ پر تین تین مریض نہ لیٹتے۔ کسی بھی حکومت کے پاس اپنے اعلانات اور منشور پر عمل کرنے کیلئے 5سال کا عرصہ ہوتا ہے مگر وزیراعلیٰ پنجاب نے 5سال جھوٹے اعلانات اور دعوؤں میں گزار دئیے۔محکمہ صحت کرپشن کی آماجگاہ اور غریب مریضوں کی توہین اور تذلیل کا مرکزبن چکا ہے۔ راجن پور، مظفر گڑھ کے عوام کو علاج کیلئے لاہور اور اسلام آباد آنا پڑتاہے۔ ہسپتالوں میں دوائیاں ہیں نہ وینٹی لیٹر بلکہ اب تو ڈاکٹرز بھی ناپید ہیں کیونکہ پنجاب حکومت کے ظالمانہ رویے کے باعث کوئی پڑھا لکھا ڈاکٹر سرکاری شعبے میں کام کرنے پر رضا مند نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب 8سال کے بعد ہسپتالوں کو ٹھیک کرنے کے نئے دعوے کرنے کی بجائے ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے عہدے سے الگ ہو جائیں۔ دیہات میں 60فیصد بنیادی ہیلتھ مراکز عملاً بند پڑے ہیں جہاں ڈاکٹر ہے نہ دوائی۔ نتیجتاً غریب مریض عطائیوں کے ہاتھوں اپنی صحت اور پیسہ لٹارہے ہیں۔ انہی عطائیوں کی وجہ سے دیہات میں دل، گردے اور سانس کی بیماریاں عام ہورہی ہیں۔دیہاتوں میں کئی بنیادی ہیلتھ سنٹر ایسے ہیں جہاں بلڈنگ بنا دی گئی لیکن ڈاکٹر سمیت کوئی سہولت دستیاب نہیں۔حد تو یہ ہے کہ پنجاب کو وزیر صحت کے بغیر چلایا جارہا ہے جس صوبہ میں وزیر صحت ہی نہ ہو اس کی ہیلتھ پالیسی کیا ہو سکتی ہے۔ ایک طرف سرکاری ہسپتال ہیں جہاں عوام کی تذلیل انکا مقدر بن چکی ہے تو دوسری جانب رفاہی اداروں کے ہسپتال ہیں جو عوام کے پیسوں سے بہترین صحت کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔چوبرجی چوک میں ثریا عظیم ٹیچنگ ہسپتال گو کہ جماعت اسلامی کا ہسپتال ہے اور بہت بڑا پروجیکٹ ہے لیکن اس میں بھی اقربا پروری اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔صرف بخار ہونے کی صورت میں پرچی فیس تو پچاس روپے لیکن ڈاکٹر ڈوائیاں کم ازکم آٹھ سو کی لکھ کر دیتے ہیں جو انکی فارمیسی کے علاوہ کہیں سے ملتی بھی نہیں۔چوبرجی کے قریب ہی شام نگر روڈ پر مٹھائی والا چوک کے ساتھ والی گلی میں اسحاق ہارون ہسپتال ہے جو انجمن رفاہ عامہ کے زیر انتظام چل رہا ہے۔خواجہ ہارون رشید نے 1976میں اپنی رہائشگاہ22مرلہ ہسپتال کے لئے وقف کی تھی جہاں آج 2016میں ایک بہترین ہسپتال چل رہا ہے۔جس میں ایمرجنسی،ڈینٹل،آنکھوں ،جنرل او پی ڈی،سکن ،ایکسرے،الٹراساؤنڈ،گائنٹی ڈیپارٹمنٹ کے علاوہ لیبارٹری بھی ہے جہاں دیگر لیبارٹریز کے مقابلے میں کم نرخوں میں ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔مختلف شعبہ جات کے سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی فیس ایک سو تک ہے ۔اور تین ٹاٹم کی دوائی بھی ساتھ مفت بھی دی جاتی ہے۔گردونواح کے لوگ اس ہسپتال سے مستفید ہو رہے ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے ماضی کے دور میں اس ہسپتال کا وزٹ کر چکے ہیں اور اسے بہترین ہسپتال قرار دے چکے ہیں۔اسحاق ہارون ہسپتال جیسے ادارے عوامی مدد سے ہی چلتے ہیں جہاں عوام کو ہی بہترین میڈیکل کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔رمضان المبار ک کے مقدس مہینہ میں اس ہسپتال کو بھی یاد رکھا جائے۔ایک اور خبر آئی ہے کہ ہسپتالوں کی رینکنگ کے عالمی ادارے نے سرکاری اسپتالوں کی رینکنگ جاری کردی۔دنیا کے ساڑھے5ہزار بہترین اسپتالوں میں پاکستان کا کوئی بھی اسپتال شامل نہیں ہے۔ عالمی ادارے ’’رینکنگ ویب آف ورلڈ ہاسپیٹل‘‘ نے سرکاری اسپتالوں کی رینکنگ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان کا کوئی اسپتال بھی دنیا کے ساڑھے5 ہزار بہترین اسپتالوں میں شامل نہیں ہے۔’رینکنگ ویب آف ورلڈ ہاسپیٹل کے مطابق جنوبی ایشیا کے بیس بہترین اسپتالوں میں بھارت کے انیس اور بنگلا دیش کا 1اسپتال شامل ہے لیکن پاکستان کا ایک اسپتال بھی ان ٹاپ ٹونٹی میں شامل نہیں ہے۔عالمی جاری کردہ اس رینکنگ میں پاکستان کا بہترین پمز اسپتال بھی دنیا میں پانچ ہزارنوسوگیارہویں نمبر پر ہے۔جبکہ لاہور کا جناح اسپتال اچھے اسپتالوں میں دوسرے اور سروسز اسپتال تیسرے نمبر پر ہے۔چوتھا نمبر پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کا ہے۔ہسپتالوں کی عالمی رینکنگ میں پاکستان کے ہسپتالوں میں دنیا میں 5911 ویں نمبر پر آنا مسلم لیگ ن کے صحت کے شعبے میں دعوؤں کی نفی ہے مسلم لیگ ن کی حکومت صرف دعوؤں پر انحصار کر رہی ہے زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ مسلم لیگ ن صحت کے شعبے کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے ہیلتھ سیکٹر میں خرابیوں اور ذمہ داروں کے تساہل اور عدم توجہ کا نتیجہ ہے کہ آبادی کا 70 فیصد اپنے علاج معالجہ کیلئے پرائیویٹ کلینکوں اور ہسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہے۔ ماضی کی طرح اس بار بھی وزیر اعلیٰ پنجاب ہسپتالوں کی حالت ٹھیک کرنے کے دعوے کر رہے ہیں حکومت کی طرف سے سرکاری ہسپتالوں کو عوام کے علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کیلئے اربوں روپے کے فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں۔ ضروری ہے کہ یہ فنڈز خردبرد نہ ہوں اور غریب مریضوں کو بہتر سہولتیں ملیں۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Mumtaz Haider
About the Author: Mumtaz Haider Read More Articles by Mumtaz Haider: 88 Articles with 70619 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.