رمضان بازار غالب مارکیٹ گلبرگ ٹاؤن میں
رکشہ پر لدا ڈھائی من مضرصحت گوشت جو بکنے کے لیے لایا جا رہا تھا، کی
اطلاع ایک خفیہ کال کے ذریعے ڈائریکٹر فوڈزپنجاب عائشہ ممتازکو ملی،جنہوں
نے فوری ایکشن لیتے ہوئے اسی وقت متعلقہ جگہ کا رخ کیا اورمضرصحت گوشت
پکڑلیا،جب اس کا کریڈٹ لینا چاہا تو انچارج رمضان بازار نے کہا کہ یہ گوشت
میں نے پکڑا ہے اور اس کا سارا کریڈٹ مجھے جاتا ہے،اس کارروائی سے آپ کا
کوئی تعلق نہیں تو وہ حیران رہ گئی کہ واہ کیا بات ہے ان صاحب کی ،ایکشن
میرا اور کریڈٹ ان کا۔ایسے میں وہ اس معاملہ کی گھتیاں سلجھانے کی کوشش
کرہی رہی تھی ،جو ان کو پیش آیا، ان کی نظر اس شخص پر پڑی جس سے یہ مضر صحت
گوشت پکڑا گیاتھا،انچارج رمضان بازار کے دفتر میں بڑے شاہانہ انداز سے
مہمان کی حیثیت سے بیٹھا نظر آیا توسارا معاملہ سمجھ گئی،جس پر ان کی
انچارج رمضان بازار سے توں توں میں میں بھی ہوئی ،مگر حالات کو اس موقع پر
اپنے لیے موافق نہ پاکر حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے یہ کہہ کرواپس چل دی
کہ ٹھیک ہے اس کارروائی کا کریڈٹ تم لے لو مگر مجھے اس پر کارروائی چاہیے
اور یہ آدمی گرفتار نظر آنا چاہیے۔اصل کہانی ہے کیا تھی اور انچارج رمضان
بازار اصرار پراصرار کرکے اس کارروائی کو انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی
کارروائی کیوں بتا رہا تھا اور اوراس کی ایسا کرنے کی وجہ کیا تھی،پر جب
روشنی پڑے گی تو حقیقت سامنے آہی جائے گی۔ عائشہ ممتاز ایک محنتی،نڈراور
تعمیری جذبے کے ساتھ کام کرنے والی خاتون ہے۔ جس کا پتا ان کے اس سسٹم کے
برعکس چلنے والے افراد کے خلاف محکمانہ کارروائیاں ہیں۔جب سے انہوں نے یہ
چارج سنبھالاہے ،وہ مسلسل کام پر کام کیے جا رہی ہے اوراس کرپٹ نظام کے
خلاف سیسہ پلائی کی دیوار بنی ہوئی ہے،جس میں یقینا میری نظر میں ان کے
عملے کا کردار کم اور ان کا ذاتی زیادہ لگتا ہے کیونکہ جس تعمیری جذبے اور
سوچ کے ساتھ وہ اس سسٹم میں بہتری لانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے صرف انہی
کا ایک خاصہ ہے۔ میں نے تو انہیں جب بھی دیکھا،مجھے وہ عوامی صحت کے دشمن ،پیسے
کے پجاری،ہوس زر کے مارے ہوئے ان ہوٹلوں،ریستورانوں کے مالکان کے خلاف
ایکشن لیتے ہوئے کافی مستعد وتوانااور پہلے سے تیار کھڑی نظر آئی لیکن ان
کے ہمرا ہ موجود عملہ میں وہ چستی اور تیزی دیکھنے میں نظر نہیں آتی جو کہ
ان کے ہوتے ہوئے ان میں ہونی چاہیے۔ایسا نہ ہونے وجہ یہ ہے کہ ،،جس کرپٹ
سسٹم سے وہ لڑنے جاتی ہے،اسی سسٹم کے پیدہ کردہ ہیں یہ لوگ،جو ان کے ہمراہ
ہوتے ہوئے بھی اور کارروائی میں بحکم ڈائریکٹر فوڈحصہ لیتے ہوئے بھی مخلص
دکھائی نہیں دیتے ۔ڈائریکٹر فوڈز(جو کچھ دکھانے کا عزم لیے کا م کرتی ہے )یہ
بھول جاتی ہے کہ وہ ایک خاتون ہے، جو جتنی مرضی مضبوط سیٹ پر آجائے،اس کرپٹ
ٹولے سے نہیں جیت سکتی،جس کی نس نس میں کرپشن سمائی ہوئی ہے ،جو ان کے
چھاپہ پڑنے سے پہلے ہی متعلقہ جگہ بتا دیتے ہیں کہ سنبھل جاؤ،ایسی صورتحال
میں جو بیچاری سے بن پاتا ہے،اس پر ایکشن لیتی دکھائی دیتی ہے ،یہی اس کی
دلیری و بہادری ہے،جب وہ اپنے ساتھ میر جعفر،میر صادق جیسے لوگ(جو دل سے اس
کے ساتھ نہیں ہوتے ) بغل میں لیے گھومے گی تو رزلٹ بھی ناقص ہی آئیں
گے۔باالفرض ایسے میں مان بھی لیا جائے کہ یہ کارروائی انچارج رمضان بازار
کی ہے،، جس کا کریڈٹ انچارج رمضان بازار کو دے بھی دیا جائے تومیں اپنے
سولہ سالہ صحافتی تجربے کی روشنی میں یہ بات کر رہا ہوں کہ جس انداز سے
انچارج رمضان بازار نے قصائی کو اپنے دفتر میں بٹھا رکھا تھا ،وہ انداز ڈیل
کا تھا نہ کہ ان کو گرفتار کروانے کا۔وہ تو اﷲ کی رحمت تھی کہ کسی شخص کی
خفیہ کال کرنے پر ،جو جانتا تھا کہ ڈیل ہونے والی ہے۔آپ پہنچ گئی۔شور تو
مچا ہوا تھا ،مضر صحت گوشت کے پکڑے جانے کا،وہ تو ضائع ہونا ہی تھا مگر اس
قصائی سے عیدی اکٹھا کرکے اس کو واپسی کی راہ چلتا بھی کرنے کاپروگرام
تھا،جو آپ کی یہاں آمد پر تلپٹ ہوگیا۔ایک تو وہ آپ کے اس اچانک آجانے پر
بوکھلاسے گئے تھے ،اوپر سے آپ کے کریڈٹ لینے سے برہم اورغیض وغضب کا شکار
ہوگئے ،یوں جو کارروائی انھوں نے نہیں بھی کرنی تھی ،آپ کے حکم اور ڈر کی
وجہ سے انہیں کرنی پڑی۔آپکو بحثیت راقم الحروف میرا مشورہ ہے کہ آپ جب بھی
کوئی کارروائی کریں،صبر وتحمل کے ساتھ کیا کریں،یہ لاکھ کریڈٹ لے لیں،اس کا
سہرہ آپ کے نام ہی سجے گا،،سیانے کہتے ہیں کہ پرالی والے پنڈ دورو ں ہی
سیانپے جاتے ہیں،،اسی طرح ان کا آپ کے ساتھ بعض،ناروہ سلوک واقفان حال(جو
ان کے مکروہ چہروں کو اچھی طرح جانتے ہیں)خوب سمجھتے ہیں۔ایسے میں آپ کو
فکر حق کی کرنی چاہیے نہ کہ باطل کی،کیونکہ حق قائم رہتا ہے اور باطل کو
آخرکار مٹنا ہوتا ہے۔ اس معیار کے لوگ کس بیمار ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں کا
اندازہ اخوت اور پنجاب فوڈز اتھارٹی کے تعاون سے حفظان صحت کے اصولوں کے
عین مطابق کریم مارکیٹ،مون مارکیٹ میں، فوڈ سٹال اور ریڑھیاں لگنے جیسے
شہباز شریف کرپشن فری منصوبہ دیکھ کرشہباز شریف پر اظہاربرہمی کرنااور آپ
کا ہر خاص وعام کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کرنے پران کا ناراضگی
دکھاناہے۔جس پر تفصیلی بات کرکے میں اخوت کاز کو نقصان نہیں پہنچانا
چاہتااور نہ ہی کسی کی خوامخواہ دل آزاری کرنا چاہتاہوں۔میری رائے کے مطابق
آپ کے شانہ بشانہ موجود سب لوگ اس سسٹم کو ڈی ریل کرنے والے ہیں نہ کہ اس
سسٹم میں بہتری لانے کے خواہشمند۔آپ اس بغل میں چھری ،منہ پر رام رام کرنے
والے ٹولے سے خبر دار رہتے ہوئے اپنے مشن کو اپنے ذہن ودماغ کے ساتھ جاری
وساری رکھیے۔انشااﷲ تمام تر مخالفتوں کے باوجودکامیابی آپ کے قدم چومے
گی۔آپ کو اس جدوجہد کو جاری رکھنا ہوگا کیونکہ ارض وطن کی باشعوراور غیور
عوام آپ کی عوام کے لیے گراں قدر خدمات کو تحسین کی نظر سے دیکھتی ہے اور
کہتی ہے کہ ویل ڈون عائشہ ممتاز قدم بڑھاؤ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔
اے آرطارق |