عید خوشیوں کی نوید
(عمران شہزاد تارڑ, منڈی بہاوالدین)
تقبل اللہ منا و منکم صالح الاعمالہر مذہب میں کو ئی نہ کوئی دن ایسا ضرور مقرر ہے کہ اس مذہب کے پیرو کار مذہبی جو ش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری شان و شوکت کے ساتھ اس دن کی خوشیاں مناتے ہوئے فرحت محسوس کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے امت مسلمہ پر خاص احسان کا معا ملہ فر ماتے ہوئے عید الفطر اور عید الاضحیٰ جیسے دو مقدس تہوار عطاء فرمائے ہیں۔ عیدالفطر اقوام عالم کے مسلمانوں کا سب سے بڑا خوشی کا تہوار ہے ، عید الفطر کا تصورآتے ہی ہر مسلمان کے دل میں خصوصی جوش اور ولولہ پیدا ہو جاتا ہے۔ |
|
تقبل اللہ منا و منکم صالح الاعمال
ہر مذہب میں کو ئی نہ کوئی دن ایسا ضرور مقرر ہے کہ اس مذہب کے پیرو کار
مذہبی جو ش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری شان و شوکت کے ساتھ اس دن کی
خوشیاں مناتے ہوئے فرحت محسوس کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے امت مسلمہ پر خاص
احسان کا معا ملہ فر ماتے ہوئے عید الفطر اور عید الاضحیٰ جیسے دو مقدس
تہوار عطاء فرمائے ہیں۔ عیدالفطر اقوام عالم کے مسلمانوں کا سب سے بڑا خوشی
کا تہوار ہے ، عید الفطر کا تصورآتے ہی ہر مسلمان کے دل میں خصوصی جوش اور
ولولہ پیدا ہو جاتا ہے۔
عیدالفطر کا یہ تہوار جو کہ پورے ایک دن پر محیط ہے اسے ”چھوٹی عید” کے نام
سے جانا جاتا ہے جبکہ اسکی یہ نسبت عیدالاضحیٰ کی وجہ سے ہے کیونکہ عید
اضحیٰ تین روز پر مشتمل ہوتی ہے اور اسے ” بڑی عید” کہا جاتا ہے۔ عید عربی
زبان کا لفظ ہے جسکے معنی ،خوشی، جشن ، فرحت اور چہل پہل کے ہیں۔ عید الفطر
کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو روزہ اور
عبادتِ رمضان کا انعام عطا ء فرماتے ہیں۔ گرمی کی حدت وشدت میں روزے کی
محنت ومشقت اٹھانے والے ایسے خوش نصیب ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی رضا
ومغفرت اور گناہوں کی بخشش کے اعزاز سے نوازتے ہیں۔ یہ وہ خوش نصیب ہیں کہ
جن کے اعزاز میں ہونے والی تقریبات کا اہتمام و انتظام فرش پر ہی نہیں عرش
پر بھی کیا جاتا ہے۔
جنت کو ان کے اعزاز میں سجایا، سنوارا جاتااور فرشتوں میں ان کا تذکرہ ہوتا
ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جنہوں نے اس ماہ مبارک کی بر کتوں ، رحمتوں کو سمیٹا،
گناہوں کو بخشوایا، قیام اللیل کیا، دن کو روزے رکھے، سب سے قطع تعلق ہوکر
اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کیا،صبر و ایثار کو اپنایا ، مساجد کو آباد
کیا، ، قرآن مجید کوسنا اور سنایا، اپنی جبینوں کو اللہ رب العزت کے حضور
جھکایا، اپنی زندگیاں، شب روز، معاملات، معمولات، کاروبار، گھربار کو اسلام
کے مطابق ڈھالنے کا عہد کیا۔ جھلسا دینے والی گرمی اور بے تاب وبے قرار کر
دینے والی بھوک وپیاس کو برداشت کیا اور اللہ کی رضا کیلئے رمضان کے مہینے
میں محنت ومشقت کی، عید الفطر ماہ رمضان کے ان روزوں کا انعام ہے ، اور امت
مسلمہ کے مسلمانوں کے لئے خوشیوں کی نوید ہے۔
احتیاط کا دامن تھامتے ہوئے اس دن کو ہم نے اپنے گناہوں سے مغفرت کا دن
بنانا ہے ۔ اور عید سعید کی خوشیوں کے لمحات میں ایسے ہر کام سے بچنا ہے جو
شعائر اسلام کے منافی ہو۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ فرماتے
ہیں۔ ”عید ان کی نہیںجنہوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو زیب تن کیا، بلکہ
حقیقتاً عید تو ان کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے ڈر گئے۔ عید ان کی نہیں
جنہوں نے بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا عید تو ان کی ہے جنہوں نے اپنے
گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے۔” پورے ماہ رمضان قید رہنے کے بعد اس
دن شیطان جو ہمارا ازلی دشمن ہے آزاد ہوجاتا ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس
کے بہکاوے میں آکر ماہ رمضان میں سمیٹی نیکیوں کو ضائع کردیں، اور عذاب
الٰہی کے مرتکب ٹھہریں، لہٰذا عید کے دنوں میں غیر شرعی ، غیر اسلامی
کاموںسے ، بری مجلسوں میں جانے ، ناچنے گانے اور بے ہودہ پروگراموں میں
شرکت سے اجتناب برتنا ضروری ہے۔
عید سعید کی خوشیوں کے موقع پر اپنی خوشیوں میں انکو ضرور شامل کرنا چاہئے
جنکا کوئی پوچھنے والا نہیں، کیونکہ ہمارا پیار مذہب اسلام سب سے زیادہ
معاشرتی اور سماجی فلاح، مساوات اور روداری کا درس دیتا ہے، اور آسودہ حال
مسلمانوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ معاشی طور پر بدحال مسلمانوں کا سہارا
بنیں۔ اپنے لیے تو سب جیتے ہیں، جینا وہ ہے جو دوسروں کی خاطر ہو۔ نبی کریم
صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ”مخلوق اللہ کی عیال ہے اور اللہ کو سب سے
زیادہ محبوب ہے جو اس کی عیال سے محبت کرے۔” اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و
سلم نے فرمایا ” خدا کی قسم وہ مومن نہیں، جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے
اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوک سے کروٹیں بدلتا رہے۔”
ہمیں چاہئے کہ اپنی خوشیوں میں غرباء و مساکیں اور محتاجوں کو بھی شامل
کریں، اور رسمی رکھ رکھاؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غریب لوگوں کو بھی گلے
سے لگائیں گے کیونکہ سچی خوشی تو وہی ہے جو آپ کو ردعمل کے طور پر ملے اور
جب کسی دکھی، غریب ، کمزور کو سینے سے لگایا جاتا ہے تو اس سے یقینا مسرتوں
میں اضافہ ہوتا ہے۔ عید کا دن جہاں پیار محبت اور خوشیاں بانٹنے کا دن ہے
وہاں نفرتوں ، ملامتوں اور ناراضگی کے مٹانے کا بھی دن ہے ، عید کے موقع پر
نفرتوں کو بھول کر ، رنجشوں کو ترک کرکے عزیز رشتہ داروں کو گلے سے لگا نا
چاہئے، نہ معلوم اگلی عید کے موقع پرہمیں ان کی یا انہیں ہماری رفاقت نصیب
ہو یانہ ہو۔ عید کے دن کو یاد گار بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خوشیاں پانے
کی تمنا رکھنے کی بجائے خوشیاں بانٹیں ، کیو نکہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی
ہیں اور یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہی تو زندگی کی راہوں میں تازگی اور مسرتوں
کے چراغ ہیں اگر انکی روشنی دوسروں کی راہوں میں بکھیر دی جائے ان میں کمی
نہیں ہو گی۔
عید کے موقع پر والدین کو خصوصی وقت دینا چاہیے، کیونکہ زندگی کے انتہائی
تیز رفتار شب و روز میں اکثر بزرگوں کو دینے کیلئے ہر چیز ہم خرید کر تو دے
دیتے ہیں اور اشیا صرف کا انبار بھی لگا دیتے ہیں مگر ایک چیز جسکی شدید
کمی ہے اور وہ وقت ہے جو ہم لوگ اپنے والدین اور بزرگوں کو نہیں دے پاتے۔
عید چونکہ نعمت صیام کا انعام ہے، اس لئے جو خوشی اور مسرت کی کیفیت اس
تہوار میں پائی جاتی ہے وہ کسی اور تہوار میں نہیں۔ لیکن ہمارے بدلتے رویوں
اور مصنوعی ماحول کی وجہ سے عید کی حقیقی خوشیاں مانند پڑ جاتی ہیں۔
عید کے موقع پر حقیقی خوشی ایک دوسرے سے ملنے اور مل بیٹھنے سے حاصل ہوتی
ہے لیکن ہم نے باقاعدہ ملنے کے بجائے موبائل کے ذریعے ایس ایم ایس کو کافی
سمجھ لیا ہے، ہمیں نہ صرف اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرنا چاہئے بلکہ
عید کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے کاوشیں کرنا چاہئے ۔ آخر میں قارئین
کرام کو فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان طرف سے عید الفطر مبارک ۔ اللہ رب العزت
سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس عید سعید کی حقیقی خوشیاں نصیب ہوں۔ آمین،، |
|