عبدالستار ایدھی کو سلام عقیدت
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
خدمت انسانیت کی عظیم شخصیت ۔خدا حافظ |
|
|
خدمت خلق کا نشان ، چھ دیہائیوں تک عوام
الناس کی بلا تفریق خدمات کویقینی بنانے والا، لوگوں کے دکھ درد بلا امتیاز
دور کرنے والا،غریبوں ، مسکینوں، ناداروں کے لیے فٹ پاتھ پر بھیک مانگنے
والا، عوام الناس کی خدمت کو ایک نئی جہت اور نئی سمت دینے والا عبد لستار
ایدھی 8جولائی کی شب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگیا۔ انا اﷲ و انا
علیہ راجیعون۔ پاکستان میں آج جتنے بھی خدمت خلق کے ادارے اور تنظیمیں ہیں
ان کے بارے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ انہوں نے خدمات کا ڈھنگ اور سلیقہ
ایدھی سے ہی سیکھا اس کی پیروی کی ۔عبد لستار ایدھی نام ہے ایک ایسی شخصیت
کا جس کی زندگی انسانیت کی خدمت سے عبارت نظر آتی ہے۔ ایدھی نے پاکستان میں
انسانی خدمت کی ایسی لازوال روایت قائم کی کہ آج پاکستان میں بے شمار لوگ
انفرادی اور اجتمائی طور پرلوگوں کی خدمت میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں۔ عبد
الستار ایدھی میرا ذاتی دوست نہیں تھا، میرا رشتہ دار نہیں تھا، اور نہ ہی
اُس سے میرے ذاتی مراسم تھے البتہ میَں نے عبد الستار ایدھی کو اس وقت بہت
قریب سے دیکھا جب وہ جوان تھا ، اس نے اپنی فلاحی خدمات کا کا آغازکراچی کے
علاقے میٹھا درسے کیا تھا،میٹھا در اورمیری رہائش کے درمیان بہت کم فاصلہ
تھا،عبد اﷲ ہارون گورنمنٹ کالج جس میں میَں نے ۲۴ سال خدمات انجام دیں
میٹھادر اور کھارادر سے کچھ ہی مسافت پر ہے۔
عروس البلاد کراچی کی ایک قدیم بستی ’’لیاری‘‘میرے اور عبدالستا ایدھی کے
مابین قدرِ مشترک ہے۔ ایدھی بنیادی طور پر کراچی کی ایک غریب اور کچی بستی
لیاری کا باسی ہے اور میرا بچپن اور جوانی بھی اِسی بستی میں گزری۔ میری
فلاحی اور نیم سیاسی سرگر میوں کا مہوربھی لیاری ہی رہا ۔ لیاری نام ہے
کراچی کی ایک ایسی بستی کا جس میں ایک طرف تو انتہائی غریب لوگ آباد ہیں
تودوسری جانب متوست لوگوں کے علاوہ میمن، کاٹھیاواڑی،گجراتی جو کاروباری
ہیں کھارا در، میٹھا در، وزیر میشن، صرافا بازا ر، میمن سوسائیٹی جیسی
آبادیوں میں چھوٹے چھوٹے فلیٹوں میں رہتے ہیں لیکن وہ مالی طو ر مستحکم
ہیں۔عبد الستار ایدھی نے انسانیت کی خدمات کا آغازا میٹھا در سے کیا
تھا۔تقسیم سے قبل یہاں ہندوں کی اکثریت تھی اب ان قدیم بلڈنگوں میں رہنے
والے مکینوں کی اکثریت میمن، کاٹھیا واڑی،گجراتی، سندھی، ترک اور کچھ سے
تعلق رکھنے والوں کی ہے ۔ یہ علاقہ انتہائی تنگ اور گنجان آباد ہے، میٹھا
در اور کھا را در کے اردگرد واقع علاقوں میں قائد اعظم محمد علی جناح کی
پیدائش گاہ وزیر میشن ، موسی لائن، میمن سوسائیٹی(نوآباد)، کھڈا مارکیٹ،
مجھی میانی مارکیٹ شامل ہیں۔ میٹھا در کے مشرق میں جوڑیا بازار،لی مارکیٹ
،پرانا حاجی کیمپ،گارڈن،لسبیلا ،لیاقت آباد، فیڈرل بی ایریا، گلشن اور
جامعہ کراچی ہے، مغرب میں کراچی پورٹ، کیماڑی ،منوڑہ، جنوب میں صرافہ بازار
اور ککری گراؤنڈ ، موسیٰ لین، کلری، بغدادی، بہار کالونی، آگرہ تاج کالونی
اور شیر شاہ قبرستان اور شمال میں نیو میمن مسجد ،بولٹن مارکیٹ ، سٹی
اسٹیشن،کلفٹن اور ڈیفنس ہے، میرا خاندان قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرکے
کراچی آنے والوں میں سے تھا،ابتدا میں کراچی کی قدیم آبادی ’’کھڈا مارکیٹ‘‘
میں رہائش اختیار کی،کچھ عرصہ کے بعد بہار کالونی منتقل ہوگئے اور پھر’آگرہ
تاج کالونی ‘‘میں اپنا گھر بنا لیا۔ میرا بچپن، جوانی انہی علاقوں میں
گزرا۔
عبد الستار ایدھی کے پرکھو ں کا تعلق ہندوستان کے علاقے گجرات سے تھا،
ایدھی گجرات کے علاقے ’بانٹوا‘ میں ۱۹۲۸ء میں پیدا ہوا، تقسیم ہندوستان کے
وقت اس خاندان نے کراچی ہجرت کی لیاری کا علاقہ میٹھا در ان کا مستقر ٹہرا،
اسوقت ایدھی کی عمر ۱۹ برس تھی۔دکھی انسانیت کا خدمت کا جذبہ ایدھی میں
اپنی ماں کی خدمت سے پیدا ہوا، ایدھی ابھی گیارہ برس کا تھا کہ اس کی ماں
پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ معز ورparalyzedہوگئی،یہی نہیں ہوا بلکہ کچھ ہی
دنوں کے بعد وہ اپنا ذہنی توزن بھی کھو بیٹھی ، ایسی صورت میں اُسے کل وقتی
خدمات گزار کی ضرورت تھی ، ایدھی نے اس کام لیے اپنے سے بہتر کسی کو نہ پا
یااوراس نے اپنی تمام تر توجہ اپنی ماں پر مرکوز کردی اور اس کی خدمات میں
لگ گیا، ایدھی اپنے ماں کے تمام تر کام از خود کیا کرتا تھا، کھانا کھلانا،
کپڑ ے بدلوانا، صفائی ستھرائی کا خیال رکھتا، نہلا نا دھلا ، ایدھی کی
زندگی میں یہی وہ لمحات تھے کہ اس کے اندر انسانیت کی خدمات کا جذبہ بیدار
ہوا۔ ایدھی کی ماں آٹھ سال بعد انتقال کرگئیں اور اپنے بیٹے کے اندر خدمات
کا ایسا جذبہ اجاگر کرگئی جس نے ایدھی کی زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدمت
کا نشان بنا دیا۔ایدھی کی ماں نے ایدھی کو بچپن ہی سے دوسروں کے ساتھ
مہربان رہنے اور غریبوں کی مدد کرنے کی تلقین کی تھی۔ ایدھی نے اپنی ماں کی
اسی نصیحت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ۔
عبد الستار ایدھی کو دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ اپنی ماں کی خدمت کے
نتیجے میں ملا، اگر ایدھی اپنی ماں کی خدمت نہ کرتا تو شاید آج وہ اس مقام
و مرتبہ پر نہ ہوتا، یہ مرتبہ ، یہ اعزاز، یہ مقام ماں کی خدمت کے عوض نصیب
ہوا تھااور اس اعزاز و مرتبے کو پروان چڑھانے میں بھی ایک عورت کا عمل دخل
رہا اور وہ نیک صفت، وفا شعار عورت ہے بلقیس ایدھی ، عبد الستار ایدھی سے
شادی سے قبل بلقیس ایدھی نرس کے پیشے سے تعلق رکھتی تھی اور عبد الستار
ایدھی کی دسپنسری میں خدمات انجام دیا کرتی تھی، ایدھی نے ۱۹۶۵ء میں بلقیس
ایدھی سے شادی کی، شادی کے بعد سے ایدھی کے انتقال تک یعنی 51 سال بلقیس
ایدھی نے اپنے شوہر کا ایسا ساتھ نبھایا کہ جس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔یہ
قدم قدم پر ایدھی کے ساتھ رہی ، ایدھی کو اس مقام، مرتبہ ا ور منزل پر
پہنچانے میں اس کا کردار قابل رشک ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ایدھی نے اپنی خاندانی روایات کے مطابق کاروبار شروع
کیا لیکن اس میں اس کا دل نہیں لگاکیونکہ اس کے دل میں توانسانیت کی خدمات
کا جذبہ جنم لے چکا تھا ، چنانچہ ۱۹۵۱ء میں اس نے میٹھادر میں ایک دکان
خریدی اور اس میں غریب لوگوں کے لیے ڈسپنسری قائم کی، جو ڈاکٹر اس کی
ڈسپنسری میں مریضوں کو دیکھا کرتا تھا اس نے ایدھی کو طبی امداد کے تمام
امور کی تر بیت بھی دی۔یہ ایدھی کی فلاحی خدمات کا نقطہ آغاز تھا۔ ایدھی
اپنے آپ کو اس ڈسپنسری تک محدود رکھنا نہیں چاہتا تھاچنانچہ اس نے پہلی بار
عوام سے دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے مدد کی اپیل کی، لوگوں نے اس کی بات
کو توجہ سے سنا، اﷲ تعالیٰ نے اس کی بات میں اثر پیدا کردیا تھا، لوگوں نے
اس پر بھروسی کیا، اعتماد کیا ، ابتدائی طور پر ایدھی کو دو لاکھ روپے کی
رقم وصول ہوئی،اسی رقم سے ایدھی نے اپنی خدمات کے دائرہ کو وسیع کیا،ایک
کمرہ پر مشتمل ڈسپنسری ایک چھوٹے سے اسپتال میں تبدیل ہوگئی، ایک ایمبو
لینس بھی خریدلی گئی۔ ان آنکھو ں نے نوجوانایدھی کو ملیشا کے کپڑے کا لباس
زیب تن کیے اسی چھوٹے سے اسپتال کے سامنے چارپائی پر بیٹھے بار ہا دیکھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ٹیلی فون نایاب چیز ہو ا کرتا تھا، اکثر لوگ ایدھی کو
از خود آکر کسی بھی قسم کے حادثہ کی اطلاع کیا کرتے تھے، ایدھی نے اپنی
سماجی ادارے ایدھی ٹرست کا آغاز مبلغ پانچ ہزار روپے سے کیا تھاجو ترقی کر
کے کہیں کا کہیں پہنچ چکا ہے۔
عبد الستار ایدھی کو گزشتہ سال ائر پورٹ پر قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا،
میَں کراچی سے لاہور جارہا تھا، جہاں سے مجھے سرگودھا یونیورسٹی جانا
تھا،ائر پورٹ پر عبد الستار ایدبھی موجود تھا،اس کا سفر بھی کراچی سے لاہور
کے لیے تھا،لاہور ائر پورٹ پر دو نوجوان ایک دائیں اور ایک بائیں ایدھی کا
ہاتھ پکڑے ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ نہ سیکیوریٹی تھی، نہ پولس نہ پولس
کی موبائلیں، نہ لوگوں کو روکا گیا، نہ ٹریفک ہی جام ہوا، اگر غلطی سے کوئی
کوئی وزیر یا سفیر ہوتا تو اس وقت ائر پورٹ پر قیامت کا سما ہوتا،چھوٹا قد،
وہی کالے رنگ کے ملیشیاکاشلوار قمیض ، سر پر مخصوص کالی ٹوپی ،سانولا رنگ
جس میں کسی قدر سیاہی کی آمیزش، پیروں میں چپل، سفید کالی داڑھی لمبائی میں
بڑھی ہوئی،ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ، پیشانی سے عظمت و بزرگی آشکارہ ،
چہرہ پر متانت وسنجیدگی، دھیرے دھیرے ، چھوٹے چھوٹے قدموں سے ائر پورٹ سے
باہر آئے، نہ وہ دبدبا تھا نہ وہ جوش،چہرہ پر اطمیان اور بردباری نمایاں
تھی، وقت بھی انسان کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے۔ میَں نے ایدھی کو جوانی میں
بھی دیکھا تھا۔آج کا ایدھی جسمانی اعتمار سے مختلف نظر آرہا تھا۔ انسا نیت
کی خد مت کے طویل سفر نے ایدھی کی شخصیت میں نیکی، بھلائی اوردوسروں کی مدد
و اعانت کی سفیدی کو اجاگر کر دیا ہے، ایدھی کا چہرہ ایک مہربان اور شفیق
انسان کا چہرہ محوس ہورہا تھا، سنجیدہ اور متین انسان کا چہرہ، سلام اس
عظیم ہستی پر۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت خدمات کی مختلف جہتیں ہیں، ایمبولینس سروس کے حوالے
سے یہ دنیا کی سب سے بڑی خدمتی تنظیم ہے، ایدھی ایمبولینسیز میں ائر ایمبو
لینس بھی شامل ہے، ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر مریضوں کی تیز تر منتقلی میں
کام آتے ہیں، صرف کراچی میں ۸ اسپتال مفت طبی امداد فراہم کررہے ہیں،
موبائل دسپنسری اور بلڈ بنک اس کے علاوہ ہے، ایدھی کے تحت ۱۵ ’’اپنا
گھر‘‘ہیں جس میں بے سہارا، لاوارث، ذہنی معزور وں کو پناہ ملی ہوئی
ہے۔ایدھی کے تحت ’’جھولا ‘‘ایک ایسی منفرد خدمت ہے کہ جس کی مثال نہیں
ملتی، پاکستان میں جس کا کوئی نہیں اﷲ کے بعد ایدھی اس کاسہارا اور مدد گار
ہوتا ہے۔انسان خواہ امیر ہو یا غریب، وارثین موجود ہوں یا وہ لاوارث ہو
مرنے کے بعد اس کے جسد خاکی کوجلد سے جلد خاک کی نظر کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اگر کسی وجہ سے فوری تدفین عمل میں نہ لائی جاسکے ، یا لاش لاوارث ہو تو
عبد الستا ایدھی کے ’’مردہ خانے‘‘ ہی ان مردوں کی وقتی پناہ گاہ ہوتے ہیں۔
کراچی میں سہراب گوٹھ پر قائم ایدھی مردہ خانہ لاوارث لاشوں اور وقتی طور
پر محفوظ کرائی گئی لاشوں کا مرکزہے۔ مجھے ایک سے زیادہ بار اس مردہ خانے
کو دیکھنے کا اتفاق ہوا،لاشیں کفن پہنیں شیلفوں پر اوپر نیچے ترتیب سے رکھی
ہوتی ہیں، دیکھ کر ایدھی کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔یہاں مردوں کو غسل دینے
اور کفنانے کا انتظام بھی ہے۔ عورتوں کے لیے غسل و کفن کا مرکز میٹھا در
میں قائم ایدھی مرکز میں ہے۔
عبد الستار ایدھی پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، لکھا جارہا ہے اور لکھا جائے
گا۔ایدھی پر مرتب کی جانے والی سوانح حیات انگریزی میں ہے جسے ایک معروف
مصنفہ نے بڑی محنت اورمہارت سے مرتب کیا ہے۔ My Feudal Lord کی خالق تہمینہ
درانی، تعارف کی محتاج نہیں، انہیں اپنی اِسی کتاب سے شہرت حاصل ہوئی، یہ
غلام مصطفی کھر کی سابق ا وروزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی موجودشریک حیات
ہیں، معروف سیاست داں سر سکندر حیات کی پوتی اور شوکت اﷲ درانی کی بیٹی
ہیں۔انہوں نے عبدالستار ایدھی کی سوانح حیات A Mirror to the Blind کے نام
سے مرتب کی ہے، یہ سوانح ۱۹۹۶ء میں نیشنل بیورو آف پبلی کیشن نے شائع کی۔
کہا جاتا ہے کہ ایدھی کی زندگی کی کہانی انہوں نے ٹیپ کی اور یہ ٹیپ چالیس
گھنٹوں پر محیط ہے۔اس سوانح حیات میں عبد الستار ایدھی کی زندگی کے تمام تر
پہلوؤں کو تفصیل سے قلم بند کیا گیا ہے۔تہمینہ درانی کی کتاب My feudal
Loardکا ۳۶ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ ان کی اس کتاب
کاترجمہ اردو زبان ہی میں نہیں بلکہ پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں میں
ہوجائے تاکہ عام لوگ ایدھی کی زندگی کے بارے میں تفصیل سے جان سکیں۔
۱۹۸۹ء میں حکومت پاکستان نے ایدھی کو ’نشان امتیاز‘ دیا، اب اس کے انتقال
کے بعد حکومت نے ایدھی کے لیے ستارہ امتیازکا اعلان کیا ہے۔ بے شمار مقامی
تنطیموں اور اداروں نے بھی ایدھی کو اعزازات سے نوازا۔عالمی سطح پر بھی
ایدھی کو اعزازار سے نوازا گیا ، ۱۹۸۸ء میں آرمینیا میں زلزلہ سے متاثرہ
افراد کی خدت کے اعتراف میں اس وقت کی روس کی حکومت نے ایدھی کو ’’لینن امن
انعام‘‘سے نوازا، فلپائن حکومت نے ۱۹۸۶ء میں عبدا لستار ایدھی اور بلقیس
ایدھی کو ’’میگسیا ایوار ڈ ‘‘(Magsayay award)دیا، ۲۰۱۰ء میں یونیورسٹی آف
بیڈفورڈشائر نے ایدھی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ اسی طرح عبد
الستا ایدھی کو مختلف اداروں نے اعزازات و انعامات سے نوازا لیکن ایدھی کے
لیے اصل اعزاز و انعام تو پاکستان کے لوگوں کا اعتماد اور بھروسہ تھا ، وہ
والہانہ محبت ، عقیدت اور احترام تھا جو لوگ ایدھی پر نچاور کیا کرتے تھے ۔
حقیت یہ ہے کہ ایسے عظیم لوگ صدیوں میں پیدا ہوا کرتے ہیں۔ وہ2013میں گردوں
کے مرض میں مبتلا ہوئے ، بیماری اس قدر طویل ہوئی کہ ان ڈائلیسیز ہونے لگا
اور کل ۸ جولائی کی شب اﷲ کو پیراے ہوئے۔ ان کی نماز جنازہ کراچی کے نیشنل
اسٹیڈیم میں ادا کی گئی اور لاکھوں محبت کرنے والوں کی موجودگی میں انہیں
ان کی اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی قبر میں اتار دیا گیا۔ ایدھی کو پوری قوم کا
سلام عقیدت۔ |
|