فرشتے کی واپسی

انتہائی قابل احترام عبدالستار ایدھی صاحب دنیا کے ان چند گنے چنے لوگوں میں شامل تھے جو بغیر کسی ستائش و صلے کی تمنا کے ساری عمر مخلوق خدا کی خدمت میں مصروف رہے ۔ انہیں ستایا گیا ان کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے ان کی انتھک محنت اور قربانیوں کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے خبیثوں لعینوں کے ایک ٹولے نے ان پر سنگین گھناؤنے الزامات لگائے ۔ مگر اس مرد حق نے ہمت نہیں ہاری وہ ثابت قدمی سے اپنے مقصد پر ڈٹا رہا ۔

ایدھی صاحب نے زیادہ دیر کسی اسکول کی شکل دیکھی نہ مسجد و مدرسے کی تعلیم و تربیت سے محرومی کے سبب ان کی شخصیت میں دنیاوی حساب سے کچھ کمی رہ گئی مگر فطرت میں خدا نے جو نیک خوئی اور بندہ پروری رکھ دی تھی اس نے انسانیت کے لئے بہت کام کیا میرا جہاں تک اپنا خیال ھے شائد وہ دنیا کے واحد شخص تھے جنہوں نے سب سے زیادہ مردوں کو نہلایا ایسے ایسے مردے جن سے خود ان کے اپنے اہلخانہ ناک پر رومال رکھ کر پیچھے ہٹ گئے ۔ ایدھی صاحب نے ناداروں بے سہاروں بیماروں زخمیوں اپنے حالات کے ماروں اور زمانے کی ستم ظریفیوں کا شکار بننے والوں کی بحالی اور فلاح کے لئے جو خدمات انجام دیں ان کی مثال بہت کم ملتی ھے ۔ انہوں نے بہت عزت بھی پائی اور عوام الناس کا اعتماد بھی ۔ ان کی جھولی کسی دولت سے خالی نہ رہتی تھی ۔ اپنی کم علمی اور نا واقفیت کی بناء پر اگر کبھی وہ کوئی نادانی کی بات کر گئے تو اس پر اتنا شور مچانے کی ان نام نہاد مسلمانوں کے خلاف بھی توآواز اٹھائی جائے جو اپنے ذاتی مفادات اور مقاصد کے حصول کے لئے بذات خود قادیانی بن جاتے ھیں اور مختلف یورپی ممالک میں پناہ یا شہریت حاصل کرنے کے حلفیہ بیان داخل کرتے ھیں ۔ ایدھی صاحب تو ایسے ابن الوقتوں اور موقع پرستوں کے پاسنگ بھی نہیں تھے ۔

ایدھی صاحب دنیاوی و دینی دونوں طرح کی تعلیم سے محرومی اور زبان و بیان پر مناسب دسترس نہ ہونے کی بناء پر اپنے مؤقف کو بہتر طور پر پیش نہیں کر پاتے تھے ۔ اور ان کی اس کمزوری کا علم ہونے کے باوجود شرپسند اور فتنہ پرور لوگ ان سے گھما پھرا کے ایسے سوالات پوچھتے تھے کہ پھر جواب ان کی توقع کے مطابق ہی آتا تھا اور پھر اس کو میڈیا پر اچھالا جاتا تھا ۔ وہ جو بھی تھے جیسے بھی تھے ایک عظیم اور بےمثل انسان تھے وہ ان گلی سڑی لاشوں کو اپنے ہاتھ سے غسل دیتے تھے جنہیں خود ان کے اپنے ہاتھ بھی لگانے پر تیار نہ ہوتے تھے ۔ ان پر منہ کالا کرنے والوں کے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے اور معاشرے میں بےراہ روی کی ترویج و فروغ کا بھی الزام لگایا گیا ۔ ایک سے بڑھ کر ایک بے عمل اور فسادی طبقے کی طرف سے ان پر عائد کئے جانے والے جرائم کی فہرست تو خاصی طویل ہے ۔ بےشک بعض مواقع پر ان کو دینی سطح پر اصلاح کی ضرورت تھی اس کا کوئی بندوبست کرنے کی بجائے ان کے خلاف بڑھ چڑھ کر فتوے صادر کرنے والے بھلا دین کی کیا خدمت کر رہیے تھے ۔ دین جو آج ایسے ایسے منافقوں اپنے مفاد کے غلاموں عیاروں کے ہتھے چڑھ گیا ہے جن کی زندگی قول و عمل میں تضاد معاش کی دوڑدھوپ اور تگ و دو سے عاری اور بےعملی کا نمونہ نظر آتی ہے ۔ ایدھی صاحب تمام تر تعیشات و آسائشات کے حصول پر مکمل قدرت رکھنے کے باوجود سادگی و سادہ لوحی کا پیکر تھے ۔ وہ گفتار کے غازی نہیں تھے ایک عملی آدمی تھے زبانی کلامی جمع خرچ سے خلقت کو بیوقوف نہیں بناتے تھے ۔ وہ بیشمار بزعم خود سچے مسلمان اور نام نہاد عاشقان رسول سے کروڑوں درجے بہتر انسان تھے ۔ ان کا مقام عالیشان مکانات قیمتی گاڑیوں اور سیکیورٹی گارڈز کی گود میں بیٹھ کر لوگوں کو سادگی جہاد شہادت کی موت خدمت خلق اور آخرت میں عطا ہونے والی عیاشیوں کی پٹیاں پڑھانے والے مداریوں سے بہت بلند ہے ۔ بات اگر انسانیت اور خدمت کی ہو تو کوئی ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ ایسی عبادت ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ اور کوئی بھی کون ہوتا ہے ان کے مقام آخرت کا تعین کرنے والا ۔ فتویٰ سازوں کی تو خود اپنے بارے میں خوش فہمی ہی نہیں جاتی ۔ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر تو دیکھتے ہی نہیں ۔ انسانیت اور خدمت میں پہلے کوئی ان کی گرد تک تو پہنچ کے دکھائے ۔ یہ سب حلوہ خور ملا اور لفافہ لکھاری ایدھی کے پیروں کی دھول کے برابر بھی نہیں ہیں انہیں شرم آنی چاہیئے بلکہ ڈوب کے مر جانا چاہیئے کہ ایک اتنے بے غرض درویش صفت سادگی و استغناء کی ایک جیتی جاگتی مثال کو اپنے لئے مشعل راہ بنانے کی بجائے اس کی موت کے بعد بھی اپنی اپنی شریعت جھاڑنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ وہ تو انسان سے بھی اوپر کی کوئی ہستی تھا ۔ وہ تو اس زمین پر آنے سے پہلے ستاروں میں بس رہا تھا کہیں ۔ شاید کوئی فرشتہ تھا وہ اتر کے نیچے آیا اس نے کام کیا بہت کام کیا اپنا کام پورا کیا بہت سوں کو سکھایا انہیں اپنے ساتھ لے کر چلا خدمت و انسانیت کا ایک عظیم الشان نیٹ ورک چھوڑا اور لوٹ گیا ۔ لیکن اپنے پیچھے جو خلا چھوڑ گیا ہے وہ مدتوں قائم رہے گا ۔ جب تک یہ دنیا باقی رہے گی ایدھی کی یاد باقی رہے گی ۔
Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 224 Articles with 1689087 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.