خلیفۂ چہارم ۔۔۔ باب العلم حضرت علی ؓ
(Dr Izhar Ahmed Gulzar, Faisalabad)
حضرت علی ؓ خلفائے راشدین میں چوتھے اور
آخری خلیفہ تھے۔ آپؓ کا سلسلہ نسب دوسری پشت میں آنحضور ﷺ سے جا ملتا ہے۔
حضرت علی ؓ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا جو اسد بن ہاشم کی بیٹی تھی،اس طرح
حضرت علیؓ والدین کی جانب سے ہاشمی کہلاتے ہیں۔
جس وقت وقت حضرت علیؓ کی ولادت ہوئی تو آپ کے والد حضرت ابوطالب مکے سے
باہر گئے ہوئے تھے لہٰذا آپ کا نام آپؓ کی والدہ نے اسد رکھا اور یہ کہا ،
’’یہ اپنے نانا کا نام روشن کرے گا۔‘‘
یہ قول بالکل صحیح ثابت ہوا جس کے گواہ تاریخ کے اوراق ہیں۔
حضرت علیؓ کی ولادت باسعادت نبوت سے قبل یعنی ہجرت سے 23سال قبل اور عام
الفیل کے 30سال بعد 13رجب بروز جمعہ خانہ کعبہ میں ہوئی۔ آپ کی کنیت
ابوالحسنین اور ابوتراب تھی۔ ابو الحسنین کی وجہ تو یہ تھی کہ آپ حضرت امام
حسنؓ اور حضرت امام حسین ؓ کے والد گرامی تھے۔ ابوتراب کے بارے میں یہ لکھا
ہے کہ آپ مسجد میں سو رہے تھے کہ پہلو سے چادر ہٹ گئی تھی جس کی بنا پر جسم
پر مٹی لگ گئی تھی۔ آنحضورﷺ کو بتایا گیا کہ آپ مسجد میں آرام فرما رہے ہیں
تو آپؐ ان کی تلاش میں مسجد پہنچے۔ دیکھا تو سو رہے تھے اور جسم کے ایک
پہلو پر مٹی لگی ہوئی تھی۔ اس پر آپﷺ جس سے مٹی پونچھتے جاتے تھے اور
فرماتے جاتے تھے، ’’ابو تر اب ، (مٹی کے باپ) اُٹھو ۔‘‘
یہ کنیت آپؓ کو اتنی پیاری لگی کہ دوسرا کوئی ابوتراب سے پکارتا تو آپؓ سن
کر بہت خوش ہوتے، کیوں کہ یہ کیفیت آنحضورؐ کی عطا کردہ تھی۔
حضرت علیؓ کا لقب امیرالمومنین یعنی مومنوں کے امیر اور دوسرا مرتضیٰ بھی
تھا جس کا معنی ’’چنا ہوا‘‘ کے ہیں۔
کتابوں میں آپ کا حلیہ یہ لکھا ہے ’’رنگ گندمی اور کھلا ہوا تھا، آنکھیں
بڑی بڑی تھیں، زیادہ بال اور چوڑی داڑھی والے تھے۔ لمبائی کے اعتبار سے
کوتاہ قامتی کی جانب مائل تھے۔ ‘‘
تاریخ میں لکھا ہے کہ جب حضرت علی ؓ کی ولادت ہوئی تو حضرت ابوطالب معاشی
مسائل کا شکار تھے، اس لیے حضورؓ نے اس مالی بوجھ کو کم کرنے کیلئے حضرت
علیؓ کو اپنی کفالت میں لے لیا تھا۔ اس طرح آپؓ کی پرورش اور تربیت آغوش
رسول کریمؐ میں ہوئی۔ جب اسلام کا سورج طلوع ہوا اور آنحضرت ؐ نبی بنا کر
کائنات پر معبوث ہوئے تو سب سے پہلے ام المومنین حضرت خدیجہؓ ایمان کی دولت
سے مالا مال ہوئیں۔ ان کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رسالت کی تصدیق فرما کر
ایمان کی دولت حاصل کی۔ پھر تیسرے نمبر پر اور بچوں میں سب سے پہلے حضرت
علیؓ ایمان لائے، یہ سابقون الاول کہلانے والوں میں سے ہیں۔ اس وقت آپ کی
عمر پندرہ سال تھی، جب کہ بعض نے دس سال اور آٹھ سال بھی لکھی ہے۔
آپ کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں یوں لکھا ہے، ’’حضرت علیؓ نے حضورﷺ اور
حضرت خدیجہؓ کو گھر میں نماز پڑھتے دیکھا تو حیرت سے پوچھا کہ یہ آپ کیا کر
ہے ہیں؟ حضورﷺ نے اپنا منصب نبوت بیان کرتے ہوئے کفرو شرک کی مذمت فرمائی
اور توحید کا پیغام سنایا جسے سنتے ہی حضرت علیؓ نے اسلام قبول کر لیا۔ ‘‘
آپؓ کے اسلام قبول کرنے کا ایک واقعہ اور بھی ہے۔ رسول پاک ﷺ کو حکم ہوا کہ
قریبی رشتے داروں کو خدا سے ڈراؤ اور اسلام کی دعوت دو۔ قرآن حکیم میں
ارشاد ہوا ،’’اور اپنے نزدیک کے خاندان والوں کو اﷲ سے ڈراؤ اور اپنے
بازوان کیلئے جھکاؤ، جو آپؐ کی پیروی کریں ایمان داروں میں سے۔‘‘(سورۃ
الشعرا آیت ۱۱)
جناب والا! حضور اکرمﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ دعوت کا سامان کرو۔ یہ
تبلیغ کا پہلا موقع تھا۔ اس میں خاندان عبدالمطلب کو مدعو کیا گیا تھا۔
آنحضرتﷺ نے کھانے سے فارغ ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا ،’’میں وہ چیز لے کر آیا
ہوں جو دین و دُنیا دونوں کو کفیل ہے، اس بارگراں کو اُٹھانے میں کون میرا
ساتھ دیتا ہے؟ ‘‘
تمام مجلس میں سناٹا چھا گیا۔ تب حضرت علیؓ نے کھڑے ہو کر فرمایا، ’’میں سب
سے نو عمر ہوں تاہم میں آپ کا ساتھ دوں گا۔ ‘‘ ایک اور جگہ لکھا ہے کہ وہ
مجمع چالیس افراد کا تھا ، مگر علیؓ کے سوا کسی نے بھی آپؐ کی حمایت نہیں
کی۔ ابوطالب کی کہانی میں حضور کو مع اپنے خاندان کے تین سال کیلئے محصور
کر دیا گیا تھا۔ ان مشکل اور آزمائشی گھڑیوں میں حضرت علیؓ ، حضورﷺ کے ہم
راہ رہے۔ آنحضرتؐ کو ہجرت کا حکم ملا تو آپﷺ کے پاس مشرکین مکہ کی بیش قیمت
امانتیں تھیں۔ رسول کریمﷺ جب ہجرت فرما کر مدینہ جانے لگے تو ان مشرکین کا
سامان آپﷺ نے حضرت علیؓ کے سپرد کیا اور حکم دیا کہ یہ سامان ان کے مالکان
کے حوالے کر کے ہجرت کرنا۔
جب رسول مکرمﷺ اپنے کاشانۂ اقدس سے نکلنے لگے تو اپنے بستر مبارک پر علیؓ
کو حضر موتی چادر اُڑھا کر لٹا دیا۔ اگرچہ یہ کام حضرت علیؓ کے لیے جان سے
کھیلنے کے مترادف تھا ، لیکن وہ بلا تامل نبیﷺ کے حکم پر لیٹ گئے اور نبی
پاکﷺ اطمینان سے مشرکوں کی آنکھوں میں خاک ڈالتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل
گئے۔
حضورﷺ کے حکم کے مطابق امانتیں لوٹا کر تین دن بعد حضرت علیؓ بھی قبا ے
مقام پر حضور ﷺ سے جا ملے۔ حضورﷺ نے مدینے پہنچ کر سب سے پہلے جو کام
سرانجام دیا ، وہ مسجد کی تعمیر تھی۔ حضرت علیؓ نے بھی اس کارخیر میں حصہ
لیا اور اینٹیں اور گارا اُٹھا اُٹھا کر لاتے رہے۔
حضورﷺ نے تعمیر مسجد کے بعد دوسرا کام یہ کیا کہ انصارو مہاجرین میں مواخات
قائم کی ، مگر حضرت علیؓ کو کسی کا بھائی نہیں بنایقا تو انہوں نے شکوہ
کیا۔ جواب میں حضورﷺ نے ارشاد فرمایا،’’تم دُنیا اور آخرت دونوں جگہ میرے
بھائی ہو۔‘‘
دو ہجری میں آنحضورﷺ نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت بی بی فاطمتہ الزہراؓ
کا نکاح حضرت علیؓ سے کر دیا اور دونوں میاں بیوی کے درمیان خیرو برکت کی
دُعا کی۔
رخصتی کے وقت رسول کریمﷺ نے حضرت فاطمہؓ سے ارشاد فرمایا، ’’جان پدر! میں
نے تمہاری شادی خاندان کے سب سے اچھے فرد سے کی ہے۔ ‘‘ چھ ہجری میں حضرت
علیؓ بیعت رضوان میں شامل تھے اور اصحاب الشجرہ میں سے کہلائے جنہیں جنت کی
بشارت دی گئی ہے۔ صلح حدیبیہ کی کتابت حضرت علیؓ نے کی تھی۔ اس میں محمد
الرسول اﷲ کے الفاظ پر مشرکین نے اعتراض کیا تو حضورﷺنے حضرت علیؓ سے
فرمایا، ’’علی! یہ الفاظ مٹا دو۔‘‘
مگر حضرت علی ؓ کی دینی حمیت نے یہ گوارا نہ کیا ، انہوں نے عرض کیا،
’’حضورﷺ یہ کام مجھ سے نہیں ہو گا۔‘‘ پھر حضورﷺ نے خود ہی محمد الرسول اﷲ
کے الفاظ صاف کر دیے۔ حضرت علیؓ عشرۂ مبشرہ میں شامل تھے۔ ابن ہشام کا بیان
ہے کہ ابوبکر امیر حج بنا کر بھیجے گئے تو اسی اثناء میں سورۂ برأت نازل
ہوئی۔
چناں چہ حضرت علیؓ کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ اس کی آیات حج کے اجتماع
میں سنائیں۔ آپؓ حجتہ الوداع میں شریک تھے۔ آنحضورؐ کے وصال کے بعد انتیس
برس تک زندہ رہے۔
معزز سامعین ۱۸ ذی الحج ۳۵ ہجری کو حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد تین دن تک
بلوائیاں کا مرکز خلافت پر قبضہ رہا۔ شہادت عثمانؓ کے بعد ملت اسلامیہ
بحران کا شکار تھی۔ اس بحران سے بچنے کی خاطر حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے
حضرت علیؓ کی بیعت کر کے خلافت کا بار آپؓ کے کاندھوں پر ڈال دیا۔
مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ کا دور خلافت تین ماہ کم پانچ برس رہا۔ اس
مدت کے دوران ایک دن بھی باغیوں اور خارجیوں نے آپؓ کو چین سے نہیں رہنے
دیا، بلکہ کسی نہ کسی فتنے میں اُلجھائے رکھا۔
حضرت علیؓ کی ذاتِ گرامی اخلاق نبویﷺ کا عکس اور اسلامی تعلیمات کی زندہ
تصویر تھی۔ آپ کی ذات کا خاص پہلو سادگی اور خلوص تھا ۔ آپ زبردست عابد و
زاہد تھے۔ آپؓ اسلام کے جری سپاہی تھے اور علم و ادب سے گہرا تعلق رکھتے
تھے۔ آپ کی تصنیف ’’نہج البلاغہ ‘‘ بڑے شوق اور احترام کے ساتھ پڑتھی جاتی
ہے۔ آپ حافظ قرآن تھے۔ قرآنی آیات کے معانی اور شان نزول سے واقف مفسر قرآن
تھے۔ احادیث نبوی کے بھی عالم تھے۔ آپؓ سے پانچ سو چھیاسی احادیث مروی ہیں۔
سترہ رمضان المبارک چالیس ہجری کو ایک خارجی عبدالرحمن ابن ملجم نے عین اس
وقت امیر المومنین پر زہر آلود تلوار سے حملہ کیا جب آپؓ نماز فجر کی امامت
فرما رہے تھے۔ بیس اور اکیس رمضان المبارک جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب
آپؓ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اس وقت آپؓ کی عمر تریسٹھ برس تھی۔ بعض جگہ
پینسٹھ برس بھی لکھی ہے۔ آپؓ کے دونوں صاحب زادوں حسنؓ اور حسینؓ نے اور
عبداﷲ بن جعفر نے غسل دیا اور حضرت حسنؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ آپؓ کی
شہادت کے بعد وصیت کے مطابق حضرت حسنؓ کے سامنے ابن ملجم کو پیش کیا گیا
جنہوں نے تلوار کے ایک ہی وار سے اسے جہنم رسید کر دیا۔ |
|