عبدالستار ایدھی، ایک تاریخ ساز شخصیت ،
ایک نام ، ایک ادارہ ، ایک انسان ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ میں بھلائی
اور نیکی کا ایک عظیم باب تھاجو چند روز پہلے اپنے اختتام کو پہنچا ۔ان کی
نماز ِجنازہ میں ان گنت لوگوں نے شرکت کی ۔ ان کا جسدِ خاکی فوج کی اعلیٰ
نگرانی اور سخت سیکیورٹی میں سٹیڈیم لائی گئی ۔ دو جوڑوں میں زندگی گزارنے
والے اس شخص کی نمازِجنازہ اسی پروٹوکول سے ادا کی گئی جس سے ملکہ وکٹوریہ
کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی تھی ۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کے بعد
عبدالستار ایدھی وہ واحد شخصیت ہیں جن کی وفات پر تمام قوم کی آنکھیں پرنم
اور تمام انسانیت کے دلوں میں بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب درد و الم پایا
جاتا تھا ۔عبدالستار ایدھی جیسی شخصیات اس دنیا میں کم کم پیدا ہوتی ہیں جن
کی پوری زندگی اپنی ذات سے کہیں آگے انسانیت کی خدمت کے لیے وقف ہو ۔
عبدالستار ایدھی کی زندگی کا اگر جائزہ لیں تو یہ بات روز ِ روشن کی طرح
عیاں ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے بہت زیادہ وسائل کی نہیں بلکہ
اٹل ارادے اور درد مند دل کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ اگر کوئی انسانیت کے لیے
کام کرنا چاہے تو اسے سفر کا آغاز صفر سے کرنا پڑتا ہے ۔ اپنی ذات کی تکلیف
اور عیش و آرام کو ایک طرف رکھ کر انسانیت کے دکھوں کو پہچاننا پڑتا ہے ۔
جب انسان دوسروں کے دکھوں کو پہچاننے لگے تو ان کے مداوا کی کوشش کرتا ہے
اور اس طرح ایک شخص اپنے ساتھ دوسروں کی مدد سے ایک قافلہ بنا لیتا ہے ۔
اب آیئے ! عبدالستار ایدھی کی زندگی پر ایک نظر دوڑاتے ہیں ۔گجرات کے ایک
گاؤں بانٹوا کا نوجوان گھریلو حالات خراب ہونے کی پر کراچی جاکر کپڑ ے کا
کاروبار شروع کرتا ہے ۔ کپٹرا خریدنے مارکیٹ گیا وہاں کسی شخص کو چاقو مار
دیا گیا ۔زخمی زمین پر گر کر تڑپنے لگا لوگ اس زخمی شخص کے گرد گھیرا ڈال
کر تماشہ دیکھتے رہے وہ شخص تڑپ تڑپ کر مر گیا ۔نوجوان عبدالستار ایدھی کے
دل پر داغ پڑ گیا سوچا معاشر ے میں تین طرح کے لوگ ہیں ، دوسروں کو مارنے
والے ، مرنے والوں کا تماشہ دیکھنے والے اورزخمیوں کی مدد کرنے والے ۔
نوجوان عبدالستار نے زخمیوں کی مدد کرنے والوں میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔
نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ مدد کرنے والوں میں شامل ہو گیا ۔کپڑے کا کاروبار
چھوڑا ، ایک ایمبولینس خریدی اس پر اپنا نام اور ٹیلی فون نمبر لکھا اور
کراچی شہر کے زخمیوں اور بیماروں کی مدد شروع کی ۔ وہ اپنے ادارے کا
ڈرائیور بھی خود تھا ،آفس بوائے بھی خود تھا ، ٹیلی فون آپریٹر بھی ، سوپر
بھی اور مالک بھی ۔ وہ ٹیلی فون سرہانے رکھ کر سوتا ، فون کی گھنٹی بجتی یہ
اڈریس لکھتااور ایمبولینس لے کرچل پڑتا ۔زخمیوں اور مریضوں کو ہسپتال
پہنچاتا ، سلام کرتااور واپس آجاتا۔ ؑبدالستار نے سینٹر کے سامنے لوہے کا
ڈبہ رکھ دیا ۔ لوگ گزرتے وقت اس میں اپنی فالتو ریزگاری اس میں ڈال دیتے ۔یہ
سینکڑوں سکے اور چند نوٹ اس سینٹر کا کل اثاثہ تھے ۔یہ فجر کی نماز پڑھنے
مسجد گیا ۔ مسجد کی دہلیز پر کوئی نوزائیدہ بچہ چھوڑ گیا تھا ۔مولوی صاحب
بچے کو ناجائز قرار دے چکے تھے لوگ اس بچے کو مارنے کے درپے تھے ۔یہ پتھر
اٹھا کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا اس بچے کی پرورش کی آج وہ بینک میں ایک
اعلیٰ عہدہ دار ہے ۔یہ لاشیں اٹھانے بھی جاتا تھا ۔ وہ لاشیں بھی جن کو ان
کے لواحقین اٹھانے کو تیار نہ ہوتے ۔جب بے بس بوڑھوں کو بھیک مانگتے اور
آوارہ بچوں کو فٹ پاتھ پر کتوں کے ساتھ سوتے دیکھا تو اولڈ پیپلز ہوم اور
چلڈرن ہوم بنا دیا ، عورتوں کو بے یار و مدد گا ر دیکھا تو میٹرنٹی ہوم بنا
دیا ۔اس نوجوان نے اپنی ساری جوانی لاشیں اٹھاتے ، نوزائیدہ بچوں کی پرورش
کرتے ، بے یارومددگار لوگوں کا سہارا بنتے گزار دی ۔ جس عمر میں ہمارے ملک
کے نوجوان ملک سے باہر جانے ، بے تحاشا روپیہ اور شان و شوکت کی زندگی
گزارنے کی خواہش کرتے ہیں اس عمر میں عبدالستار ایدھی لوگوں کی مدد کے لیے
اکیلے کمر کس کر کھڑے تھے ۔ انھوں نے کسی کی مدد کے بنا یہ کام شروع کیا ۔
آج جو ادارہ پوری دنیا میں ایدھی فاؤنڈیشن کے نام سے جانا جاتا ہے وہ
درحقیقت ایک تنہا شخص کی کاوش سے شروع ہوا اور پھلتے پھولتے لاکھوں کے
دکھوں کا مداوا بنتا چلا گیا۔ایسا نہیں کہ ان کی کوئی ذاتی زندگی نہ تھی یا
ذاتی زندگی میں مسلئے مسائل نہ تھے بلکہ انھوں نے اپنی ذاتی زندگی اور ذاتی
خوشی یا ذاتی غم پر ہمیشہ مخلوق ِخدا کے دکھ کو اہمیت دی ۔اس دکھ کا مداوا
کرنے کی عملی کوشش بھی کی ۔
یہی جذبہ اور ولولہ تھا جس نے ایک اکیلے شخص کو اتنا بڑا کام کرنے پر مجبور
کیا آہستہ آہستہ لوگ اس تنہا اور کم وسائل رکھنے والے نوجوان کے ساتھ ملتے
گئے یہاں تک کہ ایدھی فاؤنڈیشن کا وجود کراہ ء ارض پر نہ صرف وجود میں آگیا
بلکہ یہ ادارہ ملک میں ویلفیئرکا سب سے بڑا ادارہ بن گیا ۔ اس ادارے کا نام
۲۰۰۰ء میں گینیز بک آف ورلڈ رکارڈ میں بھی آگیا ایدھی صاحؓ ملک میں بلا خوف
و خطر پھرتے تھے یہ وہا ں بھی جاتے جہاں پولیس مقابلہ ہو رہا ہوتا یا فساد
ات ہو رہے ہوتے ۔پولیس ، ڈاکو اور متحارب گروپ انھیں دیکھ کر فائرنگ بند کر
دیا کرتے تھے ۔ایدھی صاحب نے ۲۰۰۳ء تک گندے نالوں سے آٹھ ہزار لاشیں نکالی
، سولہ ہزار نوزائیدہ بچے پالے انہوں نے ہزاروں بچیوں کی شادی کروائی ۔ لوگ
ان کے ہاتھ چومتے تھے ، عورتیں زیورات اتار کر ان کی جھولی میں ڈال دیتی
تھیں ، نوجوان اپنی موٹر سائکلیں سڑکوں پر انھیں دے کر خود وین میں بیٹھ
جایا کرتے تھے ۔ یہ ایدھی ہی تھے جنھیں پورے ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے ۔ جو
نہتے ہونے کے باوجود کسی جنرل کی طرح ملک میں سفر کرتے ، جن کو کبھی کسی
سیکیورٹی گارڈ کی ضرورت نہیں رہی ۔
ایدھی جس دن اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے اس دن بھی ان کا کام جاری و ساری
تھا کسی ایدھی سنٹر میں ایک منٹ کے لیے کام نہیں روکا گیا ۔ ان کی وفات کے
سوگ میں کوئی ایمبولینس تاخیر سے روانہ نہیں ہوئی ، مد دکی درخواست کے لیے
آنے والی کسی کال کو یہ نہیں کہا گیا کہ سرِدست اس ادارے کا بانی اس دنیا
سے جا رہا ہے اس لیے مدد نہیں دی جا سکتی ۔کسی کو یہ نہیں کہا گیا کہ آج یہ
ادارہ بند رہے گا ۔ اس شخص کے لیے خاموشی اختیار نہیں کی گئی ۔ یہ کیسا
عجیب شخص تھا جس کے مرجانے کے سوگ میں اس کے ادارے کو ایک گھنٹہ تو کیا ایک
منٹ بھی کام سے نہیں روکا گیا ۔ آہ ! یہ سربراہ درحقیقت مرا تھا ہی نہیں ۔
وہ صرف اپنی عارضی زندگی کے سفرکو ختم کر کے ابدی سفر پر گامزن ہو ا تھا ۔
ہزاروں لوگوں کو آسرادینے والا یہ شخص پاکستان کو سب سے بڑی ایمنبولنس سروس
دے کے گیا اور اس کے ساتھ ایک ایسا ادارہ جو معاشرے کے ان لوگوں کے آنسو
پونچھتا ہے جن کے آنسو کسی کو نظر ہی نہیں آتے ۔ایدھی کے چلے جانے کے بعد
درحقیقت کئی بچے یتیم ہو گئے ۔
الغرض ایدھی بلاشبہ ایک ایسی تارخ ثبت کر گئے ہیں جو کہ پاکستان تو کیا
دنیا بھر کے انسانوں کے لیے مشعل ِ راہ ہے ۔ ایک ایسی مثال جو کہ رہتی دنیا
تک قائم و دائم رہے گی ۔ بلاشبہ عبدالستار ایدھی جیسے لوگ مرا نہیں کرتے
بلکہ اپنی زندگی اپنے ملک و قوم کو عطاء کر کے خود اندی نیند سو جا تے ہیں
۔ ایک ایسی نیند جس میں ان کا نام اور ان کا کام ہمیشہ زندہ ریتا ہے ۔درحقیقت
عبدالستار ایدھی ایک شخص نہیں بلکہ ایک عہد تھا جو اٹھاسی برس پر محیط تھا
۔ |