ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ جناب عبدالستار ایدھی کا ایک یادگار اور تفصیلی انٹرویو

ایدھی فاؤنڈیشن انسانی پیدائش سے موت تک کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں کام کررہی ہے
o والدہ کے کہنے پر ڈھونڈ ڈھونڈ کر غریبوں کی مدد کرتا
o قائداعظم ؒ کے حکم پر حبیب بنک کی بنیاد رکھنے میں والد صاحب نے بھرپور تعاون کیا
o ماں دو پیسے دے کر کہتیں’’ایک تمہارا ہے دوسرا کسی حاجت مند کو دے دینا۔‘‘
o بانٹوا کے گلی کوچوں میں شرارتیں کرتے ہوئے جوان ہوا ہوں۔
o گیارہ برس کا ہوا تو نماز روزے کا پابند ہو چکا تھا۔
o میں ـ نے ماچسیں بھی بیچیں اور پان کا ٹھیلا بھی لگایا۔
o والدہ نے مجھے انسانیت کی خدمت کے لیے تیار کیا۔
o ۔۔۔۔ یہ کہنا تھا کہ مجھ پرکرسیوں‘ڈنڈوں اور جوتوں کی بارش شروع ہو گئی۔
o رات کو ڈسپنسری سے باہر سیمنٹ کے بینچ پر سوتا تھا۔
o ایک روز کندھے پر بیلچہ اٹھایا اور سڑک پر پڑی گندگی کے ڈھیر کو اٹھانے چل پڑا۔
o پاگل عورت نے میرے چار سالہ نواسے پر کھولتا پانی انڈیل دیا۔
o دنیا کے سو سے زائد ممالک میں ہمارا کام جاری ہے۔
o ہم کشمیر کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں ۔
اندر کمار گجرال نے پیش کش کی’’بھارت آجاؤ‘ہر سہولت ملے گی۔‘‘

انٹر ویو: سید ابرار گردیزی۔طیبہ ثناء اﷲ

عبد الستار ایدھی کو جنرل ضیاء الحق نے اپنی مجلس شوریٰ کا ممبرچنا،پہلی میٹنگ دارالحکومت میں بلائی گئی ۔ حکومتی استقبالیہ ٹیم اور خفیہ اداروں کے لوگ اسلام آباد ائیر پورٹ پر پریشانی کے عالم میں عبد الستار کو ڈھونڈ رہے تھے،وہ کراچی سے جہاز پرسوار تو ہوا تھا مگر فلائیٹ کا آخری آدمی بھی اسلام آباد ائیر پورٹ سے رخصت ہو چکا تھا، نہیں تھا تو عبد الستار۔ایک شناسا نے انھیں بتایا’’ وہ تو آچکا ہے، میں نے خود دیکھا تھا اسے،ملیشیے کے کپڑے پہنے تھا، پاؤں میں قینچی چپل۔۔۔۔‘‘

’’ہائیں۔۔۔وہ عبد الستارایدھی تھا۔ہم سمجھے کوئی ٹھاٹ باٹھ والا ہو گا، سفید کپڑے، کالی شیروانی۔۔۔۔۔۔مگر گیا کہاں؟‘‘تلاش شروع ہوئی ۔ایک گھنٹے بعد عبد الستارایدھی انھیں راجہ بازار میں سڑک کنارے ایک ریڑھی پرنان چنے کھاتا ملا۔اگلے روز شوریٰ کی میٹنگ تھی۔عبد الستارایدھی وہاں پہنچا مگر کوئی اندر ہی نہیں جانے دے رہا تھا۔ شناختی کارڈ دکھایا تو اجازت ملی۔اجلاس میں شریک ہر کوئی اس سادھے آدمی کو عجیب نظروں سے دیکھ رہاتھا۔جب سب اپنی بات کہہ چکے تو عبد الستار ایدھی نے ایک بات کی’’ہم جو قوم کے فیصلے کرنے بیٹھے ہیں،ہمیں سادگی اپنانی چاہیے۔پھر ہمیں قوم سے کہنا چاہیے کہ وہ بھی سادگی اپنائے۔‘‘اگلی میٹنگ میں عبد الستار ایدھی پھر آئے،دیکھا کچھ نہ بدلا تھا، اسی شاہانہ اندازکے ساتھ ارکان شوری ٰ تشریف لائے تھے۔اس بار بھی ایدھی نے سب سے سادگی اپنانے کی گزارش کی۔تیسری میٹنگ میں جب دیکھا کہ کچھ نہیں بدلا تو شوریٰ کی رکنیت سے معذرت کر دی ۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

کسی بڑے سے ملک کے سربراہ نے کراچی کا دورہ کرنا تھا۔کراچی کے نامی گرامی معززین کو بھی سرکاری طور پر استقبال کے لیے ایئرپورٹ بلایا گیا۔ عبد الستار ایدھی کو بھی دعوت دی گئی۔ایدھی ائیر پورٹ پہنچے تو استقبالیہ کمیٹی کے ارکان نے مشورہ دیا کہ آپ کچھ ’’مناسب‘‘ کپڑے اور جوتے پہن لیں۔آپ نے کہا’’میں نے یہ پہناوا غریبوں کے لیے اپنایا ہے کہ کوئی غریب سے غریب شخص بھی میرے ساتھ بیٹھے تو خود کو کم تر نہ سمجھے، میں کسی امیر کے لیے اس حلیے کو بدل نہیں سکتا۔اگر آپ کویہ منظور نہیں تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔‘‘ چنانچہ آپ نے مہمان کو اسی حلیے میں خوش آمدید کہا۔

ایک عشرہ قبل کراچی گیا تو انٹر ویوکے لیے وقت لینے ہیڈ آفس فون کیا۔سوچا، کوئی سیکرٹری شیکٹری فون اٹھائے گا، آگا پیچھا پوچھے گا پھر کہیں دو چار دن بعد کا وقت دے کر احسان فرمائے گا مگر حیرت کا شدید جھٹکا لگا جب دوسری طرف سے آواز آئی ’’جی فرمائیے میں عبدالستار ایدھی بول رہا ہوں۔ ابھی گیارہ بج رہے ہیں، آپ تین بجے آ جائیے۔‘‘ بولٹن مارکیٹ میں واقع ایدھی فاؤنڈیشن کے ہیڈ آفس پہنچے ۔بلا روک ٹوک ان کے آفس تک گئے۔ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ ساتھ والے کمرے سے بلقیس ایدھی برآمد ہوئیں۔ وہ پلاسٹک کی ٹوکری کندھے پر اٹھائے کارکنان کے شام کے کھانے کے لیے سبزی لینے بازار جا رہی تھیں۔میرے استفسار پر انھوں نے ایک کارکن کو سبزی لینے بھیجا اور ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ گئیں۔پھردو گھنے تک جو باتیں ہوئیں،امید ہے پڑھیں گے توآپ پرایدھی صاحب کی شخصیت کے کئی دلچسپ اورحیرت انگیرباب وا ہوں گے۔
٭٭٭
٭٭ایدھی صاحب! یہ بتائیے کہ آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟
٭میں بھارت کے شہر جونا گڑھ کے ایک گاؤں بانٹوا میں پیدا ہوا۔ میری تاریخ پیدائش ۲۸ فروری۱۹۲۸ء ہے۔بانٹوا میں ہم جس علاقے میں رہتے تھیـ‘اس کانام ’’دھوبی باڑہ‘‘ تھا جو قدیم دھوبی آباد کاروں کی وجہ سے اس نام سے مشہور تھا۔ یہیں میرے والد کا آبائی مکان تھا جہاں ہماری رہائش تھی۔ جب میں پیدا ہوا تو خاندانی روایت کے مطابق بہنوں نے میرا نام ’’عبدالستار‘‘ رکھا جبکہ ’’ایدھی‘‘ ہمارے قبیلے کا نام ہے۔ گجراتی زبان میں لفظ ’’ایدھی‘‘ کا مطلب سست اور کاہل ہے مگر عملاً اس قبیلے کے لوگ انتہائی محنت کش اور انسان دوست ہیں۔
٭٭کچھ اپنے خاندان کے بارے میں بتائیں؟
٭میرا تعلق میمن خاندان سے ہے۔ تین سو برس پہلے ہمارا خاندان ٹھٹھہ میں آباد تھا۔ ایک بزرگ نے ہمارے آباؤ اجداد کو مسلمان کیا اور ان کا نام ’’مومن‘‘ رکھا جو بعد میں بگڑ کے’’میمن‘‘بن گیا۔ اسی بزرگ نے ہمارے خاندان کو کاروبار کرنے کا مشورہ دیا۔ بعد ازاں وہ لوگ یہاں سندھ سے گجرات کا ٹھیاروار(بھارت) چلے گئے اور وہاں آباد ہوئے۔ میرے دادا کا نام حاجی رحمت اﷲ تھا۔ وہ بہت قناعت پسند شخص تھے۔ ضرورت سے زیادہ نہ کماتے ۔ جو کماتے اس میں سے وہ بھی دوسروں پر خرچ کر دیا کرتے تھے۔انہوں نے اپنا طرززندگی نچلے طبقے جیسا رکھا تھا‘حالانکہ وہ معزز تھے اور خاندانی الجھنوں اور برادری کے جھگڑوں میں ثالث کا کردار ادا کرتے تھے۔ میرے والد حاجی عبدالشکور ایدھی بمبئی میں کمشن ایجنٹ تھے۔انہوں نے بھی ورثے میں اچھی عادات پائی تھیں۔ قائداعظم ؒ نے جب دو معروف تاجروں حبیب رحمت اﷲ اور داؤد پاریکھ کو ہدایت کی کہ حبیب بنک کی بنیادی رکھیں تو والد صاحب سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے دوستی کی بنیاد پر حبیب بنک میں نئے کھاتے کھلوانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ کسی بیوپاری کو مالی اعانت درکار ہوتی تو والد صاحب ا س کی مدد کرتے تھے۔ میرے والد نے تین شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹا اور دوسری سے دو بچے تھے۔ تیسری میری والدہ تھیں جن کا نام غربا تھا۔ان کی بھی پہلے شادی ہوئی تھی۔ دوبچوں کی پیدائش کے بعد وہ بیوہ ہو گئیں تھیں۔میرے سوتیلے بہن بھائیوں کی پرورش میری خالہ نے کی جبکہ ہماری پرورش ہماری ماں نے کی ۔ مجھ سے چھوٹا ایک بھائی ہے جس کا نام عزیز ہے۔
٭٭آپ نے کہاں تک تعلیم حاصل کی ہے؟
٭میں نے صرف چوتھی جماعت تک پڑھا ہے۔ پھر میں نے تعلیم کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ اس کی مختلف وجوہ تھیں جن میں ایک یہ بھی تھی کہ جس مدرسے میں مجھے داخل کیا گیا تھا‘وہاں کے مقاصد سے مجھے کسی قسم کی دلچسپی نہیں تھی۔ والد صاحب کاروبار کے سلسلے میں اکثر گھر سے باہررہتے تھے۔ وہ دس پندرہ دن بعد گھر آتے تھے۔ وہ آتے ہی میری ٹنڈکرادیتے تھے۔میرا سر ہر وقت صاف دیکھ کر برادری والوں نے میرا نام’’روڑی‘‘رکھ دیا تھا۔ ایک بار وہ گھر آئے تو میری تعلیم میں عدم دلچسپی دیکھ کر فیصلہ صادر کر دیا کہ’’عبدالستار اب راجکوٹ کے بورڈنگ سکول میں پڑھے گا۔‘‘اس پر میری ماں نے رونا دھونا شروع کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر عبدالستار بھی گھر پر نہیں ہو گا تو جو گھر اور باہر کے کام ہیں‘وہ کون کرے گا؟…… بالآخر والد صاحب نے اپنا ارادہ بدل دیا اور سچ تو یہ ہے کہ اس فیصلے سے خود میری جان میں جان آئی۔
٭٭آپ گھر پر اور گھر سے باہر کیا کام کرتے تھے جو آپ کے بغیر نہ ہو سکتے تھے؟
٭میں ہر روز جب سکول جاتا تو ماں مجھے دو پیسے دیتیں‘اس ہدایت کے ساتھ کہ ان میں سے ایک بہرصورت کسی دوسرے حاجت مند کو دے دوں۔ ساتھ ہی وہ کہتیں کہ پیسے دینے سے پہلے حاجت مند کے بارے میں تسلی کر لیا کرو کہ وہ واقعی مستحق ہے یا نہیں۔ میں کبھی وہ ایک پیسہ حاجت مند کو دے دیتا اور اکثر خود ہی اس کا کچھ لے کرکھاجاتا۔ وہ روزانہ شام کو مجھ سے پوچھتیں کہ ان پیسوں کا کیا کیا؟ جس روز کسی کو دیے ہوتے تو آسانی سے بتادیتا لیکن جب خود کھالیتا تو مجھ سے جواب نہ بن پڑتا۔ اس پر وہ کہتیں’’تم نے غریب کا حق مارا ہے……اس پر ظلم کیا ہے۔ تم اگر ابھی سے غریبوں پر ظلم کر رہے ہو تو آگے جاکر تو بہت بڑے ظالم بنو گے۔ وہ پیسے تمہارے نہ تھے۔وہ کسی حاجت مند کے تھے۔‘‘ پھر وہ کہتیں’’خود غرض لوگ اپنے سوا کسی کو بھی کچھ دینا نہیں جانتے۔‘‘
میں گھر کے کام کاج کرتا تھا۔جب میرے اس ’’ظلم‘‘ پر والدہ غصے ہوتیں تو میں عجلت میں تیز تیز کھاناکھاتا‘برتن صاف کرتا اور ہر کام سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا۔اس پر وہ سمجھاتیں’’ دیکھو بیٹا!غریبوں کو ان کا حق نہ دینا اچھی بات نہیں۔ ان کی ہر ممکن مدد کی کوشش کیا کرو۔اﷲ تعالیٰ کو خوش رکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔‘‘
والدہ کی ان باتوں کا مجھ پر گہرا اثرہوتا۔چنانچہ میں بانٹو اسے باہر کی بستیوں میں جاکر غریبوں‘ناداروں اور حاجت مندوں کی مشکلات معلوم کرتا۔ پھر واپس آکر والدہ کو ان کے بارے میں بتاتا تو والدہ مجھے کھانے پینے کی چیزیں اور ادویات دے کر الٹے پاؤں واپس بھیج دیتیں اور میں وہ چیزیں جاکر لوگوں میں تقیسم کرتا۔والد صاحب اچھا خاصا کماتے تھے۔ اس کے باوجود والدہ دکان سے روئی کے بنڈال اٹھا لانے کو کہتیں‘جنہیں معاوضے پر صاف کرنا ہوتا تھا۔ میں روئی کا بنڈل دکان سے اٹھا کر گھر لاتا ‘اسے صاف کرتا اور پھر صاف روئی دکان دار کو لوٹا کر اپنا معاوضہ لے کر گھر چلا آتا۔ اس طرح ماں نے مجھ میں محنت کی عادت ڈالی۔ وہ محنت کی توقیر پر یقین رکھتی تھیں۔ رمضان میں سبھی میمن خواتین کھانے پینے کی چیزوں کو پیکٹ تیار کرکے دیتیں کہ جاکر غریبوں اور ناداروں میں تقسیم کرو۔ میں وہ پیکٹ لے کر بے کس رشتے داروں اور دیگر غرباء کے ہاں پہنچاآتا۔میں ان چیزوں کو ضرورت مندوں تک پہنچانے کے لیے برق رفتاری سے گلی کوچے عبور کرتا‘ تقسیم کرتااور لوٹ آتا۔ عید بقر عید کے موقعے پر بھی ماں غریبوں اور حاجت مندوں کو نہ بھولتیں۔ وہ عید کے روز صبح حسب استطاعت لفافوں میں پیسے رکھ کر مجھے دیتیں‘میں حسب عادت تیزی سے جاتا اور وہ لفافے غریب گھرانوں میں بانٹ آتا۔ ہمارے گھر کے قریب ایک ڈسپنسری تھی۔ اس میں خواتین کام کرتی تھیں۔ وہ بھی اپنے کام کرانے کے لیے مجھے بلاتیں تو میں ان کے کام کاج بھی کر دیتا۔ آہستہ آہستہ میری اس مصروفیت اور عادت سے گاؤں بھر کے لوگ واقف ہو گئے۔ وہ سب شفقت سے پیش آتے ۔ پھر تو یہ حال ہو گیا کہ میں اکثر گھر سے باہر چلا جاتا اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر محتاجوں اور حاجت مندوں کی مدد کرتا۔ والدہ اپنی نیک فطرت اور میرے ان کاموں کی وجہ سے اکثر یہ بھول جاتیں کہ میں مدرسے میں پڑھتا ہوں اور میرے تعلیم میں حرج ہو رہا ہے۔وہ مطمئن تھیں کہ میں جو کررہا ہوں‘بالکل صحیح ہے۔ والدہ نے زندگی کے ابتدائی دِنوں میں میرے لیے سماجی خدمت کے کاموں کا جو چناؤ کیا‘ اسی نے میرے دِل میں انسان دوستی کی بنیاد رکھی۔
٭٭ایدھی صاحب!جب آپ بچے تھے تو کیسی طبیعت کے مالک تھے‘سنجیدہ یا شرارتی؟
٭میں بہت شرارتی تھا۔ میں بانٹواکے گلی کوچوں میں شرارتیں کرتے اور کھیل کود کرتے جو ان ہوا ہوں۔ مجھے تعلیم سے دلچسپی نہیں تھی۔میں اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا تھا۔ چنانچہ ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت مجھے ہر جماعت کا ’’مانیٹر‘‘ لگا دیا جاتا۔ سب لڑکے میرے زیراثرتھے۔ ہم طرح طرح کی شرارتیں کرتے تھے‘جیسے ایک دیوار کھڑی کرنا اور پھر سب مل کر چھوٹے چھوٹے پتھر اٹھا کر شور مچاتے ہوئے اور بھاگتے ہوئے جاکر پتھر اس دیوار پر مار کر اسے گرانا۔فروٹ منڈی جاکر خربوزے اور دیگر موسمی پھل اٹھا کر رفو چکر ہو جانا اور کہیں بیٹھ کر خوب مزے لے لے کر انہیں کھانا‘ درختوں پر چڑھ کر جنگلی جانوروں کی آوازیں نکال کر لوگوں کو ڈرانا‘یہ وہ شرارتیں تھیں جو ہم بچپن میں کرتے تھے۔(یہاں مولانا عبدالستار ایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی جو قریب ہی تشریف فرما تھیں بولیں’’یہ بچپن میں ایک بار گھر سے بھی بھاگ گئے تھے‘‘ جس کے جواب میں ایدھی صاحب نے کہا ’’اسی لیے میں نے اب گھر سے بھاگے ہوئے بچوں کے لیے ایک ہوسٹل بنایا ہے‘نہ بھاگتا تو شاید یہ ہاسٹل نہ کھولتا۔‘‘)
٭٭کھیل کود سے بھی دلچسپی تھی یا نہیں؟
٭کھیل کود سے تو بے حد دلچسپی تھی۔ گلیوں میں گلی ڈانڈا کھیلتا تھا۔ تیزدوڑنے کا مجھے جنون تھا۔ کبھی دوڑ کا مقابلہ ہوتا تو جب ساتھی دوڑنے کے لیے پرتول رہے ہوتے‘میں آخری لکیر عبور کر چکا ہوتا تھا۔ میری تیز رفتاری سے مایوس ہو کر میرے ساتھیوں نے میرے ساتھ دوڑنے کے مقابلے میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔
٭٭کبھی کسی شرارت پر مار پڑی؟
٭ہم اکثر امیر لوگوں کے باغات میں جاگھستے اور وہاں درختوں سے بیریا کوئی اور پھل توڑ کر بھاگ جاتے تھے۔ اس دوران اگر کبھی پکڑے جاتے تو باغ کا مالک ہماری گردنیں دبوچ کر کہتا ’’آئندہ تم نے یہ حرکت کی تو سب کو کنویں میں الٹا لٹکادوں گا۔‘‘وہ کبھی کبھارہمیں سزابھی دیتا مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس کی دھمکی سے ہم باز آئے ہوں۔
٭٭بچپن کے دوستوں میں اکثر لڑائی جھگڑا ہوجایا کرتا ہے‘آپ کا بھی کبھی کسی سے جھگڑا ہوا؟
٭صرف ایک بار میرا کچھ لڑکوں سے جھگڑا ہوا۔ ہوایوں کہ سکول کے باہر چند سینئر طلبہ ایک ذہنی معذور شخص کو ستارہے تھے۔ وہ ان سے بچنے کے لیے ادھر ادھر بھاگ رہا تھا‘میں یہ منظر دیکھ کر رنجیدہ ہو گیا اور وہاں جا پہنچا۔میں نے ان لڑکوں کو اس ظلم سے منع کیا اور اسے چھڑانا چاہا۔ اس پر سارے لڑکے مجھ پر برس پڑے۔ مجھے بھی غصہ آگیا اور میں نے تن تنہا پوری قوت سے ان لڑکوں کا مقابلہ کیا۔اس تصادم میں مجھے بہت زخم آئے مگر اس معذور شخص کو ان لڑکوں کے چنگل سے آزاد کروادیا۔گھر جا کر والدہ کو اپنا زخمی جسم دکھایا اور سارا واقعہ سنایا تو وہ کہنے لگیں’’شاباش بیٹا!آج تم نے ایک ایسے انسان کو زبان دی ہے جسے خوف کے باعث جانے کب سے چپ لگی ہوئی تھی۔ اس کو ستانے والے ابھی بچے ہیں‘بڑے ہوں گے تو خود ہی سمجھ آجائے گی۔‘‘
٭٭آپ کے بچپن کے دوست کیسے تھے؟
٭سبھی اچھے تھے۔ بس شرارتوں میں ہم ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے۔ اکثر ساتھی نمازی تھے۔ اذان کی آواز آتی تو سب دھندے چھوڑ کر مسجد پہنچ جاتے‘وضو کرتے اور نماز پڑھتے۔ اکثر ہم دوسری اذان کے انتظار میں وہیں قریب ہی کھیلتے رہتے۔ میں نے قرآن پاک بغیر ترجمے کے پڑھنے کی ابتدا کی۔ جب گیارہ سال کا ہوا تو نماز روزے کا پابند ہو چکا تھا۔
٭٭آپ نے پڑھائی کیوں چھوڑی؟
٭میں جس مدرسے میں پڑھتا تھا‘اس کے مقاصد سے مجھے دلچسپی نہ تھی۔ لہٰذا پڑھائی میں دلچسپی نہ پیدا ہو سکی۔اس کے باوجود میں پڑھ رہا تھا مگر ایک درندہ صفت استاد نے مجھے تعلیم کو خیرباد کہنے پر مجبور کر دیا۔
٭٭تعلیم کا سلسلہ منقطع ہونے کے بعد آپ کے کیا مشاغل رہے؟
٭میں محنت اور کام کا عادی تھا۔ تعلیم کا سلسلہ ترک کیا تو حاجی عبداﷲ نامی ایک تاجر کی دکان پر مجھے ملازمت مل گئی۔ اس وقت میری عمر گیارہ برس تھی۔میری تنخواہ پانچ روپے ماہانہ تھی۔ جس میں سے چار روپے میں ماں کو دیتا تھا اور باقی ایک روپیہ گھر کی ایک الماری کے اوپر رکھی ہانڈی میں جمع کر دیا کرتا۔میرے علاوہ تین چار اور لڑکے بھی اس دکان پر کام کرتے تھے۔ میں محنت اور لگن سے وہاں کام کرتا تھا۔ جلد ہی میرے کام سے خوش ہو کر سیٹھ نے مجھے اپنے بچے سکول سے لانے اور دن بھر کی چائے کے اہتمام وحساب پر مامور کر دیا اور مجھے انعام میں کچھ زیادہ پیسے ملنا شروع ہو گئے۔یوں میری بچت بڑھتی گئی۔ میمن خواتین پردے کی پابند تھیں‘وہ کپڑا فروخت کرنے آتیں تو میں اس فروخت میں ان کی مدد کر دیتا ۔ سیٹھ میرے کام سے خوش تھا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ کسی لڑکے نے چوری کرلی۔وہ پکڑا گیا تو اس نے مجھے بھی اس برے کام میں ملوث کردیا‘حالانکہ مجھے کچھ پتہ نہ تھا۔ سیٹھ اس الزام پر غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اس لڑکے کی خوب سرزنش کی جبکہ مجھے مزید فرائض سونپ دیے گئے۔ اس دوران ماں نے مجھے دکان سے اٹھا کر ایک انگریزی سکول میں پہلی جماعت میں داخل کرادیا۔ مجھے تعلیم سے رغبت نہیں تھی‘دوسری جماعت سے فارغ ہونے کے بعد جب میں تیرہ سال کا تھا تو عام تعلیم سے فارغ ہو گیا۔میں اگرچہ زیادہ پڑھ لکھ نہ سکا تاہم بچپن ہی میں‘میں یہ سوچتا تھا کہ میں آئندہ کیا بنوں گا؟پھر میں نے گلی محلوں میں جاکر ماچسیں فروخت کرنا شروع کیں۔ بچت ہانڈی میں ڈال دیتا اور خیالوں خیالوں میں کبھی غریبوں کے لیے ہسپتال بناتا‘کبھی فیکٹری لگا کر لوگوں کو ہنرمند بناتا اور انہیں روزگار دیتا یا پھر معذور لوگوں کے لیے بستی یا شہر تعمیر کرتارہتا۔ بانٹوا زیادہ بارشوں کے وقت اکثر سیلاب کی زد میں رہتا تھا۔ سیلاب علاقے کے لیے بے شمار مصائب لے کر آتا‘میں اس بارے میں سوچتا تھا۔ایک بار جب باراتیوں سے بھری بس حادثے کا شکار ہوئی اور بے شمار لوگ ہلاک وزخمی ہوئے تو میں نے پہلی بار زخمیوں اور لاشوں کو دیکھا‘ان کے اٹھتے جنازوں کا منظر برداشت کرنا میرے بس میں نہ تھا۔
میں گجراتی زبان میں شائع ہونے والے اخبارات کا مطالعہ کرتا رہتا تھا۔ ان میں ’’مسلم گجرات گزٹ‘‘ ’’بمبئی سما چار‘‘ اور ’’سیندیس میگزین‘‘ شامل تھے۔ انہی رسائل وجرائد کے ذریعے محمد علی جناح ؒ کی برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کی جدوجہد کا علم ہوا۔میں چونکہ گجراتی زبان ہی پڑھ لکھ سکتا تھا‘اس لیے میرا مطالعہ محدود رہا۔ ایک چیز جب میں جب تک تین چار مرتبہ نہ پڑھتا‘میرے پلے کچھ نہ پڑتا۔
٭٭جب آپ کو معلوم ہوا کہ قائداعظمؒ مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کی جدوجہد کررہے ہیں تو آپ نے اس تحریک کو جاننے کی کوشش کی ہو گی۔ آپ کچھ اس بارے میں بتائیں گے؟
٭میں اخبارات کے ذریعے اس جدوجہد کے بارے میں پڑھتا رہتاتھا۔ پھر قائداعظم ؒ بانٹوا آئے اور انہوں نے وہاں کے مسلمانوں سے خطاب کیا۔ ہم سب نے پاکستان کے حق میں پرجوش انداز سے نعرے لگائے اور پارٹی فنڈ کے لیے پینتیس روپے قائداعظم کو پیش کیے۔ بہت سے لوگوں نے چار آنے دے کر مسلم لیگ کی بنیادی رکنیت حاصل کی۔
٭٭کچھ یاد ہے‘قائداعظمؒ نے اپنی تقریر میں وہاں کے لوگوں سے کیا کہا تھا؟
٭بانٹوا چونکہ میمن برادری کی بستی تھی اور وہ لوگ تجارت پیشہ تھے‘اس لیے جناح صاحب نے انہیں کہا کہ ہندوستان میں رہ جانے کا ان کا فیصلہ بھارت کے لیے مفید اور پاکستان کے لیے تباہ کن ہو گا۔اس طرح پاکستان میمن برادری کے انتہائی تجربہ کار کاروباری طبقے سے بھی محروم ہو جائے گا۔ چنانچہ اس پر میمن برادری نے ہندوستان چھوڑ کے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔اسی اثناء میں بانٹوا میں متعصب ہندوؤں نے مسلمان گھرانوں پر حملے کیے اور کہا کہ ان کی ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں۔ والد صاحب کا کہنا بھی یہی تھا کہ ہمیں پاکستان جانا چاہیے‘ہندوستان میں ہم خودمختار قوم کی حیثیت سے زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ پاکستان میں باعزت زندگی گزارنے کے مواقع میسر آئیں گے اور ہم پر رام راج کے بجائے اسلام کے منصفانہ قوانین کی حکمرانی ہو گی۔
٭٭آپ نے کب ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی؟
٭ہماری ہجرت چھ ستمبر۱۹۴۷ء کو شروع ہوئی۔ ہم ریل کے ذریعے’’اوچھ پورٹ‘‘ کے مہاجر کیمپ میں آئے۔ ہماری میمن برادری کا چار ہزار افراد کا قافلہ تھا۔ اتنی بڑی تعداد میں ایک تاجر برادری کی ہجرت بھارت کے لیے شدید دھچکا تھا۔چنانچہ ایک انڈین اسسٹنٹ کمشنر نے ہمیں وہیں رہنے اور پاکستان جانے کے ممکنہ نتائج سے ڈرانے کی کوشش کی مگر والد صاحب نے ہر شخص کو پاکستان کی طرف سفر جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔ ہم پانچ روز تک روکھی سوکھی کھاتے اور پھر بحیرہ عرب کی موجوں پربحری سفر کرتے کراچی کی بندرگاہ پر پہنچے۔ یہاں ہم ایک ولولہ انگیزاحساس کے ساتھ اترے ۔بانٹوا چھوڑنے کا اگر مجھے کوئی افسوس تھا تو صرف یہ کہ میں نے کچھ حصص خرید کر گھر کی الماری پر رکھی ہانڈی میں رکھے تھے‘جو میں عجلت میں وہیں چھوڑ آیا تھا۔
ابتدا میں یہاں ہم ملیر میں ایک مہاجر کیمپ میں ٹھہرے۔ کچھ عرصے کے بعد والد صاحب نے چھابہ گلی میں ایک چھوٹا سا کمرہ کرایے پر لے لیا۔ ہماری نئی رہائش شہر کی عدالت کے قریب واقع تھی۔ میں زیادہ تر وقت گلیوں کی خاک چھانتا اور حسرت سے بانٹوا اور کراچی کا موازنہ کرتا رہتا۔
٭٭پاکستان آکر آپ نے اپنی زندگی کس طرح شروع کی؟
٭ہجرت کے بعد ہم لوگ یہاں آئے تو میں نے طے کیا تھا کہ تعلیم کے پیچھے پندرہ بیس برس ضائع نہیں کروں گا۔یہ وقت میں اپنے مشن اور مقصد پر صرف کروں گا۔ میں نے پاکستان کی دھرتی پر قدم رکھتے ہی پانچ اصول بنائے تھے۔ ایک یہ کہ تعلیم پر وقت صرف کرنے کے بجائے‘ اسے اپنے مقصد پر صرف کروں گا۔صحت کے حوالے سے کام کروں گا۔اپنی کمائی اس حد تک کروں گا کہ اس سے میرے اخراجات پورے ہوتے رہیں‘سادگی سے زندگی گزاروں گا۔اس قدر سادہ زندگی کہ غریب سے غریب آدمی بھی میرے پاس آئے تو مجھ سے نفرت نہ کرے۔ اپنے مشن کے لیے کسی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے سے عطیہ لینے نہیں جاؤں گا‘بلکہ ماحول پیدا کروں‘اﷲ کا شکر ہے لوگوں نے میرے کام دیکھے‘وہ متاثر ہوئے اور انہوں نے خود آکر مجھے عطیات دینے شروع کیے۔
مجھے والد صاحب نے کام کرنے کے لیے کچھ پیسے دیے۔ میں نے ان سے پنسلیں‘ماچس کی ڈبیاں اور تولیے تھوک بازار سے خریدے اور شہر کے مصروف بازار میں بیچنے لگا۔ جلد ہی بھاگ بھاگ کر چیزیں فروخت کرنے کی مجھے عادت ہو گئی۔میں اپنے اس کام اور محنت سے خوش تھا۔میں اس سے بچت کرتا رہا اور پھر اس بچت سے پان کا ایک ٹھیلا کرائے پر لے لیا۔ کچھ عرصہ یہ کام کیا۔ ان دنوں میں نے ایک اور کام بھی کیا۔ میں گوالوں سے دودھ لیتا اور صبح سویرے لوگوں کے گھروں میں دودھ پہنچاتا۔ پھر محض تجربے کے لیے میں نے گھر سے دور بہاول نگر جاکر کپڑے کے ایک تاجر کے ہاں ملازمت کرلی۔ چھ ماہ تک میں وہاں کام کرتا رہا‘پھر گھر آگیا۔اس عرصے میں والدہ کی صحت بگڑ گئی تھی۔ چنانچہ فیصلہ کیا کہ اب گھر والوں کی دیکھ بھال کروں گا اور یہیں کچھ کام کاج کروں گا۔ پھر والد صاحب کی طرح میں بھی کمشن ایجنٹ بن گیا۔اب کچھ رقم والدین کو دیتا اور باقی بچت کے لیے اپنے پاس رکھ لیتا۔ پھر جلد ہی میں شیئر سر ٹیفکیٹ کی مدد سے اپناذریعہ آمدنی بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
٭٭انسانیت کی خدمت کا خیال کیسے آیا؟کس چیز نے آپ کو باقاعدہ اس طرف توجہ دینے پر مجبور کیا؟
٭میری والدہ نے مجھے انسانیت کی خدمت کے لیے تیار کیا اور اس کام پر لگایا۔انہوں نے میری تربیت اس انداز سے کی کہ میرے دل میں خدمت خلق کا احساس رچ بس جائے۔وہ میرے ذریعے حاجت مندوں اور محتاجوں کی مدد کیا کرتی تھیں۔اس طرح غریبوں کی مدد وحمایت اور ان کی خدمت کا جذبہ میرے اندر پیدا ہوا۔ پھر میرے ایک دوست حاجی یوسف تھے۔ ان کے خیالات اور رہنمائی نے میری بڑی مدد کی۔ انہوں نے مجھے امیر وغریب کا فرق بتایا، مظلوم وظالم میں تمیز سکھائی۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ قدرت کو مجھ سے کام لینا تھا۔اﷲ نے جس سے کام لینا ہوتا ہے‘اس کے لیے اسباب پیدا کرتا ہے۔
٭٭آپ نے خدمت خلق کے اس کام کی باقاعدہ ابتدا کس طرح کی اور اس کام میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
٭۱۹۴۸ء میں میمن برادری نے یہیں میٹھا درکراچی میں ایک ڈسپنسری قائم کی۔ قبیلے کے ایک صاحب حیثیت بزرگ حاجی عثمان عبدالغنی صاحب نے اس کے لیے نصف سرمایہ دے کر جگہ دلائی۔ڈسپنسری کا نام’’بانٹوا میمن ڈسپنسری‘‘رکھا گیا۔ میں نے خود کو اس کے لیے رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔میں صبح کے وقت کپڑے کی دکان پر کام کرتااور بازار بند ہوتے ہی ڈسپنسری میں آجاتا۔ڈسپنسری میں آنے والوں سے چار آٹھ آنے فیس لی جاتی تھی۔ پھر ڈسپنسری کے ذمے داران سے اس وقت میرے اختلافات شروع ہو گئے جب وہ اپنی برادری کے لوگوں کوتو مفت ادویات دیتے اور انہیں قطار میں بھی نہ لگنے دیا جاتا جبکہ دوسرے لوگوں سے فیس بھی لی جاتی اور قطاروں میں بھی انہیں کھڑا کیا جاتا۔یہ بات مجھے گوارا نہ تھی۔ میں کمیٹی کا رکن تھا مگر میں برادری اور باہر کے لوگوں سے ایک سا سلوک کرتا تھا۔میں غیر منصفانہ ضابطوں کو توڑ کے اور قبیلے سے بالاتر ہو کر ضرورت مندوں کو ادویات فراہم کرتا تھا۔میں نے کمیٹی کے ارکان کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ اس طرح امتیاز برتنے سے فلاحی کام کی اہمیت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ اس پر مجھے مخصوص حربوں سے ہراساں کرنے کی کوشش کی جانے لگی۔ اس کام میں برادری کے چھوٹے بڑے سب لوگوں نے کمیٹی کے ارکان کا بھرپور ساتھ دیا۔
ایک بارڈسپنسری میں برادری کے سیٹھوں نے فلاحی تقریب منعقد کی۔ سب اپنی اپنی کہہ چکے تو میں نے بات کرنا چاہی مگر مجھے برا بھلا کہہ کر اور مضحکہ اڑاکر بیٹھ جانے کو کہاگیا مگر میں خاموش نہ رہ سکا۔ میں نے کہا’’آپ بڑے لوگ پرانے کپڑے اور سلائی مشین بانٹنے کے لیے تقریبات اور جلسے کرواتے ہیں۔ مقصد فلاحی کام نہیں بلکہ ذاتی تشہیر ہوتا ہے۔ اس پر بے بہا پیسہ ضائع ہوتا ہے۔ آپ لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ میڈیا میں رہیں۔ آپ کی تشہیر ہو۔ ‘‘میرا یہ کہنا تھا کہ مجھ پر ڈنڈوں، جوتوں اور کرسیوں کی بارش شروع ہو گئی۔ مجھے ڈسپنسری سے باہر نکال دیا گیا اور کہا کہ آئندہ ڈسپنسری میں نظر آؤں۔ اس مرحلے پر والد صاحب نے میری رہمائی کی اور کہا’’انہیں نظر انداز کر دو اور اپنا کام جاری رکھو۔ ایماندار لوگوں کو کسی کا مرہون منت نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ اس کٹھن وقت میں برادری کے چند نوجوانوں نے میرا ساتھ دیا۔ میں مایوس نہ ہوا۔
۱۹۵۱ء میں دو ہزارتین سو روپے کے عوض میٹھادرہی میں آٹھ مربع فٹ کی دکان پگڑی پر لے کر میں نے اس میں ڈسپنسری کھول دی۔ اس کا نام ’’میمن والنٹیئر کور‘‘رکھا۔میمن نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد میرا ساتھ دینے لگی۔یہ ڈسپنسری ہر شخص کی ضرورت کو پورا کرتی تھی۔ دوائیں کمپنی کے نرخوں پر خرید کر مستحقین کو دی جاتیں‘غریب کو ڈاکٹروں کی فیسوں سے بچانے کے لیے ڈسپنسری ہی میں ایک ڈاکٹر رکھا گیا۔ ڈسپنسری روزانہ وقت پر کھلتی ۔مخالف ڈسپنسری سے مقابلے کے خیال سے اب میں ہر وقت خود وہاں موجود رہتا۔حتیٰ کہ بازار بند ہو جانے کے بعد بھی میں ڈسپنسری کے باہر بیٹھا رہتا اور پھر وہیں سیمنٹ کے بنے ہوئے بنچ پر سوجاتا تاکہ رات کو دیر سے ڈسپنسری آنے والے کی بھی فوری مدد کی جاسکے۔ماں کہتی کہ رات کو کھانا کھانے اور سونے کے لیے گھر آجایا کرو مگر میں تسلی دیتا کہ میں بنچ پر آرام سے سوتا ہوں۔
۱۹۵۶ء میں‘مجھے کراچی سے باہر کی دنیا دیکھنے اوراسے سمجھنے کا خیال آیا کہ اس سے کام اور شعور کی مزید راہیں سمجھ میں آئیں گی۔ چنانچہ مغرب کی طرف سفر کا آغاز کیا۔یہ سفر بذریعہ بس کیا۔میں ایران‘ترکی‘یونان‘بلغاریہ اور یوگوسلاویہ سے گزرا۔اس سفرمیں میرے ساتھ صرف ایک تھیلا تھا جس میں ضروری سفری دستاویزات‘کپڑوں کا ایک جوڑا‘ایک چادر، کچھ پیسے اور کھانے کی چند چیزیں تھیں۔راسستے میں جہاں سے گزرتا لوگ مجھے در بدر مسافر سمجھتے، کچھ ترس کھا کر کچھ کھانا یا پیسے دے دیتے‘کھانا میں کھالیتاجبکہ پیسے میں ڈسپنسری کے لیے بچالیتا۔اٹلی کے شہرروم میں جب میں ریلوے اسٹیشن کے بنچ پر چادر لپیٹ کر رات گزارنے لگتا تو لوگ میر ے پاس ریزگاری چھوڑجاتے۔مگر یہ بھی ہوا کہ ایک صبح جب میں اٹھا تو میرے جوتے غائب تھے۔
گھومنے پھرنے کا شوق ختم ہوا تو میں واپس کراچی پہنچا۔ڈسپنسری کے قیام کے دو سال بعد میں نے اس کا نام ’’مدینہ والنٹیئر کور‘‘رکھا کیونکہ سابقہ نام میں مجھے برادری ازم کی جھلک نظر آتی تھی۔یورپ کے دورے کے بعد ڈسپنسری کے لیے میرے ذہن میں نئے نئے خیالات تھے۔ چنانچہ میں نے ڈسپنسری کے اوپر ہی جگہ حاصل کر لی اور ایک میٹرنٹی ہوم شروع کردیا۔اس پر میرے مخالفین پھر اٹھ کھڑے ہو گئے اور مجھ پر گھٹیا الزامات کی شرمناک مہم شروع کر دی۔ اس مخالفت سے میں مایوس نہیں ہوا بلکہ میرے عزائم اوربھی پختہ ہو گئے۔میں نے ایک لیڈی ڈاکٹر کی زیرنگرانی میٹرنٹی یونٹ کا آغاز کردیا۔ اس یونٹ میں نرسنگ کی تعلیم دی جانے لگی۔ بے شمار لڑکیاں ٹریننگ کے لیے آنے لگیں۔ تین ماہ کے کورس کے بعدلڑکیوں کو وظیفہ دیا جاتا۔قابل لڑکیاں بعد میں نئی آنے والی لڑکیوں کو نرسنگ کی تربیت دیتیں۔دیکھتے ہی دیکھتے نادار‘بیمار‘اور بے سہارا بچے اور بوڑھے ہمارے پاس آنے لگے۔ان کی ہر طرح سے مدد کی جانے لگی۔ مالی وسائل کو بڑھانے کے لیے میں نے قربانی کی کھالوں کا اخبار میں اشتہار دیا تو لوگ کھالوں کا عطیہ ڈسپنسری میں پہنچانے لگے۔
اچانک ایک روزوالدہ بیمار ہوگئیں تواحساس ہوا کہ ٹرانسپورٹ کی سہولت بے ـحد ضروری ہے۔ اب میں اس فکر میں رہنے لگا کہ کس طرح ایمبولینس کا انتظام کیا جائے۔بالآخر یہ بھی ہوگیا۔ایک صاحب نے عطیہ دیا، میں نے اس سے بیس ہزار روپے بچا کر سیکنڈ ہینڈ ایمبولینس خرید لی۔پھر ایک سے دو دو سے چار ہوتی گئیں۔
٭٭والدہ کو کیا ہوا تھا؟
٭انہیں فالج کا حملہ ہوا تھا جس کے باعث ان کے جسم کا بایاں حصہ متاثر ہوا۔ وہ گھر میں اکیلی رہتی تھیں۔ وہ جب فالج کے اچانک حملے کے باعث گریں تو باہر گلی میں کھیلتے بچوں میں سے کسی نے انہیں دیکھ لیا اور مجھے اطلاع دی۔ میں مشکل سے انہیں ہسپتال لے گیا جہاں علاج ومعالجے کے بعد وہ قدرے بہترہوگئیں مگر پھر وہ بہت کمزور اور بیمار رہنے لگیں۔ میں ہر صبح انہیں ناشتہ تیار کر کے دیتا‘ان کے کپڑے بدلتا اور دوادیتا۔اب میں زیادہ تر وقت والدہ کی خدمت میں گزارتا ۔والد اور چھوٹا بھائی عزیز شام کو دیر سے گھر آتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ ماں چارپائی سے لگ گئیں۔ میں ہی ان کے سارے کام کرتا۔ سوچا کہ شادی کرلوں مگر مجھ سے شادی کرنے کے لیے کوئی بھی لڑکی رضامند نہ ہوتی تھی۔ ہر ایک یہی کہتی’’مجھے دینے کے لیے تمہارے پاس کیا ہے؟تم مجھے کہاں رکھو گے؟خود تم ڈسپنسری میں رہتے ہو اور سیمنٹ کے بنچ پر سوتے ہو۔‘‘میں ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا جو کاہل ہو نہ سست۔ میں چاہتا تھا میری شریک حیات کارکن بھی ہو اور اسے میرے کام اور میرے مشن سے لگاؤ ہو۔ پھر ایک روز صبح پانچ دن موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد ماں مجھے ہمیشہ کے لیے تنہا چھوڑ گئی۔ماں کو دفنایا تو اس کے بغیرخالی گھر میں جانے کا مجھ میں حوصلہ نہ تھا۔چنانچہ میں ڈسپنسری کی طرف چل دیا۔ڈسپنسری آکر میں نے کھڑکیاں دروازے مقفل کر لیے اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ماں کی خدمت نے ہی یہ شعور مجھ میں اجاگر کیا کہ جس طرح میں نے ان کی خدمت کی‘ویسی ہی خدمت میں انسانیت کے لیے بجالاؤں۔
٭٭ڈسپنسری تو صرف صحت کے حوالے سے عوامی خدمت کا مرکز تھی‘دیگر کاموں کی طرف آپ نے کب توجہ دینا شروع کی اور کیسے؟
٭والدہ کی وفات کے بعد میں نے میٹھادر میں ہی ایک کمرہ کرایے پر لے لیا۔ کمرہ بے حد خستہ حال تھا۔ میں گھر سے اپنا مختصر سامان جس میں کچھ برتن‘لکڑی کا ایک چمچ‘ایک چھوٹا چولہا‘دوپاجامے اور چند دیگر چیزیں شامل تھیں‘ وہاں لے آیا۔ کمرے میں تعفن تھا اور سیم زدہ ہونے کی وجہ سے اس میں بہت بو پھیلی ہوئی تھی۔میں نے اسے صاف کیا۔ یہیں مجھے خیال آیا کہ مجھے گلی محلوں میں پھیلے تعفن کو دور کرنا ہوگا۔بدبودار تالابوں سے غلاظت صاف کرنا ہو گی‘اس ملک کو صاف ستھر اکرنا ہوگا۔فجر کی اذان کے ساتھ ہی میں اٹھا اور قریبی مسجد میں جاکر نماز اداکی۔ یہاں بھی یہی خیال میرے ذہن پر حاوی رہا کہ سماجی بہبود کے روایتی طور طریقوں کو بدلنا ہوگا۔بے سروسامانی کے عالم میں سماجی بہبود کے کام کاآغاز دیوانے کا خواب تھا۔ڈسپنسری میں صفائی کے لیے میں نے کوئی ملازم نہ رکھا۔ میں خود روزانہ صفائی کرتا۔دراصل ہندوتہذیب نے مسلمانوں کو بھی بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔حتیٰ کہ کم آمدنی والے مسلمان بھی صفائی عیسائی خاکروبوں سے کراتے ہیں۔
ایک روز بالآخر میں نے کاندھے پر بیلچہ اٹھایا اور سڑک کے درمیان پڑے گوبر کو ہٹانے چل پڑا۔میں نے وہ گندگی سڑک سے اٹھائی اور پلاسٹک شیٹ پر ڈالی‘پھر اس کی گٹھڑی بناکر پیٹھ پر لادی اور پرہجوم گلیوں سے ہوتے ہوئے دور جاکر ایک بڑے گڑھے میں پھینک دی۔اگرچہ ایساکرنے سے میں خود گندگی کا ایک ڈھیر لگ رہا تھا مگر میں نے اس کا احساس نہ کیا۔ اب میں ہر پانچ سات روز بعد لوہے کے ایک ڈنڈے کے آگے جھاڑو باندھ کر نالیوں کو صاف کرتا اورغلاظت سے بھرے گٹروں اور گندگی کا موجب بننے والے مین ہولوں کو کھول کے رواں کرتا۔اس سماجی کام میں کسی نے میری مدد کی نہ ہی کسی نے یہ کام کرتے دیکھ کر مجھے شاباش دی ۔پھر میٹھادر کا علاقہ میری آزمائشوں کی آماجگاہ بن گیا۔ میں خاکروب کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے ہر دم تیار رہنے لگا۔جاننے والے مجھے یہ کام کرتے دیکھ کر کہتے:’’عبدالستار ایدھی کمی کمین ہو گیاہے‘پرلے درجے کا خاکروب!‘‘
کراچی میں نئی عمارات کا ایک جال بچھ رہا تھا‘سوچا اپنی ہڈیوں کی آزمائش کروں۔ چنانچہ میں نے اپنے سرپر وزنی لکڑی کے بورڈزاٹھائے‘ پیٹھ پرسیمنٹ کے توڑے لادے اور ریت سے بھری ریڑھیاں چلائیں۔
٭٭ایدھی صاحب !ہنگامی صورت حال نہ ہو تو عموماً آپ کی مصروفیات کیا ہوتی ہیں؟
٭میں جس شہر میں بھی ہوتا ہوں‘میری عادت ہے کہ صبح سویرے تمام ایدھی مراکز کے معاملات کو دیکھتا ہوں۔ کراچی میں ہوں تو ایمبو لینس چلاتا ہوں یاکسی فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر ٹوکن فروخت کرنا میرا معمول ہے۔پینستیس برس سے خودایمبو لینس چلا رہا ہوں۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ’’ایدھی فاؤنڈیشن‘‘ایک سیدھا سادہ ادارہ ہے۔ کسی نوکر شاہی یا شان وشوکت کے اظہار کا تصور نہیں ہے۔ ایک اکاؤنٹنٹ بیٹھتا ہے‘کوئی چپڑاسی نہیں۔ اس کے اندر ہزاروں لوگ کام کر رہے ہیں مگر سب کام خود کرتے ہیں، بلکہ دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
٭٭جب آپ لاوارث گلی سڑی یا جلی لاشیں اٹھاتے ہیں تو کیا کیفیت ہوتی ہے؟
٭میں ایک لاکھوں لاوارث لاشیں دفنا چکا ہوں۔اب تو یہ معمول بن چکا ہے۔ کئی بار کارکنوں نے کہا کہ انہیں جلی ہوئی گٹروں اور نالوں سے اٹھائی جانے والی لاشوں سے کراہت ہوتی ہے مگر میں مسخ شدہ لاش دیکھ کر یہی سوچتا ہوں کہ یہ میری یا ہم میں سے کسی کی بھی ہو سکتی تھی۔ پھر کراہت کیسی؟
٭٭آپ کے ادارے میں طرح طرح کے لوگ آتے ہیں۔ ان میں پاگل اور ذہنی معذور بھی ہوتے ہیں‘آپ ان کے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں‘ کبھی ایسا ہوا کہ کسی نے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہو؟
٭اس حوالے سے آپ کو میں ایک واقعہ سنا دیتا ہوں۔ نرمل نامی ایک پریشان حال خاتون ایدھی ہوم میں کام کرتی تھی۔ وہ کام چور‘سست اور سازشی تھی۔۱۹۹۲ء کی بات ہے‘عیدالاضحی کی صبح وہ میری بیٹی کبریٰ کے پاس گئی اور اس سے کہا کہ میں تمہارے بچے کو نہلاؤں گی۔ کبریٰ اپنے چار برس کے بیٹے بلال کو نہلا دھلا کر تیار کرنے ہی والی تھی کہ نرمل نے اصرار کیا کہ وہ یہ کام کر دے گی۔ کبریٰ نے اسے اجازت دے دی۔ نرمل بلال کو غسل خانے میں لے گئی اور اندر سے دروازہ بند کرکے کھولتا ہوا پانی معصوم بلال پر انڈیل دیا۔ اس نے آہ وبکاکی مگر نرمل کے ذہن پر شاید خون سوار تھا۔بچہ مدد کے لیے ماں کو پکارتا رہا اور وہ اس پر گرم پانی انڈیلتی رہی جب تک کبریٰ وہاں پہنچتی‘نرمل اپنا کام کر چکی تھی۔ بلال بری طرح جل چکا تھا‘اسے فوراًہسپتال پہنچایا گیا۔ جبکہ نر مل کو فوری طور پر بفرزون کراچی کے سینٹر میں ذہنی علاج کے لیے بھیج دیا گیا۔بلال کئی دنوں تک موت وحیات کی کشمکش میں رہا۔ ۹جولائی کو اطلاع ملی کہ گھوٹکی میں دو ٹرینیں آپس میں ٹکراگئی ہیں جس کے باعث سیکڑوں لوگ ہلاک وزخمی ہو گئے ہیں۔ میں اطلاع ملتے ہی اپنی ٹیم کے ساتھ گھوٹکی کے لیے روانہ ہورہا تھاتاکہ وہاں جاکر امدادی کاموں میں حصہ لے سکوں کہ اطلاع ملی کہ بلال ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جداہوگیاہے۔بلال میری آنکھوں کا تارا تھا‘میرے جگر کا ٹکڑا۔اس کی موت کی اطلاع مجھے ائیر ایمبولینس میں ملی۔ میں نے وہیں اس کے لیے دعا کی اور گھوٹکی کی طرف چل دیا۔پائیلٹ نے واپس مڑنے کا مشورہ دیا مگر میں نے کہا’’اب بہت دیر ہو چکی ہے‘آپ میری اہلیہ کو بتائیں کہ وہ اس کی تدفین کا انتظام کرے اور میرا انتظار نہ کرے۔‘‘
٭٭ایدھی ایمبولینس سروس قومی سطح کی مثالی پبلک سروس ہے جو ملک بھر میں ہمہ وقت خدمت انسانیت کے لیے کام کر رہی ہے۔ کچھ اس کے بارے میں بتائیے؟
٭ایدھی ایمبولینس سروس میں شامل گاڑیوں کی تعدادچودہ سو(اب تقریباً سترہ سو) سے زیادہہے جو کہ ملک کے گوشے گوشے میں کام کر رہی ہیں۔یہ سب گاڑیاں جدید مواصلاتی نظام سے لیس ہیں۔ ہم نے قومی مصائب میں امدادی کارروائیوں کے لیے سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کو اسی سے زائد گاڑیاں عطیہ کی ہیں۔۱۹۸۷ء سے ائیر ایمبولینس سروس بھی کام کر رہی ہے جس میں جہا زاور ہیلی کاپٹر شامل ہیں۔
٭٭ایدھی صاحب! اس وقت ایدھی فاؤنڈیشن کا نیٹ ورک کیا ہے‘بتائیے کہ کون کون سے ادارے اس کے تحت قائم ہیں اور کیا کام کررہے ہیں؟
٭بولٹن مارکیٹ کراچی میں جہاں اس وقت ہم بیٹھے ہیں‘یہ فاؤنڈیشن کا ہیڈکوارٹر ہے۔کراچی‘اسلام آباد‘کوئٹہ‘ملتان‘حیدرآباد‘سکھر‘میرپور خاص اور فیصل آباد میں اس کے زونل دفاتر ہیں۔ ملک بھر میں ساڑھے تین سو ایدھی سنٹر کام کر رہے ہیں۔ اہم شاہراؤں پرتین سو سے زائد ایدھی ہائی وے سنٹر قائم ہیں۔کراچی‘لاہور‘پشاور‘راولپنڈی‘اسلام آباد‘ ملتان وغیرہ میں سو سے زائد ایدھی ایمرجنسی پوسٹیں قائم ہیں۔درجن بھربڑے ہسپتال ‘ ذیابیطس کے مراکز‘ایک کینسر ہسپتال،سوسے زائد فری ڈسپنسریاں اور دو درجن سے زائد ایدھی ہومز خدمت انسانیت میں پیش پیش ہیں۔ کراچی میں نرسوں کی تربیت کے درجن بھر تربیتی مراکز ہیں جن میں سیستر ہزار خواتین سر ٹیفکیٹ حاصل کر چکی ہیں۔درجنوں میٹرنٹی ہومز‘پانچ قبرستان‘دو حیوانات کے ہسپتال‘ متعدد بلڈ بنک اور ادویات کے مراکز کام کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پچاس کے قریب موبائل ڈسپنسریاں بھی کام کر رہی ہیں۔
٭٭بیرون ملک ’’ایدھی فاؤنڈیشن‘‘ کا سیٹ اپ کیا ہے؟
٭دنیا بھر میں جہاں کوئی افتاد پڑی‘کوئی تباہی آئی‘ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکاروہاں پہنچے۔ اس وقت دنیا کے سو سے زائد ممالک میں ہمارا کام جاری ہے۔ باقاعدہ طور پر امریکہ ‘برطانیہ‘ہنگری‘متحدہ عرب امارت‘کینیڈا‘جاپان‘بنگلہ دیش‘ افغانستان‘ بھارت‘سری لنکا‘سوڈان اور روس وغیرہ میں’’ایدھی انٹرنیشنل فاؤنڈیشن‘‘ کی برانچیں فعال انداز سے کام کر رہی ہیں۔
٭٭اگر آپ سے ہم پوچھیں کہ اپنے کام کے آغاز سے اب تک آپ نے جو جو کا م کیے ‘ان کی مختصراً جھلک ہمیں دکھائیں تو کیا کہیں گے؟
٭۱۹۴۹ء سے اب تک تقریباًاڑھائی لاکھ لاوارث لاشوں کو میں نے دفنایا ہے‘تین لاکھ سے زائد ذہنی وجسمانی معذوروں اور لاوارثوں کو ان کے گھروں تک پہنچایا ہے۔اڑھائی لاکھ کے قریب گمشدہ اور گھر سے بھاگے ہوئے بچوں کو ان کے گھروں تک پہنچایا ہے۔ تقریباً اتنی ہی گھروں سے خواہش کے مطابق یا مجبوراً بھاگ نکلنے والی لڑکیوں کو ان کے گھرانوں تک واپس پہنچایا‘چالیس ہزار سے زائد ان نومولود بچوں کو کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں‘گٹروں اور جھاڑیوں میں کتوں اور کیڑے مکوڑوں کی خوراک بننے سے بچایا جو کہ ہسپتالوں کے باہر ایدھی جھولوں کی بدولت زندہ رہے‘بیس لاکھ سے زائد مریضوں اور میتوں کے لیے ایدھی ایمبولینس سروس مہیا کی گئی ۔پچاس لاکھ سے زائد ان زخمیوں اور لاشوں کو خون‘ادویات اور ایمبولینس سروس فراہم کی جو ٹریفک کے حادثات‘سیلابوں‘ زلزلوں یا دیگر آفات سے متاثر ہوئے۔تقریباً پچیس لاکھ افراد کو مفت علاج فراہم کیا گیا۔ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچوں نے ایدھی میٹرنٹی ہومز میں جنم لیا جس سے بے شمار جانیں بچ گئیں۔ سیکڑوں بے گناہ قیدیوں کو قانونی امداد فراہم کرکے جیل کی سلاخوں سے باہر لایا گیا۔تقریباًساٹھ لاکھ کلو گرام گوشت‘چالیس لاکھ کلو گرام آٹا‘چاول‘ گھی اور چینی وغیرہ مختلف قدرتی آفات سے متاثرین میں تقسیم کیے۔ چالیس لاکھ سے زائد کمبل اور بستر متاثرین میں تقسیم کیے ‘ اسی لاکھ سے زائدپرانے ونئے کپڑے ‘سویٹرز، جیکٹس اور ساڑھے ستر لاکھ گزان سلا کپڑا متاثرہ خواتین وحضرات کو دیا گیا۔پچاس لاکھ سے زائدخیمے بھی اس دوران متاثرین میں تقسیم کیے گئے۔
٭٭ایدھی صاحب! یہ تو بہت وسیع کام ہے۔ان کاموں کے لیے وسائل کیسیپورے ہورہے ہیں؟
٭آج زیادہ تر وہ لوگ عطیات دے رہے ہیں جنہیں ایدھی فاؤنڈیشن نے کسی نہ کسی موقعے پر خدمت فراہم کی۔انسانی خدمت بھلائی نہیں جاسکتی۔ ہماری قوم میں اگر کہیں برائی ہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ساری قوم بری ہے۔ ہماری قوم اچھی اور مثالی ہے۔ جو برے ہیں‘وہ برے بنائے گئے ہیں۔ میں آپ کو بتاؤں کہ ڈاکو بھی میرے کام کی وجہ سے میری عزت کرتے ہیں۔ایک بار میں لالو کھیت (کراچی) میں صبح ایک میت دفنانے کے بعد واپس آرہا تھا تو ایک ڈاکو نے مجھے لوٹنے کی کوشش کی مگر جب میں نے اسے بتایا کہ میں کون ہوں تو اس نے معافی مانگی اور چپکے سے چلا گیا۔ایک بار اندرون سندھ سکرنڈ کے علاقے میں ہم لوگ میت پہنچانے گئے تو چار نقاب پوش ڈاکوؤں نے ہمیں گھیر لیا۔ انہوں نے ہم سے پوچھا کہ ہم کون ہیں اور کیوں ادھر آئے ہیں؟ جب میں نے بتایا کہ میں عبدالستار ایدھی ہوں اور یہاں میت چھوڑنے آیا ہوں تو انہوں نے معذرت کی اور خبردار بھی کیا کہ اس خطرناک علاقے میں رات کو سفر نہ کیا کروں۔ایک بار ایسے ہی گروپوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا‘میں بیچ میں آگیا۔ایک نے مجھے بیچ میں سے ہٹ جانے کو کہا مگر میں نے کہا’’تم لوگ جب تک فائرنگ بند نہ کرو گے‘لڑائی ختم نہیں کرو گے تو میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔اتنے میں جو اوپر تھے ان میں سے ایک نے فائر کھول دیا۔ لیکن مخالف گروپ کے ایک آدمی نے یکدم مجھے کھینچ کر ز مین پر گرادیا اور وہ گولی جو مجھے لگنے والی تھی خود کھا کر دم توڑگیا۔
٭٭کبھی ایسا ہوا کہ آپ نے سوچا ہو‘بس بہت ہو گیا‘اب یہ کام نہیں کروں گا؟
٭دوبار میں سخت مایوس ہوا۔ ایک مرتبہ اپنی شادی کے موقعے پر برادری کے رویے سے اور ایک بار یہاں لسانی فسادات میں جب ایدھی فاؤنڈیشن کی گاڑیاں جلائی گئیں……مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس کام کو ترک کرنے یا مؤخر کرنے کا سوچا ہو۔اﷲ تعالیٰ نے سخت اور مشکل حالات میں بھی مجھے خدمت کی توفیق دی۔میں اس پر اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں۔ مجھے بہت سارے ممالک کے سفیروں اور اعلیٰ شخصیات نے اپنے اپنے ملک میں کام کرنے کی پیشکش کی۔بھارت کی طرف سے بھی آفر ہوئی‘گجرال نے کہا کہ ’’یہاں بھارت آجاؤ ہر سہولت ملے گی‘‘مگر میں نے کہا ’’نہیں ‘میں یہاں آیا ہوں‘ وہاں سے‘ تو ادھر ہی کام کروں گا‘میں ون وے ٹریفک ہوں‘جہاں چلا جاتا ہوں‘وہیں کام کرتا ہوں‘‘۔
٭٭ایدھی فاؤنڈیشن کون کون سے شعبوں میں کام کر رہا ہے؟
٭جناب!یہ پوچھیں کہ کون ساکام ہے جو ہم نہیں کر رہے۔انسان کی پیدائش سے موت تک کے جتنے شعبے ہیں‘ان میں ایدھی فاؤنڈیشن کام کر رہا ہے۔ وہ بچے جو ایدھی میں جھولوں میں آئے‘ان میں سے پچیس ہزاربچوں کو میری بیگم بلقیس ایدھی نے لااولاد جوڑوں کودیا۔ اب ان کے آنگن میں خوشبو بھی بکھری ہے اور ان بچوں کی پرورش بھی ہو رہی ہے۔ہمارے ہسپتال‘ڈسپنسریاں‘لیبارٹریز‘ایمبولینسز‘ائیرایمبولینسز چل رہی ہیں۔ پہلے گھروں سے لڑجھگڑ کر یا کسی اور وجہ سے گھر سے نکل جانے والی عورتوں میں سے اکثر تاریک دنیا کی مسافر بن جاتی تھیں مگر جب سے ہم نے ایسی خواتین کے لیے مراکز بنائے ہیں‘ان کی عصمتیں بھی محفوظ رہتی ہیں اور ان کے مسائل بھی حل ہو رہے ہیں۔
٭٭محترمہ بلقیس ایدھی‘فاؤنڈیشن کے کن کن کاموں کی نگرانی کررہی ہیں؟
٭بلقیس ایدھی ستر فیصد کاموں کی نگرانی کر رہی ہیں۔ اب تو میرا بیٹا فیصل اور بیٹی کبریٰ یہاں اس کام میں ہمارے ساتھ ہیں۔ امریکہ میں قطب کام کر رہا ہے۔
٭٭آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر بلقیس ایدھی آپ کے ساتھ نہ ہوتیں تو آپ اکیلے ایدھی فاؤنڈیشن کو یہاں تک لاسکتے تھے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اس کاکام پھیلا ہے؟
٭بلقیس نے نہ صرف میرا ہر قدم پر ساتھ دیا بلکہ ہر طرح کی قربانی دی‘ہر مشکل وقت میں اس نے میرا ساتھ دیا۔میرا حوصلہ بڑھایا۔ایک بار یہ انڈیا گئی ہوئی تھی‘مجھے یہاں کچھ لوگوں نے اس قدر تنگ کیا کہ مجھے جان بچانے کے لیے لندن جانا پڑا۔ اس کو خبر ملی تو بولی’’میں اگر ایدھی کے پاس ہوتی تو کبھی بھی اسے یوں لندن نہ جانے دیتی۔‘‘ہر کڑے اور مشکل وقت میں بلقیس میرے ساتھ ہوتی ہے۔ہر کام میں میرا ہاتھ بٹاتی ہے‘بلقیس نہ ہوتی تو میں کام تو شاید کرجاتا مگر اس کو سنبھالنا مشکل تھا‘لوگ اس کو کھاپی جاتے۔ میں نے بے شمار تنظیموں کو ایسی موت مرتے دیکھا ہے۔ اسی لیے میں نے ایدھی فاؤنڈیشن کے ٹرسٹیز میں اپنے دوبیٹوں اور دو بیٹیوں کو شامل کیا ہے۔ ان کے علاوہ زینت ایدھی ہے جس کی ہم نے پرورش کی ہے۔
٭٭دو تین بارگنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آپ کا نام آچکا ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارد میں "Biggest Volunteer Ambulance Organization"کی حیثیت سے آپ کے کام کا اعتراف کیا گیا ہے‘آپ دن رات انہی کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ اس ضعیف العمری میں اتنے کام سے آپ کی صحت پر اثر نہیں پڑتا؟
٭میں نے خود کو فطرت کے مطابق ڈھال رکھا ہے۔ کام میری عادت بن چکا ہے۔ میں پچیس سال سے شوگر کا مریض ہوں مگر دوا نہیں استعمال کرتا۔ میں نے اپنے جسم کو فطرت کے مطابق ڈھال رکھا ہے۔ اپنے کام کے علاوہ کسی چیزکی عادت نہیں۔
٭٭بے شمار بچے گھروں سے بھاگ کر آپ کے پاس آتے ہیں‘آپ بہتر جانتے ہوں گے کہ وہ گھروں سے کیوں بھاگتے ہیں؟
٭لاکھوں کی تعداد میں بچے اور بچیاں بھاگ کر ہمارے پاس آئے۔ ان کی وجوہات میں گھریلو جھگڑے نمایاں ہوتے ہیں۔ باپ نہیں‘یا ہے تو نشے کا عادت ہے‘سخت گیر ہے یا دوسری شادی کر لی ہے۔ باپ کماتانہیں‘اساتذہ سکولوں میں بے جا سزا دیتے ہیں‘اس کے علاوہ بے شمار معاشرتی ناہمواریاں ہیں جو بچوں کے گھر سے بھاگنے کا سبب بنتی ہیں۔ ہم نے ایسے لاکھوں بچے اور بچیاں والدین کے پاس پہنچائے ہیں۔ اس وقت بھی تقریباً پانچ چھ ہزار بچے ہمارے پاس ایسے ہیں جن کے والدین انہیں لینے کو تیار نہیں۔ اب وہ سب ہمارے پاس پرورش پارہے ہیں۔ہم ان کی آپس میں شادیاں بھی کرادیتے ہیں۔
٭٭آپ نے کچھ مشکلات کا تو تذکرہ کیا‘اس کام میں پیش آنے والی بڑی بڑی مشکلات کیا تھیں اور ان کا سامنا کیسے کیا؟
٭کون سی مشکل ہے جو میری راہ میں نہیں آئی۔ قدم قدم پر مشکلات سے پالا پڑا ہے۔ ہمارا ملک نظام بگاڑ کر کرپٹ لوگ پیداکرنے کی فیکٹری بن گیا ہے۔ غریب پس رہا ہے۔ تعلیم وعلاج عام آدمی کے بس میں نہیں۔ بھلا ہو یونی سیف کا جس نے حفاظتی ٹیکوں کا بندوبست کیا ہے‘ ورنہ ہمارے ہاں تو معذوروں کی فیکٹری تھی۔ ہماری حکومتوں نے یہ کام بھی نہیں کرنے تھے مگر شاید یونی سیف کا دباؤ کام کر گیا۔
٭٭بین الاقوامی سطح پر پہلی بار آپ کو۱۹۸۶ء میں فلپائن کی حکومت نے اعزاز سے نوازا اور خوب تحسین کی۔ کچھ اس بارے میں بتانا پسند کریں گے؟
٭جی ہاں ‘فلپائن کی حکومت نے ملک کے سب سے بڑے اعزاز’’میگا سے سے‘‘ نوازا۔ میں نے بلقیس ایدھی کے ہمراہ منیلا جاکر وہ اعزازوصول کیا۔ ہمیں طلائی تمغوں کے ساتھ منیلا شہر کی چابیاں اور بیس ہزار ڈالرزسے بھی نوازاگیا۔ میں نے اس تقریب میں تقریر بھی کی۔ پھر اگلے روز وزیراعظم کوری اکینونے ہمارے اعزاز میں ضیافت دی۔
٭٭حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کا اعتراف کس انداز سے کیا ہے؟
٭۱۹۸۹ء میں حکومت پاکستان نے مجھے ’’نشان امتیاز‘‘ سے نوازا مگر میں سمجھتا ہوں کہ ایدھی فاؤنڈیشن کی کامیابی ہی میرا انعام ہے۔
٭٭مولانا !آزاد کشمیر میں ایدھی فاؤنڈیشن کے کام کے حوالے سے کچھ بتائیے۔
٭آزاد کشمیر میں آٹھ دسجگہوں پر ہمارے مراکز ہیں جو دِن رات کام کر رہے ہیں۔ ہم کشمیر کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں‘ہم پاکستان کے دوسرے حصوں کی طرح اس حصے میں بھی ایک طویل عرصے سے کام کر رہے ہیں۔جب کشمیر میں آزادی کی تحریک نے ایک نیا رنگ اختیار کیا تو۱۹۹۱ء میں ہزاروں لوگ مظفر آباد سے لائن آف کنٹرول کو توڑنے چلے‘ یہ لوگ لائن آف کنٹرول پر پہنچے۔ ان میں سے کئی ایک نے کنٹرول لائن پارکرنے کی کوشش کی جن پر بھارتی فوج نے گولیاں چلائیں۔ کئی لوگ شہید وزخمی ہوئے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس اور ہیلی کاپٹر زخمیوں کو ایل او سی سے مظفر آباد سی ایم ایچ میں پہنچاتے رہے۔اگست۱۹۹۸ء میں مظفر آباد میں بس کا ایک حادثہ ہوا جس میں تیس افراد جاں بحق اور چالیس سے زیادہ زخمی ہوئے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس نے زخمیوں کو ہسپتال اور مرنے والوں کی لاشیں ان کے دور دراز گھروں تک پہنچانے کا کام کیا۔ستمبر۱۹۹۸ء میں مظفر آباد میں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی جس نے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے ادویات اور ٹیکے متاثرین میں تقسیم کیے۔ پاک بھارت کارگل جنگ کے دوران سکردو میں ہماری تنظیم نے کام کیا۔کنٹرول لائن پر واقعہ علاقوں بالخصوص بھمبر اور نیلم ویلی میں ہماری تنظیم نے مسلسل کام کیا۔(اکتوبر 2005 کے خوفناک زلزلے میں فاؤنڈیشن نے متاثرہ علاقوں میں دن رات کام کیا)۔ اب بھی بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ سے متاثر ہونے والے آزاد کشمیر کے سرحدی علاقوں میں ہماری ایمبولینس سروس کام کر رہی ہے۔کوئی چھوٹا واقعہ ہو یا بڑا سانحہ ہم پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح آزاد کشمیر میں بھی مصروف عمل ہیں۔
٭٭ایدھی صاحب!کشمیرکے بارے میں ہم آپ کے خیالات جاننا چاہتے ہیں‘آپ کا اس مسئلے کے حل کے حوالے سے کیا موقف ہے؟
٭میں سمجھتا ہوں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے سے کشمیری عوام کی مرضی معلوم کی جانی چاہیے کہ وہ کشمیر کے مستقبل کا کیا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان یا پاکستان کو ان کی مرضی میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔یہ میرا ذاتی خیال ہے۔
٭٭اچھا،یہ فرمائیے کہ آزادکشمیر اور پاکستان کے لوگ ایدھی فاؤنڈیشن کے کاموں میں آپ کی کس طرح مدد کرسکتے ہیں یا ساتھ دے سکتے ہیں؟
٭ بچت کی عادت اپنانی چاہیے۔میں سمجھتا ہوں کہ بچوں میں فلاح وبہبود کے کام کرنے کی سوچ کو پروان چڑھانا چاہیے۔ فلاح وبہبود کا کام محض ثواب کی خاطر نہیں بلکہ مشن بنا کر کرنا چاہیے کہ مشن مسلسل ثواب ہے۔
٭٭آپ قوم کے نوجوانوں کو کیا پیغام دیں گے کہ وہ ملک وملت کے لیے سود مند ثابت ہوں؟
٭میرا پیغام یہی ہے کہ وہ سادگی کو اپنائیں‘خود کو مضبوط تر کرنے کا یہ سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ محلے‘پڑوس یا سکول ، کالج میں آپ کے ساتھ کوئی غریب ہے تو اس کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کریں۔ غریبوں کا خیال رکھیں۔ یوں غریبوں کی مدد کرنے کی ان کے اندر سوچ آئے گی تو جذبہ اور بھی بڑھے گا۔ پھرملک کو کل ایک اچھی اور مخلص نسل نصیب ہو گی جو اس کی تعمیر وترقی اور مستقبل کے لیے نہایت مفید ثابت ہوگی۔
Syed Abrar Gardezi
About the Author: Syed Abrar Gardezi Read More Articles by Syed Abrar Gardezi: 5 Articles with 6007 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.