ملک میں سیاسی ماحول گرم……وزیراعظم کو مشکلات کا سامنا
(عابد محمود عزام, Karachi)
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی وطن
وپسی کے بعد ان کو سخت سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان کے بیرون ملک چلے جانے
کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ شاید پانامالیکس کا معاملہ ڈھنڈا پر جائے
گا اور شریف فیملی کی جان آسانی سے چھوٹ جائے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ
ڈیڑھ مہینے سے زیادہ بیرون ملک رہنے کے باوجود سیاسی جماعتیں پاناما لیکس
کے معاملے کو نہیں بھولیں اور تمام سیاسی جماعتیں اسی طرح وزیر اعظم کے
احتساب کا مطالبہ کر رہی ہیں، جس طرح وزیر اعظم کے بیرون ملک روانگی سے قبل
مطالبہ کر رہی تھیں۔ ملک کے سیاسی حالات خطرناک رخ اختیار کرتے دکھائی دیتے
ہیں، کیونکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پہلے ہی پاناما لیکس کی
تحقیقات نہ کروانے کی صورت میں حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کی دھمکی دی چکے
ہیں۔ اب پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں بھی حکومت کے خلاف سڑکوں پرآنے کے
لیے پرعزم نظر آتی ہے۔ پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ اگر حکومت نے ہماری بات
نہیں مانی تو سڑکوں پر نکلنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ حکومت عمران
کے سوا دیگر اپوزیشن جماعتوں کو اپنے موقف سے ہٹانے کے لیے کوشاں ہے، حکومت
پی ٹی آئی کو تنہا کرنا چاہتی ہے اور اگر پی ٹی آئی تنہا رہ جاتی ہے تو
حکومت مخالف تحریک میں وہ دم نہیں رہے گا، جو وزیر اعظم اور حکومت کے لیے
خطرہ بن سکے، لیکن بظاہر حکومت اپنے مقاصد میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی
ہے اور تمام اپوزیشن جماعتیں پانامالیکس کے معاملے پر حکومت کے خلاف صف آرا
ہیں۔ حکومت مخالف تحریک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نوازشریف حکومت میں رہنے
کا جواز کھو چکے ہیں، وہ اپنی مرضی کے ٹی او آرز کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور
لگا رہے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ متفقہ ٹی او آرز لاکر قوم کو شریف فیملی
کی لوٹ مار سے آگاہ کیا جائے۔
اپوزیشن پاناما لیکس پر نئی حکمت عملی کے لیے کمر بستہ ہو گئی۔ الیکشن
کمیشن کے ارکان اور پاناما لیکس کے معاملے پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور
اعتزاز احسن نے تحریک انصا ف کے رہنما شاہ محمود قریشی سے پارلیمنٹ ہاؤس
میں ملاقات کی۔ دیگر رہنماوں سے بھی رابطہ کیا اور آئندہ اجلاس طلب کیا ہے
جس میں تمام جماعتیں متفقہ حکمت عملی طے کریں گی۔ خورشید شاہ نے وزیراعظم
کو مشورہ دیا کہ وہ ٹی او آرز پر ڈیڈلاک ختم کرنے کے لیے مداخلت کریں اور
حکومت مذاکرات میں پہل کرے۔ خورشید شاہ نے مسلم لیگ قائد اعظم کے صدر
چودھری شجاعت حسین سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ خورشید شاہ نے چودھری
شجاعت حسین کو جوائنٹ اپوزیشن کے اجلاس میں بھی شرکت کی دعوت دی۔ چودھری
شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ ایسے فراد کو الیکشن کمیشن میں لایا جائے جو
انتخابی عمل شفاف بنا سکیں۔ ٹی او آرز کا معاملہ حکومتی ہٹ دھرمی معاملے کو
نقصان پہنچا سکتی ہے۔ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ وہ تمام اپوزیشن جماعتوں
کی مشاورت سے الیکشن کمیشن کے ارکان کے لیے حکومت کو نام تجویز کریں گے۔
اپوزیشن رہنماؤں کی ملاقاتوں میں ٹی او آرز کے معاملے میں اپنے موقف پر
قائم رہنے اور حکومت کے ساتھ کوئی بھی رعایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ طے پایا ہے کہ اپوزیشن حکومت کے احتساب کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے گی،
اگر حکومت نے یہ مطالبہ نہ مانا تو تحریک شروع کی جائے گی۔ رہنماؤں نے یہ
طے کیا ہے کہ متفقہ طور پر جدوجہد کو جاری رکھا جائے گا اور اس کوشش کو
منتشر کرنے کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
اپوزیشن کی ہر جماعت اپنی اپنی سطح پر اور متفقہ طور پر حکومت کے خلاف
لائحہ عمل طے کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے حکومت مخالف تحریک کے لیے حکمت عملی
کا آغاز کردیا ہے۔ پہلے مرحلے میں تمام ڈویژنل مقامات پر ورکرز کنونشن
کروائے جائیں گے، تمام ابتدائی حربوں کے بعد آخر میں حکومت کے خلاف فائنل
راؤنڈ کھیلا جائے گا۔ تحریک انصاف نے حکومت مخالف تحریک کو کامیاب بنانے کے
لیے اپوزیشن جماعتوں سے غیراعلانیہ رابطے شروع کردیے ہیں، جس کے نتیجے میں
اپوزیشن کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماؤں کو مثبت تعاون کی یقین دہانی کروائی
جارہی ہے۔تحریک انصاف نے الیکشن 2018ء سے پہلے وزیر اعظم نوازشریف کے
احتساب اور کرپشن کے خاتمے کو ضروری قرار دیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما
سمجھتے ہیں کہ ٹی او آر پر اتفاق نہ ہونے اور جوڈیشل کمیشن نہ بننے کی صورت
میں تحریک انصاف احتجاجی تحریک سے حکومت پر جو دباؤ ڈالے گی، اس کے نتیجے
میں وزیر اعظم نواز شریف کو گھر جانا پڑے گا۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل
جہانگیر ترین نے اعتراف کیا کہ تحریک انصاف کی ترجیحات میں نواز شریف کو ان
کے عہدے سے ہٹانا، ان کا احتساب کرنا اور ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ کرنا
شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا جوڈیشل کمیشن نہ بننے کی صورت میں تحریک انصاف
عوام کو جگانے کے لیے گلی کو چے میں جائے گی اور محنت کر کے عوام کو حکومت
اور حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر لائے گی۔ پی پی بھی حکومت کے خلاف سڑکوں پر
آنے کے لیے پرعزم ہے۔ بلاول زرداری اس حوالے سے اجلاس بلا چکے ہیں۔ جماعت
اسلامی نے بھی ملک میں حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی تحریک شروع کرنے کے
لیے اپنی حکمت عملی مکمل کر لی ہے اور اس حوالے سے ملک کی بڑی اپوزیشن
جماعتوں کے قائدین سے رابطے کر کے انہیں اپنے ساتھ چلنے کی پیشکش کی ہے۔
جماعت اسلامی تحریک شروع کرنے سے پہلے راولپنڈی میں ریہل سل کرے گی اور اس
سلسلے میں جماعت اسلامی پاکستان میں اپنی ملک گیر جاری کرپشن مہم کو موثر
اور وسیع تر بنانے کے لیے دینی و سیاسی جماعتوں سے رابطے تیز کر رہی ہے۔
جماعت اسلامی نے اعلیٰ عہدیداروں کو ذمہ داریاں سونپتے ہوئے اہم ہدایات دی
ہیں، جس پر عمل درآمد کے لیے حکمت عملی مرتب کر کے لائحہ عمل کو آخر شکل
دینا شروع کردیا گیا ہے۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی حکومت مخالف تحریک
کو کامیاب بنانے کے لیے سرگرم ہیں، سراج الحق کہتے ہیں کہ حکمرانوں کو ایک
نئے این آر او کا موقع نہیں ملے گا، نہ صرف موجودہ بلکہ سابقہ حکومتوں کا
آڈٹ بھی ضرور ی ہے، سابق ادوار کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ حکمران احتساب کا
آغاز اپنی ذات سے کریں تو کسی کو احتساب سے بھاگنے کی جرات نہیں ہوگی،
حکمرانوں نے قومی خزانہ باہر منتقل کرکے اور باہر سے قرضے لے کر ہماری آنے
والی نسلوں کو مقروض کیا۔ سراج الحق نے کہا کہ پانامہ لیکس کے بعد کچھ لوگ
ایک نئے این آر او کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، لیکن اب کسی کو اس کا موقع
نہیں ملے گا۔ لٹیروں کو قومی خزانے سے لوٹی گئی ایک ایک پائی کا حساب دینا
پڑے گا۔ احتساب کا نعرہ اب کسی ایک جماعت کا نہیں رہا بلکہ قومی نعرہ بن
چکا ہے اور اب حکمرانوں کو چاہتے یا ناچاہتے ہوئے بھی احتساب کے کٹہرے میں
کھڑا ہونا پڑے گا۔ مسلم لیگ قائد اعظم اور عوامی مسلم لیگ کی قیادت نے بھی
سر جوڑ لیے ہیں۔ چودھری پرویز الہیٰ اور شیخ رشید کے درمیان احتجاجی تحریک
کے حوالے سے فون پر مشاورت ہوئی۔ جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر
طاہر القادری اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے حکومت کے خلاف
پاناما لیکس، کرپشن، لوٹ مار کے خلاف مشترکہ جدوجہد شروع کرنے پراتفاق کیا
ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے حکمرانوں کے خلاف
مشترکہ اور متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے اتوار31 جولائی کو پاکستان
عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ لاہور میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی
قومی مجلس مشاورت بلانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا ہم سولو فلائٹ کی بجائے
دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر لائحہ عمل طے کریں گے۔ موجودہ حکمرانوں سے قوم
کو نجات دلانے کے لیے ان کے خلاف ملکی سالمیت کے خلاف سازش اور غداری کرنے
پر آرٹیکل6 کے تحت کارروائی کی جائے۔ پاناما لیکس تو محض ایک دانہ ہے، دیگر
ممالک میں بھی آف شور کمپنیاں ہیں۔ پاناما لیکس کے ٹی او آرز کے مسئلے پر
حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں شروع ہونے والی کشیدگی اگلے چند روز میں
عروج پر پہنچ جائے گی، فریقین نے ایک دوسرے کی طاقت کو آزمانے کے لیے متعدد
اجلاس کر ڈالے ہیں، مگر وزیر اعظم کی بیرون ملک روانگی اور سوا ماہ کی
تاخیر سے وطن واپسی کے باعث یہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے۔ پی ٹی آئی نے 20
جولائی سے حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے، جس سے ظاہر
ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی وزیر اعظم نوازشریف کی وطن واپسی کے بعد حکومت کو
اتمام حجت کا موقع فراہم کرنا چاہتی ہے۔
دوسری جانب معاملات ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر وزیراعظم نوازشریف نے وفاقی وزرا
کو پاناما لیکس کا معاملہ مفاہمت سے سلجھانے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم
نوازشریف کی زیر صدارت مشاورتی اجلاس میں وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ
پاناما لیکس کے معاملے کو مفاہمت سے سلجھانے کی کوشش کی جائے جب کہ اسحاق
ڈار خورشید شاہ سے رابطوں کو نتیجہ خیز بنائیں۔ وزیر اعظم نے کہا چاہتے ہیں
کہ ملکی ترقی اور خوشحالی کے لیے اپوزیشن ہمارا ساتھ دے۔ ذرایع کا کہنا ہے
کہ وزریر اعظم اس حوالے سے اپنے قریبی اور بااعتماد رفقا سے صلاح مشورے کے
بعد ٹی او آرز پر اپوزیشن کو کوئی سرپرائز دے سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں اس
کی حکومت مخالف تحریک سے ہوا نکل سکتی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کا کہنا
ہے کہ ہم پیپلزپارٹی، عوامی تحریک، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ سمیت
دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ٹی او آرز کی حد تک حکومت مخالف اتحاد چاہتے
ہیں، تاہم اگر کوئی بھی جماعت اس کے ساتھ اس تحریک کو انجام تک پہنچانے کی
دوڑ میں آخری حد تک نہیں جاتی تو پی ٹی آئی پھر بھی میدان میں موجود رہے گی
اور پانامالیکس کے مسئلے کو انجام تک پہنچا کر دم لے گی، چاہے اس اکیلے ہی
میدان میں اترنا پڑے۔ |
|