اے پیکرِانسانیت تیری عظمت کو سلام․․․

 یوں تو دنیا میں بے شمار سماجی و فلاحی بہبود سے منسلک شخصیات موجود ہیں (یا گزر چکی ہیں) مگر ان میں سے ذیادہ تر کا تعلق کسی خاص مذہب ,ملک یا مقام یا پھر کسی خاص کمیونٹی تک محدود رہا ہے اسی طرح اگر دیکھا جائے تو دینِ اسلام کی رو سے تمام انسان برابر ہیں اور رنگ و نسل ,زبان, قبیلہ یا علاقائیت کی بنیاد پر کسی کو کسی پر کوئی فضیلت یا برتری حاصل نہیں ہے اور ایسے میں فلاحی خدمات میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سبز جھنڈے پر رنگ و نسل,مذہب اور ہر چیز سے بالاتر ایدھی صاحب کا نام ستارے کی طرح جگمگاتا ہوا نظر آتا ہے جو کے کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔

گجراتی زبان میں ایدھی کا مطلب سست اور کاہل کے ہیں مگر انہوں نے سخت محنت اور لگن سے اس نام کا مفہوم ہی بدل ڈالاانہیں دنیا بھر میں اہم مقام حاصل ہے ـ۔فروری ۱۹۲۸ کو بانٹوا قصبے میں عبدالشکور نامی تاجر کے گھر پیدا ہونے والے بچے نے خدمت ِانسانیت کی پاکستان میں وہ داغ بیل ڈال دی کے آ ئندہ نسلیں بھی اس کی گواہی دیں گی۔کیونکہ بقول ایدھی ’’اگر یہ نا کرتا تو کوئی اور کام نہ کرتاـ‘‘ ربڑ کی چپل ,کالا کرتا اور کالی ٹوپی میں آخری وقت تک صرف یہ پیغام دیتا رہا کے انسان بنو اور انسان بناؤ۔ ایدھی صاحب بچپن میں کھلنڈرے مزاج کے حامل ہونے کے باوجود والدہ کے حکم پر ڈھونڈ ڈھونڈ کر غریبوں کی مدد کیا کرتے اور دو پائے (جواس زمانے میں رائج تھے) میں سے ایک غریب کے اوپر خرچ کرتے تھے اورجس دن ایسا نہ کرتے والدہ خائف رہتیں( بھلا ایسی مائیں اب کہاں ملتی ہیں جو بچپن ہی سے اپنی اولاد میں خدمتِ خلق کا جذبہ پروان چڑھائیں) جس وقت ایدھی صاحب پاکستان میں انسانیت کی خدمت کا بیڑا اپنی پہلی چھوٹی سی ڈسپنسری کی صورت میں اُٹھایا اور یہ تمام مذاہب ,فرقوں سے بالاتر تھا تب جہاں بہت سے بے کسوں کے لیے یہ کارگر ثابت ہوا وہیں ان کی مخالفت کرنے والے بھی کئی اہم نام تھے جو تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہوگئے کیونکہ ایدھی صاحب کی نیت مخلوقِ خدا کی خدمت تھی۔میکسم گورکی,کارل مارکس ایدھی صاحب کے ہیرو تھے ۔ ابتداء میں ایک ایمبولینس کے ساتھ کام شروع کرنے والا ایدھی آج ۱۸۰۰ ایمبولینس کے ساتھ دنیا میں سب سے بڑی سروس ہے جس کا اندراج گینز بک آف ورلڈ میں ہے۔

ایدھی صاحب کی بیوی جو ابتداء میں نرسنگ کے پیشے سے منسلک ہوئیں جب ایدھی صاحب نے نرسنگ کی شروعات کی تھی بعد میں ایدھی صاحب کی بیگم کی صورت میں ان کے شانہ بشانہ متحرک نظر آئیں خود ایدھی صاحب کہتے تھے’’میری بیوی بہت اچھی ہے اور مجھ سے ذیادہ کام کرتی ہے بلقیس نہ ہوتی تو فاؤنڈیشن بننے میں بھی مشکلات ہوتیں‘‘ان کی سادگی کو ان کی اولاد نے ان سے سیکھااپنی مصروفیات کی وجہ سے بچوں کو ذیادہ وقت نہیں دیاان کے بچوں کا کہنا ہے کے ان کے والدِمحترم بچپن میں ان کی بعض خواہشات اس لیے پوری نہیں کیں کیونکہ جس علاقے میں وہ رہتے تھے وہاں متوسط طبقے کے لوگ زندگی گزار رہے ہیں اور ایدھی صاحب کے نزدیک یہ سراسر ذیادتی ہے ان لوگوں کے ساتھ جوان کے ہمسائے ہیں اور اپنے پاس اتنے وسائل نہیں رکھتے (غورکیجئے بھلا آج کل ایسا کون سوچتا ہے)ان کی خواہش تھی کے پاکستان میں سے غریبی کا خاتمہ کرسکیں مگر یہ ناممکن تھا۔

اگر کبھی ہنگامی صورتحال پورے ملک ہوتیں تووہ پیش پیش رہتے یہی نہیں انہوں نے مختلف ممالک میں ہونے والی آفات اور جنگوں میں غیر معمولی حصہ لے کر بین الاقوامی طور پر بھی متعارف کروایا(کے پاکستان صرف امداد لیتا ہی دے بھی سکتاہے)ان کی انھیں خدمات کے پیشِ نظر شہریت دینے کی بھی پیشکش کی پڑوسی ملک کے وزراء نے بھی پیشکش کے ساتھ باور بھی کروایا کے آپ کی پیدائش یہیں کی ہے یہاں تشریف لے آئیں مگر ایدھی صاحب نے کبھی اپنی شہریت بیچنے کی کوشش نہیں کی۔ امریکہ,برطانیہ, متحدہ عرب امارات سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ایدھی صاحب کے فلاحی ادارے ہیں۔اس کے علاوہ ایدھی جھولے کا تصور بھی انہوں نے دیا یعنی قتل نہ کرو جھولے میں ڈال دو۔

پاکستان میں بھی ایدھی فاؤنڈیشن کے مراکز ملک کے کونے کونے میں موجود ہیں ان کی بڑی بیٹی کبری ۱۹ یتیم خانوں کی دیکھ بھال کررہی ہیں اور سب سے بڑے بیٹے نیویارک اور کینڈا کے منتظم ہیں اور ایک بیٹے پاکستان میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ایسے میں ان کے بچوں کو بھی کئی مشکلات پیش آئیں مگر ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے ساتھ ہی یہ خاندان کبھی کبھی ذاتی خوشیاں بھی ایدھی فاؤنڈیشن کے ساتھ مناتا ہے۔

ایدھی صاحب بیماری میں بھی فلاحی اداروں کا دورہ کرتے تھے بقول ان کے کسی کے کام آجائیں اس سے بڑا مذہب کوئی نہیں۔۱۹۹۶ میں ان کی سوانح بھی منظرِعام پر آچکی ہے۔ ایک بار اندرونِ سندھ امداد کی غرض سے جا رہے تھے ڈاکوؤں نے پہچان کرکہاـ’’آپ خدائی فقیر ہیں ‘‘ اس لیے جائیں۔

غریبوں کی مدد کرنے والا, انسان دوست,پاکستان کا غرور, تکبر سے پاک ,بے غرض پاکستانی ۸ جولائی کوشاندار فوجی اعزاز کے ساتھ قومی پرچم میں لپٹا اپنے خالق ِحقیقی سے جاملااوریوں ایک دور تمام ہوامگر جاتے جاتے بھی اپنی آنکھیں عطیہ کر گیا تا کہ آئندہ نسلیں بھی رنگ و نسل ,مذہب, فرقہ واریت اور ہر چیز سے بالاتر ہو کے انسانیت کی خدمت میں ان کے نقشے قدم پر چل کے اس دنیا کو امن و محبت کا گہوارہ بنائیں۔
Sania Malik
About the Author: Sania Malik Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.