ایدھی ویلفئیر ایوارڈ

ایوارڈ کے بارے گفتگو بعد میں کریں گے۔پہلے اسی موضوع سے متعلقہ کچھ اور باتیں۔عبدالستار ایدھی مرحوم کو پاکستانی قوم نے سب سے اونچے درجے کا پروٹوکول دے کر انکی60سالہ بے لوث خدمات کو تسلیم کرلیا ہے۔اور ساتھ ہی ہم نے پوری دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان میں فلاحی اوررفاہی خدمات سرانجام دینے والوں کو قوم عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ایک تا تین دن کا سوگ،جنازہ میں پوری سیاسی اور عسکری قیادت کی شرکت،تابوت پر قومی پرچم کا سایہ،باڈی کو گن کیریج پر لانا اور لے جانا،اور پھر قبر پر فوجی جوانوں کا سلیوٹ،یہ تمام کام ایدھی کو واجب الاحترام قومی شخصیت بنا گئے۔اگر دیکھا جائے تو قائد اعظم کے بعد یہ اعزاز صرف اور صرف عبدالستار ایدھی کو ہی حاصل ہوا۔اب سوچنا یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہو۔ایدھی فاونڈیشن کے تحت ہونے والے تمام کام توہوتے رہیں گے۔ان کا ایک نظام بنا ہوا ہے۔فیصل ایدھی اور مر حوم کی بیوی بلقیس ایدھی کاموں کی نگرانی کرتے رہیں گے۔دوسرے بہت سے لوگوں کو ملکر اب اس ادارے کو ایک جدید طرز کے منظم ادارے کی شکل دے دینی چاہیئے۔اب تک ادارہ ایدھی کی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے چلتارہا ہے۔لوگ ان پر بغیر سوچے سمجھے اعتماد کرتے تھے اور فنڈز کی کمی نہیں آنے دیتے تھے۔اب ضروری ہے کہ اس ادارے کے تفصیلیRulesبنائے جائیں۔ادارے کو مزید پھیلانے کے بارے سوچا جائے۔جہاں اس کی شاخیں نہیں ہیں۔وہاں بھی پہنچا جائے۔کئی اور شعبے بھی اس ادارے کے دائرہ کار میں لائے جائیں۔ایک انتہائی ضروری کام تو تھر کے حالات میں بہتری بھی ہے۔لوگوں کو سستے داموں مکانات کی فراہمی،پانی اور خوراک مہیا کرنا جیسے کام ایدھی فاؤنڈیشن کے دائرہ کار میں لائے جائیں۔حکومتیں،ادارے اور عوام پہلے سے بھی بڑھ چڑھ کر ایدھی فاؤنڈیشن کی امدادی کاروائیوں میں معاونت کریں۔تاکہ ایدھی فاؤنڈیشن کاکام پھیل سکے۔اور دنیا بھر میں اسکی شاخیں قائم ہوں۔موجودہ حکومت کو ایک کام ضرور کرنا چاہیئے۔ایدھی کا نام نوبل امن پرائز کے لئے بجھوایاجائے۔کچھ اہل اور ماہر لوگوں کو یہ کیس تیار کرنا چاہیئے۔اسکی60سالہ بے لوث خدمات کو ترتیب سے جمع کرنا اور خوبصورت انداز پیش کرنا۔پاکستان اور باہر کے Credibleلوگوں کی سفارشات کے بعد یہ کیس نوبل کمیٹی کو بھجوایا جائے۔اور ہمیں قومی امید ہے کہ نوبل امن کمیٹی ایدھی کو ضرورNominateکردے گی۔ایدھی کو امن انعام دے کرنوبل امن انعام دینے والوں کے قد کاٹھ میں مزید اضافہ ہوگا۔ایدھی کو نوبل انعام ملنے کی اس لئے بھی قوی امید ہے کہ ان کا تمام کام"فلاح انسانیت"کے لئے تھا۔وہ مذہبوں کے تعصبات سے بالکل پاک تھے۔وہ لاشوں ،یتیموں اور بیواؤں کو سنبھالتے وقت مذہب کی عینک سے بالکل نہ دیکھتے تھے۔اب حکومت کے ذمہ ہے کہ وہ یہ کام جلد از جلد کرے۔19-01-2015تک23۔تنظیموں کو نوبل امن انعام مل چکا ہے۔جس میں UNCHR,Red Cross,Org of Prohibition of chemical weapons.جیسے ادارے شامل ہیں۔یہ تمام فلاحی ادارے تھے۔بگڑتے ماحول پر قابو پانے والے ادارے کو ایک دفعہ یہ انعام مل چکا ہے۔2006ء میں غریبوں کو قرض دینے والے Grameanبنک کو بھی اس انعام سے نوازا جا چکا ہے۔ان تمام اداروں کے کام کودیکھتے ہوئے جب ہم ایدھی فاؤنڈیشن کے کام کودیکھتے ہیں تو ہمیں امن کے نوبل انعام ملنے کے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔حکومت پاکستان کو یہ کام فوری طورپر شروع کرنا چاہیئے۔آخر میں میں یہ تجویز پاکستانی قوم اور حکومت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ ہمیں خود بھی ایدھی کے نام پر ایک بڑا بین الاقوامی انعام شروع کرنا چاہیئے۔ایدھی کی اس صفت سے پوری دنیا متعارف ہے کہ وہ فلاحی کام کرتے وقت مذہب کو راستے میں نہیں آنے دیتے تھے۔ایدھی کے نام پر سالانہ فلاحی انعام دیا جائے۔اس کے لئے Credibleلوگوں پر مشتمل ٹرسٹ بنایا جائے۔اس ٹرسٹ کو پاکستان کے امیر و غریب لوگ فنڈز دیں۔تاکہ ٹرسٹ مستقل اثاثے خرید سکے۔ان اثاثوں سے اتنی سالانہ آمدنی حاصل ہو کہ اس سے ایک بڑے بین الاقوامی ایوارڈ کی رقم حاصل کی جاسکے۔پاکستانی خاندان ٹرسٹ کے لئے جائدادیں وقف کردیں اور بعد میں کسی قسم کی مداخلت نہ کریں۔نیکی کر اور کنویں میں ڈال والی بات ہوجائے۔جائیدادوں کا انتظام و انصرام ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ،با اعتبار اور ایمان دارلوگوں کے پاس ہو۔ٹرسٹ کے اصول و قوانین بھی تفصیل سے بنائے جائیں۔ادارے کا رجسٹرڈ ہونا تو بنیادی شرط ہوگی۔اس کے بعد ایوارڈ دینے کے لئے ایک کمیٹی علیحدہ سے بنائی جائے۔اس میں فلاحی کام کرنے والے قومی اور بین الاقومی سطح کے لوگ شامل ہوں۔یہ کمیٹی تمام دنیا کے فلاحی،رفاہی کام کرنے والے اداروں کے کاموں کی تفصیلات اکٹھی کرے۔سالانہ جائزہ لے۔یہ جائزہ مذہب سے بلند ہوکرلیا جائے۔ایدھی نے بھی اپنی60سالہ بے لوث زندگی سے یہی پیغام دیا ہے۔ایدھی نے فلاح کا کام"انسانیت"کے نام پر کیا ہے۔لہذا انعام کے لئے نامزد کرنے والی کمیٹی بھی جائزہ لیتے وقت مذہب سے بلند ہوکر جائزہ لے۔فلاحی کام چاہے کسی مغربی ملک میں ہو یا مشرقی ملک میں۔پاکستان میں ہو یا پاکستان سے باہر ایوارڈ کا اعلان صرف اور صرف گزشتہ سالوں کی کارکردگی کو دیکھ کر کیاجائے۔اس ایوارڈ کے نام سے پاکستانی قوم کا نام اور وقار بلند ہوگا۔ہم دیکھتے ہیں کہ سکنڈے نیوین ممالک کے ایک شخص نوبل نے116 سال پہلے ایک انعام کا اعلان کیا اسے صرف اور صرفMeritپر دینے کا اعلان کیا اور اب یہ دنیا میں سب سے اہم اور باوقار ایوارڈ سمجھا جاتا ہے۔ایدھی ایوارڈ کو بعد میں ویلفئیر کے علاوہ دوسری سائنسی اور تعلیمی ریسرچ تک پھیلایا جاسکتا ہے۔یہ Credibleتب ہوگا جب ہم نامزدگی میں کام کے معیار کو بنیاد بنائیں گے۔حکومت اس کام کے لئے پہلے آگے آئے اور قابل اعتبار لوگوں کے نام ٹرسٹ اور نامزدگی کمیٹی میں ڈالے۔ہمارے پاس ایدھی کے نام سے پاکستان کے وقار کو بلند کرنے کا ایک سنہری موقع ہے۔اسے ضائع نہ کریں۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49831 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.