پاکستان پارلیمنٹ میں کشمیر پر بحث کی ضرورت

مزید بھارتی فوجی کشمیر کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔کشمیر میں بھارتی جارحیت بڑھ چکی ہے۔اسی کی آڑ میں بھارت یہاں مزید فوج داخل کر رہا ہے۔ کشمیر میں بھارت کی لاتعداد فوجی چھاؤنیاں ہیں۔ اہم علاقوں میں بھارتی فوج قابض ہے۔ لاکھوں کنال زرعی اور زرخیز اراضی پر فورسز کا تسلط قائم ہے۔ اس وقت بظاہر جموں و کشمیر میں بھارت کی تین کور ریگولر فوج موجود ہے۔ پہلے ایک کور وادی اور دوسری جموں میں تھی۔ کرگل جنگ کے بعد ایک کور لداخ میں تعینات کر دی گئی۔ علاوہ ازیں راشٹریہ رائفلز(آر آر)کی ایک کور سے زیادہ فورسز بھی کشمیرمیں موجود ہیں۔ سی آر پی ایف، بی ایس ایف، ایس ایس بی، آئی آر پی، انڈسٹریل فورس، انڈو تبیتن بارڈر پولیس، آسام رائفلز جیسی فورسز بھی موجود ہیں۔ ان میں زیادہ تر ریگولر فوجی ہیں ۔ مگر انہیں نیم فوجی کے طور پر ظاہر کیا جا تا ہے۔ یہ تمام بھارتی فورسز کشمیریوں کی نسل کشی اور قتل عام میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب یہ سبھی ہندو انتہا پسندوں او جنونی دہشت گردوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں کوئی پروفیشنلزم نہیں۔ یہ صرف کشمیریوں کو قتل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بستیوں کے کریک ڈاؤن، محاصرے، چھاپے، گرفتاریاں، شدید تشدد ، کشمیریوں کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک روا رکھنا ان کی اہلیت ہے۔ ان کا ایک سپاہی جنرل جیسے اختیارات رکھتا ہے۔

بھارتی فوج کو کشمیر میں داخل کرنے سے آج تک لاکھوں کشمیری اس نے ماورائے عدالت قتل کئے۔ یہ قاتل فوج ہے۔ جب مرضی ہو راستے چلتے کشمیری سے اس کی شناخت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ ان کا شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں۔ مگر آج کشمیری نوجوان ان سے سوال کرتا ہے۔

’’ہم یہاں کے ہی باسی ہیں۔ آپ کہا ں سے آ گئے۔ آپ ہم سے ہمارے ہی گھر میں ہماری شناخت کیسے طلب کرتے ہیں۔‘‘مگر بھارت نے کشمیر کو اپنی کالونی لیاہے۔ وہ اسے اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔ جب کہ وہ قابض ہے۔ اس نے بندوق کی نوک پر کشمیریوں کو قید کر رکھا ہے۔ مگر برہان وانی جیسے نوجوان بھارت کی غلامی سے آزادی چاہتے ہیں۔ آج پورا کشمیر برہان وانی بن چکا ہے۔ مبصرین تسلیم کرتے ہیں شہیدبرہان بھارت کے لئے غازی برہان سے زیادہ خطرناک بن چکا ہے۔ نوجوان اس کے مشن پر چل رہے ہیں۔ کشمیر کی نئی نسل دلیر اور بہادر ہے۔ اس کی شجاعت کے قصے عام ہیں۔ عوام اس نسل پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ وہ نئی نسل کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ آج کشمیر کے حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ جنگی صورتحال ہے۔ بھارت کی فوج نے کشمیری کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ وہ کشمیریوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ وہ پیلٹ گن اور پیپر گیسیں ، مہلک اسلحہ کا استعمال کر رہی ہے۔ گزشتہ تین چار روز میں تین درجن سے زیادہ نوجوان بے دردی سے شہید کئے جا چکے ہیں۔ ہزاروں زخمی ہیں۔ ہزاروں کو گرفتار کر کے لا پتہ کیا جا چکا ہے۔ ان پر فورسز کیمپوں میں تشدد ہو رہا ہے۔ برہان کی شہادت کے بعد لاکھوں لوگ مظاہروں میں شامل ہوئے ہیں۔ بھارتی فوجی مظاہرین پر نشانہ باندھ کر فائرنگ کر رہے ہیں۔ زہریلی گیسیں اسعمال کی جا رہی ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ایک سو سے زیادہ نوجوان، خواتین اور بچے بھارتی فوج کی فائرنگ کی زد میں آکر آنکھوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ ان کی دنیا تاریک ہو چکی ہے۔ پیلیٹ گن کی وجہ سے اب تک کئی کشمیری شہید ہوئے ہیں۔ لا تعداد بینائی سے محروم ہیں۔ اس وقت وادی میں ادویات اور اشیائے ضروریہ کی شدید قلت ہے۔ جموں سے سرینگر کا فاصلہ تقریباً تین سو کلو میٹر ہے۔ بھارتی جن سنگھی جموں کی ہندو آبادی کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی جموں سے وادی کی اقتصادی ناکہ بندی کی گئی۔ وادی آنے والے مال بردار ٹرکوں اور ٹرالروں کو یا تو لوٹ لیا گیا یا انہیں آگ لگا دی گئی۔ جب کہ مسلم اور سکھ ڈرائیوروں کو تشدد کا شکار بنایا گیا۔ آج ایک بار پھر یہی فضا بن رہی ہے۔ کل جموں اور سرینگر کے درمیان ایک ہندو اکثریت والی پاڑی پتنی ٹاپ میں جموں سے وادی آنے والی کئی مسافر گاڑیوں کو روک کر ان کی توڑ پھوڑ کی گئی اور مسافروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس طرح کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔

وادی کے عوام پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کیوں کہ اقوام متحدہ، امریکہ سمیت دنیا بھارت کی جارحیت پر خاموش ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اجلاس طلب کرنیکی درخواست دے سکتا ہے۔ او آئی سی سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ مگر پہلے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بحث کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں قوم حتمی فیصلہ کرے کہ اس نے کشمیر کے ساتھ علامتی یک جہتی کا مظاہرہ کرنا ہے یا پھر اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے۔ کشمیر کی آزادی کے لئے اور بھارتی مظالم کی بندش کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کے فیصلے پر دنیا سنجیدگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ زبانی جمع خرچ سے آج تک کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ پارلیمنٹ ہی ایک معتبر قانون ساز ادارے ہے۔ پارلیمنٹ میں متفقہ قرارداد کے تحت جموں و کشمیر میں رائے شماری تک اسے اپنا حصہ قرار دیا گیا تو کشمیر میں پاکستان کی سیاسی یا فوجی مداخلت کو جواز حاسل ہو گا۔ پاکستان کا کشمیر پر کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ وہ کشمیر کو متنازعہ نہیں سمجھتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے کشمیر پر اپنی فوجی جارحیت اور زبردستی قبضے کو جائز قرار دیا ہے۔ اس طرح دنیا گمراہ وہ جاتی ہے۔ پاکستان کشمیر کو متنازعہ عالمی مسلہ قرار دیتا ہے۔ کرگل جنگ کے دوران پاکستان نے کرگل کی بٹالک، ٹائیگر ہلز سمیت کئی چوٹیوں پر قبضہ کیا۔ بھارتی فوج کو پسپا کیا گیا۔ لیکن پاکستان کے پاس اس قبضہ کو برقرار رکھنے کا کوئی قانونی یا آئینی جواز نہ تھا۔ کیوں کہ اس کا کشمیر پر دعویٰ نہیں ہے۔

آج آزاد کشمیر میں انتخابات کی مہم تیزی سے جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں قتل عام کا یہاں معقول اثر نظر نہیں آتا۔ سیاستدان سنجیدہ نہیں۔ وہ روایتی انداز اپنا ئے ہوئے ہیں۔ وہ صرف ووٹ بینک کی سیاست کرتے ہیں۔ ان کی ساری توجہ اپنے حلقہ انتخاب پر ہے۔ وادی اور جموں کے مہاجرین کی نشستیں بھی اسی تناظر میں جیتی جاتی ہیں۔ انہیں کم اندازہ ہے کہ کشمیر کی صورتحال دھماکہ خیز ہے۔ وقت پر درست فیصلے نہ کئے گئے تو خمیازہ سب کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اگر آزاد کشمیر کے انتخابات میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کی مناسبت سے ہی مہم کا رخ متعین کیا جائے تو بہتر ہو گا۔

وزیراعظم میاں نواز شریف نے کشمیر میں بھارتی جارحیت کا نوٹس لیا۔ دفتر خارجہ نے پالیسی بیان جاری کیا۔ بھارتی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ لیکن یہ سب ناکافی ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کشمیر پر کھل کر بحث کرنے کا موزون وقت آن پہنچا ہے۔ تا کہ قوم متفقہ طور پر اقوام متحدہ ، او آئی سی اور دیگر معتبر عالمی فورمز کو مسلہ کشمیر کی جانب متوجہ کرنے میں کامیابی حاصل کرسکے۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 557539 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More