عید الفطر کے بعد ملک میں سیاسی وسماجی
سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز ہورہاہے، تاہم اس بار عید الفطر کے بعد 8جولائی
کو دور حاضر کے سب سے بڑے سماجی رہنماء عبدالستار ایدھی کا انتقال نہ صرف
اہل پاکستان بلکہ پوری انسانیت کیلئے بڑا سانحہ ہے ۔
عبدالستار ایدھی کی نوے سالہ زندگی جدوجہداور خدمت خلق سے عبارت ہے ۔ انہوں
نے ہمیشہ انسانیت کی خدمت کیلئے ہر طرح کی قربانی دی ہے،یہی وجہ ہے کہ پوری
قوم نے ان کے انتقال کے غم کو محسوس کیا۔ عبدالستارایدھی دور حاضر میں خدمت
خلق کے شعبے میں اپنی مثال آپ اور ایک عظیم انسان تھے۔ ان کے نظریات و
افکار سے اختلاف اپنی جگہ لیکن دور حاضر میں خدمت خلق کے شعبے ان کا کوئی
ثانی نہیں ہے ۔ عبدالستار ایدھی کے انتقال سے یقینا ایک بہت بڑا خلا پیدا
ہوا ہے اور ایسے لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی کی کمی کو پوری
قوم محسوس کررہی ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عوامی اور حکومتی سطح
پرعبدالستار ایدھی کی خدمات کو بھرپور انداز میں سراہا گیا ،یہی وجہ ہے کہ
ان کی تدفین اور نمازجنازہ قومی اعزاز کے ساتھ ہوئی۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ہونے والی نمازے جنازہ میں صدر مملکت ممنون حسین ،
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان ،
وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ جیلانی ،وفاقی
اور صوبائی وزراء، اعلیٰ فوجی و سرکاری حکام اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے
تعلق رکھنے والے افراد اور عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کرکے عبدالستار
ایدھی کو بھرپور انداز میں خرات عقیدت پیش کیا۔ ایسا لگتاہے کہ عبدالستار
ایدھی نے اپنی زندگی کی طرح موت کے بعد بھی قوم کو متحدکرنے کی بھرپور کوشش
کی ہے، اگرچہ نماز جنازہ وتدفین میں بڑی سیاسی ومذہبی جماعتوں (سوائے ایم
کیو ایم )کے مرکزی قائدین کی کمی محسوس کی گئی تاہم عبدالستار ایدھی کے
انتقال پر تمام لوگوں نے اپنے رنج وغم کا اظہار کیا۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک غالباًاپنی وزارت کے دوران پہلی بار
چند گھنٹے سند ھ کا دورہ کیااور ان کا بنیاد ی مقصدعبدالستار ایدھی کے اہل
خانہ سے تعزیت تھی۔ بعدازاں انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے
نہ صرف ملاقات کی بلکہ دونوں وزرائے اعلی نے مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے
وفاق پر سخت تنقید کی اور الزام لگایا کہ وفاق سندھ اور خیبر پختونخوا کی
بجلی چوری کررہاہے۔پرویز خٹک نے یہاں تک کہاکہ وفاق تینوں چھوٹے صوبوں کو
مکمل نظر اندازکررہاہے اور ایسا لگتاہے کہ ’’پاکستان صرف پنجاب کا نام
ہے‘‘، دونوں وزراء اعلیٰ کی ملاقات کا اگرچہ بظاہر کوئی بڑا مقصد نظر نہیں
آیا سوائے باہمی دلچسپی کے امور پر گفت وشنید کے تاہم امکان یہی ہے کہ یہ
ملاقات دونوں جماعتوں کو قریب تر کرنے میں بنیادی کردار ادا کرے گی جو
عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات پر منتج ہوسکتی ہے ۔ پیپلزپارٹی
اورتحریک انصاف کے حلقوں میں آئندہ چند ہفتوں میں ممکنہ ملاقات کی باز گشت
بھی ہے۔
پیپلزپارٹی کے ذرائع کے مطابق بعض مقتدر قوتیں بلاول بھٹوزرداری کو وزارت
عظمی ٰکے عہدے پر فائز دیکھنا چاہتی ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو نے
اپنی سرگرمیاں تیزتر کردی ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ تحریک انصاف کے
ساتھ شامل ہوکر یہ منزل حاصل کرپائیں گے؟ کیونکہ جہاں بلاول بھٹو کو 30کے
پٹے پر چڑنے سے قبل ہی وزیر اعظم بن کر وزرائے اعظم کی فہرست میں کم عمری
کا ریکارڈ قائم کرنے کی خواہش ہے وہیں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان
اپنی ڈھلتی ہوئی عمر سے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں اور بلاول سے زیادہ وزارت
اعظمیٰ پر ان کی نظریں مرکوز ہیں۔جس طرح شیخ رشید احمددھرنوں میں کہا کرتے
تھے’’ قبر ایک اور مردے دو ہیں‘‘ اسی طرح یہاں پر بھی ’’کرسی ایک اور جاں
توڑ کوشش کرنے والے امیدوار دونوں جماعتوں کے دو سے زائد ہیں‘‘ ایسے میں
کیا کوئی کسی کے لیے قربانی کا جزبہ رکھتاہے یا قربانی دے گا ۔بظاہر اس کے
اثار دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں شاید یہی وجہ عمران خان اور بلاول
بھٹوکی قربت میں اصل رکاوٹ ہے۔جس طرح مسلم لیگ (ن) نے 2013ء کے بعد
پیپلزپارٹی سے دوستی برقرار رکھنے کے لئے سندھ میں اپنے حامیوں اور اپنی
پارٹیوں کو مکمل طور پر نظر اندازکئے رکھا اسی طرح تحریک انصاف بھی اب
پیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم دیکر اس کی ناراضگی مول لینے کیلئے عملًا تیار نہیں
ہے ۔سوال پھر یہی پیدا ہوتاہے کہ کیاتحریک انصاف کا وہ خواب پورا ہوگا جس
کیلئے کئی برسوں سے کوشاں ہیں۔
دوسری جانب سندھ کی سیاست میں نو وارد جماعت پاک سرزمین پارٹی اپنے قدم
جمانے کی کوشش کررہی ہے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ سید مصطفی کمال کے
مطابق سندھ بالخصوص شہری علاقوں کے لوگ مسلسل ان کی پارٹی میں شامل ہورہے
ہیں اور 11جولائی کو 260 سے زائدایم کیوایم کے عہدیداروں نے ایم کیوایم
چھوڑ پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت کی اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتاہے
تو یقینا مستقبل میں پاک سرزمین پارٹی کو کم ازکم شہری علاقوں کی حد تک
سیاسی میدان میں نظر انداز کرنا بہت مشکل ہوگا۔ سید مصطفی کمال نے اپنی
پریس کانفرنس میں ایم کیوایم کے کارکنوں کی مبینہ گمشدگی ، گرفتاری اور
ماورائے عدالت قتل کی بھرپور مذمت کی کہاکہ اس طرح کے اقدام سے ایم کیوایم
کے ان لوگوں کو فائدہ پہنچے گا جو سندھ باالخصوص شہری علاقوں کے حالات ٹھیک
نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔بنیادی طور پر ایسا محسوس ہوتاہے کہ سید مصطفی کمال
نے اس بیان کے ذریعے ایم کیوایم سے ہمدردی کے اظہار کے بجائے اپنے اوپر
ایجنسیوں کے ایجنٹ ہونے الزامات کی نفی اور ایم کیوایم کے عام کارکن اور
ووٹر ز کو اپنی جانب راغب کرنے کی ایک کوشش کی ہے۔ امکان ہے کہ وہ آئندہ
بھی اپنی پالیسی اسی انداز میں جاری رکھیں گے اور ہدف تنقید ایم کیوایم کے
قائد الطاف حسین اور ان کے چند ساتھی ہی ہونگے۔
ایم کیوایم بھی بھرپور انداز میں جواب دینے کیلئے کوشاں ہیں اس ضمن میں
مسلسل ہونے والی پریس کانفرنسیں اور بیانات واضح مثال ہیں تاہم ایم کیوایم
کیلئے مشکل یہ ہے کہ ان کے قائد الطاف حسین کے بعض بیانات اب بھی ان کیلئے
مسلسل مشکلات کا سبب بن رہے ہیں،ایم کیوایم نے اپنے کارکن ریاض الحق مبینہ
ماورائے عدالت قتل کے خلاف بھرپور احتجاج کیا اورکہا ہے کہ ان کے درجنوں
کارکن اب بھی لاپتا ہیں اور ان کے ماورائے عدالت قتل کا خدشہ ہے ۔ بظاہر
ایم کیوایم اس وقت بھی کافی مشکل میں دیکھائی دے رہی ہے اور کئی برس گزرنے
کے باوجود سنبھلنے کا موقع نہیں مل رہاہے اور امکان یہی ہے کہ ان کی مشکلات
میں مزید اضافہ ہوگاجس کی واضح مثال ایم کیوایم کے قائد کا اچانک سخت ردعمل
بھی ہے۔ اب دیکھنایہ ہے سندھ کی سیاست کیارخ اختیار کرتی ہے کیونکہ سندھ کی
سیاست کے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ |