پاکستان میں مقیم کشمیری باشندوں
کی تعداد پندرہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ ان میں 1947 اور1965 کی جنگوں کے دوران
ہجرت کرنے والے اور 1990 میں عسکری جدوجہد کے بعد نقل مکانی کرنے والے اور
آزاد کشمیر سے کاروبار اور روزگار کی تلاش میں آنے والے بھی شامل ہیں۔ ان
کے علاوہ قیام پاکستان سے قبل تلاش روزگار کے لیے پنجاب کے مختلف علاقوں
میں آباد ہونے والے کشمیری باشندے بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کے بڑے
شہروں میں موجود ہیں۔ ان کی آبادی صوبہ پنجاب میں راولپنڈی، اسلام آباد،
ٹیکسلا، واہ کینٹ، حسن ابدال، گوجر خان، جہلم، گجرات، گوجرانوالہ، حافظ
آباد، سیالکوٹ، فیصل آباد، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، صوبہ سندھ میں کراچی، حیدر
آباد، بلوچستان کے صوبائی ہیڈ کواٹر کوئٹہ میں صوبہ پختون خواہ میں پشاور،
سوات، ایبٹ آباد اور مانسہرہ جیسے علاقوں میں کثیر تعداد میں مقیم ہیں جبکہ
دیگر چھوٹے شہروں میں سے شاید ہی کوئی مقام ایسا ہو جہاں کشمیری باشندے
آباد نہ ہوں۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں مقیم کشمیری زندگی کے ہر شعبے
میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ سیاست، تجارت، صنعت و حرفت، وکالت، علم و
دانش، صحافت، سروسز، زراعت اور مزدوری سمیت ہر شعبے میں انہیں نمایاں مقام
حاصل ہے۔
اہل پاکستان کی کشمیریوں اور تحریک آزادی سے وابستگی بہت گہری اور طویل ہے۔
ہر مشکل گھڑی میں انہوں نے کشمیریوں کی مدد کی، 1947, 1965 اور 1990 کی
ہجرت ہو یا 2005 کا زلزلہ، ہر موقع پر پاکستانی عوام نے کشمیریوں کی بے
مثال مدد کی۔ پاکستان کے ہر گاؤں اور شہر کے فرشتہ صفت نوجوانوں نے وادی
کشمیر کے چپے، چپے پر اپنی خون سے تاریخ رقم کر کے اہل کشمیر سے اپنی محبت
کا اظہار کیا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے وہ کردار ادا نہیں
کیا، جو پاکستان عوام چاہتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں تحریک آزادی کو
لپیٹ دینے کی منصوبہ بندی ہو چکی تھی اور بھارت کے ساتھ خفیہ مذاکرات کے
ذریعے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینے کی سازش تیار کر لی گئی تھی،
جس پر عمل درآمد سے قبل ہی مشرف کا دھڑن تختہ ہوگیا۔ موجودہ دور میں بھی
عالمی استعماری طاقت پاکستان اور بھارت میں موجود اپنے آلہ کاروں کے ذریعے
امن اور باہمی تعاون کے نام پر مسئلہ کشمیر کو پس منظر میں لے جانے میں
مصروف ہے۔ انہی وجوہات کی بناء پر کشمیر اب پاک بھارت مذاکرات میں کہیں نظر
نہیں آرہا اور پاکستان کا سرکاری اور پرائیوٹ میڈیا میں بھی کشمیر کو وہ
ترجیح حاصل نہیں جو ماضی میں تھی۔ اس کے برعکس کشمیر میں تحریک آزادی پورے
تسلسل سے جاری ہے۔ ان حالات میں پاکستان اور دیگر ممالک میں مقیم کشمیریوں
کو منظم ہونے اور تحریک آزادی کشمیر کی پشت پر کھڑے ہونے کی پہلے سے زیادہ
ضروت ہے۔
نصف صدی سے اہل کشمیر اپنی آزادی کی جدوجہدجاری رکھے ہوئے ہیں۔ 1947-48 میں
مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا تو آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات آزادی سے
ہمکنار ہوئے اور ریاست جموں وکشمیر کے سینے کو دو لخت کرتی ایک خونی لکیر
نے ریاست جموں و کشمیر کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں
میں کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ جہاد افغانستان سے مہمیز حاصل کرتے
ہوئے 1989 میں اہل کشمیر نے عسکری جدوجہد کا آغاز کیا۔ عسکریت کی یہ تحریک
وادی کشمیر کے خمیر سے اٹھی تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اہل کشمیر تیر
وتفنگ سے شناسا نہیں ہیں اس لیے یہ تحریک جاری نہیں رہ سکے گی، چند سر پھرے
جوان جذبات قابو میں نہیں رکھ سکے، یہ جلدخاموش بھی ہو جائیں گے۔ اہل دل کا
کہنا تھا کہ یہ چنگاری اب سلگ چکی ہے، یہ مدہم نہیں ہوگی بلکہ شعلہ بنے گی
اور آزادی مخالف ہر قوت کو نیست و نابود کر دے گی۔ گزشتہ اکیس سالوں میں اس
تحریک نے کتنے مراحل دیکھے اور ہر روز یہ تحریک ایک نئے امتحان سے گزرتی ہے۔
الحمد اللہ اس کی حکمت عملی میں تبدیلی تو ہوتی رہتی ہے لیکن اس کے تسلسل
میں کوئی بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی حائل نہیں ہوسکی۔
اہل کشمیر نے آزادی کے اس مقدس سفر میں ہر طرح کی قربانی پیش کی ہے۔ جوان
بچے بھی پیش کیے ہیں، خواتین کی عزت بھی کام آئی ہے اور بزرگوں نے بھی اپنا
حـصہ ڈالا۔ ان کے کاروبار بھی تباہ ہوئے ہیں، املاک بھی نذر آتش ہوئیں،
باغات اور فصلیں بھی جلا ڈالیں گئیں۔ گھر اور مساجد بھی خاکستر ہوئے۔ معاشی
تباہی، نسل کشی، عصمت دری اور ہما وقت عدم تحفظ کے احساس کے باوجود اہل
کشمیر کے پایہ استقلال میں کوئی کمی نہیں آئی۔
آزادکشمیر کی طرف سے مسلسل سردی مہری و لا تعلقی اور پاکستان کے حکمرانوں
کے روز افزوں بدلتے ہوئے مؤقف اور بھارت کی طرف سے مذاکرات کے ڈھونگ رچانے
کے باوجود کشمیر کی مسلمہ سیاسی اور عسکری قیادت نے مایوسی کو قریب نہیں
پھٹکنے دیا اور نہ اپنی جدوجہد کو لمحہ بھر کے لیے روکا۔ مشکل سے مشکل
مراحل میں بھی انہوں نے اپنی قوم کو حو صلہ دیا اور آگے بڑھنے میں بھرپور
راہنمائی فرمائی۔ کشمیری قیادت کی اس فراست کو ان کے دشمن بھی داد دینے پر
مجبور ہیں۔
نائن الیون کے واقعے نے تحریک آزادی کو ایک نئی الجھن سے دوچار کیا۔ عالمی
سطح پر جہاد کو دہشت گردی کا نام دیا گیا اور عالم اسلام پر مسلط استعماری
آلہ کار ٹولے نے امریکی مؤقف کی تائید و حمایت میں جہاد کے نام اور اس کے
ہر نشان کو مٹانے میں امریکہ سے زیادہ مستعدی کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان کے
غاصب حکمران جنرل پرویز مشرف نے تحریک آزادی کشمیر کی مقدس جدوجہد کو
خاموشی سے لپیٹ دیا اور آزاد کشمیر کے حکمرانوں نے پرویز مشروف کے ہر قدم
کی آنکھیں بند کر کے تائید کی۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ بس سروس اور
انٹرا کشمیر ٹریڈ کو آزادی کشمیرکے متبادل کے طور پر پیش کیا جانے لگا اور
آزاد کشمیر کے بزدل اور ابن الوقت حکمرانوں نے اسے اپنا تاریخی کارنامہ
ثابت کرنے کی بزدلانہ کوشش کی۔ کشمیری قیادت نے بس سروس اور انٹرا کشمیر
ٹریڈ جیسے لولی پاپ اقدامات کو مسترد کردیا اور ان ساری سازشوں کو ناکام
بنا دیا۔
نائن الیوں کے بعد پاکستان کے حکمرانوں اور پالیسی سازوں نے تحریک آزادی
کشمیر سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا اور بھارت کو یقین دلایا کہ کشمیر میں
دراندازی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس بھارت نے کشمیر کے پانی پر
قبضہ کر کے ڈیمز تعمیر کرنے شروع کر دئے، جس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت
کو تباہی سے دوچار ہوئی۔ پاکستان کے بزدل فوجی حکمران اور اس کے ہمنوا آزاد
کشمیر کے حکمران ٹولے نے تحریک آزادی کشمیر تو سبوتاژ کرنے کی ہر سازش میں
رنگ بھرنے کی مذموم کوشش کی۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ان کی ساری سازشیں
ناکام ہوئیں اور تحریک آزادی کشمیر اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کرتی رہی۔
عسکری جدوجہد ہو یا شرائن بورڈ کا معاملہ اہل کشمیر نے ہمیشہ بالغ نظری کا
مظاہرہ کیا۔ نوجوانوں کو عسکریت سے جوڑے رکھا اور عوام کو سیاسی میدان میں
سرگرم عمل رکھا گیا۔ جس نے اپنوں اور غیروں کی ساری سازشوں کو شکست سے
دوچار کیا۔
آج اہل کشمیر ہر طرح کی بیرونی امداد کے بغیر اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے
ہیں۔ انہوں نے ہمارے حکمران ٹولے کی مسلسل بے وفائی کے بعد آزادکشمیر اور
پاکستان کی طرف دیکھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ وہ اپنے رب کی نصرت اور اپنے قوت
بازو پر بھروسہ کیے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں ہم پاکستان اور آزاد کشمیر میں
بسنے والے کشمیریوں کو ایک بار پھر متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ تحریک آزادی
کشمیر محض سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ بطور مسلمان ہمارا دینی فریضہ بھی ہے۔ یہ
صرف مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آزادی اور بقا کا معاملہ نہیں بلکہ آزاد کشمیر
اور پاکستان کی سلامتی، خوش حالی اور ترقی کا بھی تقاضا ہے۔ اس لیے ہمیں
خونی لکیر کے اُس پار برپا قیامت سے آنکھیں نہیں پھیرنی چاہیے، ان تڑپتی
لاشوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور اپنے ہم وطن مسلمان بہن بھائیوں کو
مایوس نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارا دینی اور ملی فریضہ ہے کہ ہم ان کی ہر ممکن
مدد کرتے رہیں۔
پاکستان میں مقیم لاکھوں کی تعداد میں کشمیری باشندے اپنے مادر وطن کی
آزادی کی اس جدوجہد میں شریک رہے ہیں۔ ان کشمیریوں میں مختلف اوقات میں
مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے آنے والے بھی شامل ہیں اور آزاد کشمیر سے
کاروبار اور روزگار کے لیے نقل مکانی کرنے والے بھی شریک ہیں۔ پاکستان
تحریک آزادی کشمیر کا اولین پشتی بان ہے۔ یہاں سے سینکڑوں جوانوں نے ہر دور
میں کشمیر کو اپنے لہو کی سوغات دی ہے۔ عورتوں نے زیوارت تک کشمیریوں کی
نذر کیے ہیں اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے اپنا، اپنا حصہ ڈالا
ہے۔ ہمیں ان کی قربانیوں کو ہمیشہ اپنی نظروں میں رکھتے ہوئے، اپنی تحریک
کو پاکستان کی سرزمین پر اس طرح منظم کرنا ہے کہ ان کی زیادہ سے زہادہ
ہمدردیاں حاصل رہیں۔ اپنے کشمیری بھائیوں کو تحریک آزادی کشمیر سے جوڑے
رکھنا اور ان کی صلاحیتوں، وسائل اور قوت کو بہتر طور پر تحریک آزادی کے
لیے استعمال کرنے اور انہیں کشمیر کے سفیر کے کردار سے آگاہ کرنے کے لیے
حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔
اس سلسلے میں چند ایک تجاویز آپ کی خدمت میں رکھنا چاہتا ہوں:
١۔ پاکستان میں مقیم کشمیری تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے ہر طرح کی تفریق
اور گروہ بندی سے بالا تر ہو کر متحد ہو کر حق خودارادیت اور قائداعظم محمد
علی جناح ؒ کی کشمیر پالیسی کے احیاء کے لیے مشترکہ اور منظم جدوجہد کریں۔
٢۔ پہلے مرحلے پر راولپنڈی/اسلام آباد کی سطح پر اور پھر پورے پاکستان میں
آل پارٹیز کشمیر کمیٹی تشکیل دی جائے اور تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے
تمام سرگرمیاں اپنی، اپنی جماعتوں کے پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ آل پارٹیز
کشمیر کمیٹی کے ذریعے منعقد کی جائیں۔
٣۔ مقبوضہ کشمیر میں پیش آنے والے کسی بھی واقع پر بروقت اور مؤثر ردعمل کا
اظہار کر کے خونی لکیر کے اس پار یہ پیغام دیا جائے کہ تم اکیلے نہیں بلکہ
دنیا کے ہر حصے میں بسنے والے اہل کشمیر اس جدوجہد میں تمہارے ساتھ ہیں۔
٤۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس فورم سے منسلک کرنے کے
لیے طلبہ، مزدوروں، صحافیوں، وکلا، علما، دانشوروں اور تاجروں کی الگ الگ
کشمیر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو اپنے اپنے شعبے میں افراد سے رابطہ کر کے
انہیں اس مقدس مشن کے ساتھ منسلک ہو سکیں۔
٥۔ راولپنڈی/اسلام آباد قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کا مرکز ہے، ہم
یہاں سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر تحریک آزادی کشمیر کو اجاگر کرنے کے
لیے وقتاً فوقتاً ایسی سرگرمیاں کا انعقاد کرتے رہیں تاکہ تحریک آزادی کو
مؤثر انداز میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا جاسکے۔
٦۔ پاکستان میں مقیم کشمیری پاکستانی عوام، حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو
متوجہ کرنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔
آخر میں، میں شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت پیش کرونگا جن کی قربانیوں سے
تحریک آزادی کشمیر مشکلات کے باوجود جاری ہے اور آزادی کی منزل قریب تر
ہوتی جا رہی ہے۔ اس موقعہ میں مقبوضہ کشمیر کے قائدین حریت کو بھی سلام پیش
کرتا ہوں کہ وہ نہ کسی خوف کا شکار ہوئے اور نہ کوئی رغبت اور لالچ انہیں
اپنے مؤقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہ دھکیل سکی۔ میں میدان کارزار میں ڈٹے
ہوئے مجاہدین کو بھی خراج تحسین پیش کروں گا، جو اپنا آج ملت کے مستقبل پر
قربان کرنے رہے ہیں اور تحریک آزادی کو منزل تک پہنچانے کے لیے سرگرم عمل
ہیں۔ جن کی بہادری اور استقامت نے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے اور بھارت
بھاری دفاعی اخراجات اور پانچ لاکھ سے زائد فوج کے باوجود انہیں میدان سے
باہر نہیں دھکیل سکی بلکہ ہر لمحہ ان سے خوفزدہ ہے۔
جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر ضلع راولپنڈی کے زہر اہمتام '' پاکستان میں
مقیم کشمیریوں کا تحریک آزادی کشمیر میں کردار۔۔۔۔۔۔کیا اور کیسے'' کے
موضوع پر منعقدہ سیمینار میں پیش کیا جانے والا مقالہ۔ |