ستر کی دہائی کے بعد سے پاکستان بیرونی
قوتوں کے زیر اثر رہا اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل جمہوری قوتیں
اقتدار کے حصول کے خاطر بیرونی مخالف طاقتوں کا حصہ بنی رہیں، یہی نہیں
فوجی حکومتوں نے بھی پاکستان کی ریاست کو شدید نا تلافی نقصان سے دوچار
کیا،سابق صدر یحییٰ خان،سابق صدرایوب خان ،سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو
اورسابق صدرو ریٹائرڈ جنرل ضیاالحق کے دور اقتدار پاکستان کی سیاسی تاریخ
کے انتہائی بد نما داغ رہے ہیں۔!! پاکستان سن انیس سو اکہتر میں اندرونی
سیاسی خلفشار اور انارکی کی بنا پر دو لخت ہوا پھر بھی نہ ہمارے سیاستدانوں
و سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے سبق سیکھا اور نہ ہی آمروں کی سوچ
بدلی۔۔!!پاکستان کی قدر و منزلت اُن سے پوچھئے جن کی اولادیں،والدین،بہن
،بھائی اور رشتہ دار اس سرزمین کیلئے شہید ہوئے، کچھ کی عزتیں پامال ہوئی
تو کچھ کو زبردستی اپنے مذاہب میں داخل کیا گیاگو کہ وطن عزیز پاکستان کسی
اچانک واقعہ کا نام نہیں یہ برسوں کی جدوجہد اور تحریک کا ثمر ہے!! پاکستان
دنیا میں مسلمانوں کیلئے اللہ کی جانب سے بہت بڑا انعام اور فضل بھی ہے یہ
اللہ اور اس کے حبیب محمد ﷺ کی عطا ہے، اسی لیئے اس وطن عزیز کیلئے عظیم
شخصیت کا چناؤ کیا گیا جس کا نام قائد اعظم محمد علی جناح تھا اور قوم میں
جذبہ اخوت اور بیداری کی روح کو تازگی علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے
پھونکی۔۔۔!!پاکستان کے پہلے صدر میجر جنرل سکندر مرزا تھے جو تیئس مارچ
انیس سو چھپن سے ستائیس اکتوبر انیس سو اٹھاون تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس
سے قبل وہ پاکستان کے آخری گورنر جنرل بھی رہ چکے تھے۔انیس سو چھپن میں جب
پاکستان کا پہلا آئین منظور کیا گیا تو اس میں گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر
کے صدارت کا منصب تخلیق کیا گیا جس کا انتخاب الیکٹرل کالج کے ذریعے ہونا
تھاتا ہم صرف دو سال بعد ہی سکندر مرزا جس آئین کے تحت صدر بنے تھے انھوں
نے اسی آئین کو معطل کر کے مارشل لا نافذ کر دیا اور جنرل ایوب خان کو چیف
مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔۔!! یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل
لا تھا ستائیس اکتوبرانیس سو اٹھاون کو سکندر مرزا نے ایوب خان سے اختلافات
کی بنا پر استعفیٰ پیش کر دیا اور جنرل ایوب خان نے صدر کا منصب سنبھال
لیا۔۔۔!!ایوب خان کو الیکٹرل کالج نے منتخب نہیں کیا تھا بلکہ انھوں نے یہ
ساغر خود بڑھ کے اٹھایا تھا تاہم اپنے عہدے کو قانونی چھتری فراہم کرنے کے
لیے انھوں نےانیس سو ساٹھ میں ریفرینڈم منعقد کروایا جس میں انھیں بھاری
حمایت ہو گئی۔۔۔!!ایوب خان گیارہ سال کے لگ بھگ صدارت کے عہدے پر براجمان
رہے اس دوران ایک اور آئین منظور کیا گیا جس میں ان کی صدارت کی توثیق کی
گئی جب کہ اسی دوران انھوں نے محترمہ فاطمہ جناح سے انتخابات میں بھی
کامیابی حاصل کی ،ان انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد ایوب کی حکومت
کے خلاف عوامی ناپسندیدگی جس رفتار سے بڑھتی گئی اسی رفتار سے ایک شعلہ
بیان سیاست دان یعنی ذوالفقار علی بھٹو کا ستارہ بلند ہوتا گیا بالآخر
پچیس مارچ انیس سو انہتر کو ایوب خان نے اپنا عہدہ جنرل آغا محمد یحییٰ
خان کے سپرد کر کے بن باس لے لیا۔۔۔۔۔۔!!یحییٰ خان کو پاکستان سیاسی تاریخ
کا سب سے رنگین و سنگین کردار کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا انھوں نے
پاکستان میں دوسری بار مارشل لا نافذ کیا انھیں بڑے پیمانے پر مشرقی
پاکستان کی علیٰحدگی کا ذمے دار سمجھا جاتا ہے، ان کے شراب و شباب کے رسیا
ہونے کے قصے بھی مشہور ہیں تاہم ان کے نامۂ اعمال میں یہ نیکی ضرور لکھی
ہوئی ہے کہ انھوں نےانیس سو اکہتر میں ملک کی تاریخ کے سب سے صاف و شفاف
انتخابات منعقد کروائےتاہم بھارت سے بدترین شکست اور ملک کے دولخت ہونے پر
رائے عامہ ان کے اس قدر غیر موافق ہو گئی کہ ان کا مزید اپنے عہدے پر
برقرار رہنا ناممکن ہو گیا چنانچہ وہ بیس دسمبرانیس سو اکہتر کو اقتدار
حکومت ذوالفقار علی بھٹو کو سونپ دیا۔۔۔!!ذوالفقار علی بھٹو کو یہ اعزاز
حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے وزیر خارجہ ،وزیر اعظم اور چیف مارشل لا
ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ برس تک ملک کے صدر بھی رہے ہیں۔انیس سو
اکہتر میں ان کی جماعت نے مغربی پاکستان میں واضح برتری حاصل کی تھی جس کے
باعث وہ انیس سو تہتر میں وزیراعظم منتخب ہو گئے!!بھٹو کے دورِ وزارتِ
عظمیٰ میں ملک کے صدر چودھری فضل الٰہی چوہدری تھے۔ انیس سو تہتر کے آئین
کے تحت ملک کو پارلیمانی جمہوریت بنا دیا گیا تھا جس میں اختیارات کا طرہ
منتخب پارلیمان اور وزیراعظم کے سروں پر سجا دیا گیا جس کے بعد صدر کا عہدہ
فائلوں پر دستخط کرنے اور تقریبات میں فیتہ کاٹنے تک سمٹ کر رہ
گیا۔۔۔۔!!بھٹو نے وہی غلطی کی جو ان سے قبل سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان
کر چکے تھے یعنی فوج کے سربراہ کا ناعاقبت اندیشانہ چناؤ اس کا خمیازہ
انھیں یوں بھگتنا پڑا کہ جنرل ضیاالحق انیس سو ستترمیں انھیں معزول کر کے
ملک کے تیسرے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے، چودھری فضل الٰہی نے چودہ
ستمبرانیس سو اٹہتر کو سبک دوش ہو گئے، جس کے دو دن بعد جنرل ضیاالحق نے
صدرِ پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا، اس مدت صدارت کو توسیع دینے کے لیے
جنرل ایوب کی مانند جنرل ضیا کو بھی ریفرینڈم کی بیساکھیوں کی ضرورت پڑی
چنانچہ 1 انیس سو چوراسی میں انھوں نے وہ بے حد متنازع ریفرینڈم منعقد
کروایا جس میں وہ پچانوے فیصد ووٹ لے کر سرخرو ہوئے۔!!اگلے برس ضیاالحق نے
غیرجماعتی انتخابات منعقد کروائے، نومنتخب اسمبلی نے نہ صرف ضیاالحق کے
تمام سابقہ اقدامات کی توثیق کر دی بلکہ آٹھویں ترمیم بھی منظور کر دی جس
کی بدنامِ زمانہ ٹو بی اٹھاون شق کے تحت صدر کو اسمبلی کو تحلیل کرنے کا
اختیار حاصل ہو گیا!!اب صدر محض چودھری فضل الٰہی نہ رہا بلکہ اس کے سامنے
وزیراعظم اور پارلیمان ربر سٹیمپ بن کر رہ گئے۔۔!! سترہ اگست انیس سو
اٹھاسی گیارہ برس کے بعد صدر ضیاالحق کے اقتدار کا سورج اس وقت غروب ہوا جب
ان کا طیارہ بہاولپور کے قریب فضا میں پھٹ کر تباہ ہو گیا۔۔۔۔ انیس سو تہتر
کے آئین کے تحت صدر کی غیرموجودگی میں سینیٹ کا چیئرمین صدر بن جاتا ہے،
اس وقت سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحٰق خان تھے چنانچہ وہ ملک کے پانچویں صدر
بن گئے،جب سولہ نومبر کو انتخابات ہوئے تو پیپلزپارٹی ایک بار پھر اقتدار
میں آ گئی تاہم بے نظیر بھٹو کی حکومت نے مصلحتاً جنرل ضیا کے غلام اسحٰق
خان ہی کو صدر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، یہ فیصلہ خاصا بھاری ثابت ہوا اور
جی آئی کے نے دو سال کے اندر اندر ہی بے نظیر بھٹو کی حکومت کی بساط لپیٹ
دی۔۔!!اس کے بعد نواز شریف کی حکومت آئی، شروع شروع میں تو ان کی حکومت کی
غلام اسحٰق خان کے ساتھ خوب پینگیں بڑھیں لیکن رفتہ رفتہ حالات خراب ہوتے
گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ نواز شریف ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے
ڈوبیں گے کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے جولائی انیس سو تیرانوے میں نہ صرف
خود وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھو لیے بلکہ غلام اسحٰق خان کو بھی ساتھ لے
ڈوبے۔!! ایک بار پھر بے نظیر بھٹو اقتدار میں آ گئیں، اس بار انھوں نے کسی
اور جماعت کے صدر پر بھروسا کرنے کی بجائے اپنی جماعت کے فاروق احمد لغاری
کو بھاری اکثریت سے صدر منتخب کرا دیا لیکن نومبر انیس سو چھیانوے میں ایک
بار پھر بے نظیر بھٹو کی حکومت کو معزول کر دیا گیا۔۔۔!!نواز شریف ایک بار
پھر وزیر اعظم بن گئے اور جیسا کہ ہوتا آیا ہے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ
ان کے فاروق لغاری کے ساتھ اختلاف پیدا ہو گئے، نواز شریف چونکہ پہلے ہی
ایک سوراخ سے ڈسے ہوئے تھے اس لیے انھوں نے آتے ہی بھاری مینڈیٹ کے زنبور
سے آٹھویں ترمیم کا ڈنک نکلوا دیا۔۔ فاروق لغاری کو چودھری فضل الٰہی بننا
منظور نہیں تھا اس لیے دو دسمبرانیس سو ستانوےکو انھوں نے تنگ آ کر
استعفیٰ دے دیا!!فاروق لغاری کے بعد سپریم کورٹ کے سابق جج اور نواز شریف
کے معتمد محمد رفیق تارڑ ملک کے صدر بنے ان کے دور میں چونکہ صدر کے خصوصی
اختیارات ختم ہو چکے تھے اس لیے ایک بار پھر لوگوں کو چودھری فضل الٰہی کی
یاد آ گئی۔۔نواز شریف نے ماضی سے سبق نہ سیکھتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو
خصوصی ترقی دے کر آرمی چیف بنا دیا، جب جنرل مشرف نے دواکتوبر انیس سو
ننانوے کو نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا تو اپنے لیے چیف ایگزیکیٹو کا
عہدہ منتخب کیا اور رفیق تارڑ کو صدر رہنے دیا لیکن انھیں محسوس ہوا کہ ملک
کے دوسرے فوجی سربراہان کی طرح ان پر صدارت ہی سجے گی اس لیے انھوں نے بھی
ایک ریفرینڈم منعقد کروایا اور رفیق تارڑ کو گھر بھجوا کربیس جون سن دو
ہزار ایک میں خود صدارت کا حلف اٹھا لیا،تاہم مشرف کی یہ صدارت رفیق تارڑ
اور چودھری فضل الٰہی کی طرح بے ضرر نہیں تھی، بلکہ انھوںٹو بی اٹھاون کا
گڑا مردہ نکالا اس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور منتخب وزیرِاعظم اٹھتے بیٹھتے
یس باس کا ورد کرنے لگے۔۔۔!!انھی بھاری اختیار کے ساتھ سن دو ہزار سات میں
ایک بار پرویز مشرف کے سر پر صدارت کا سہرا سجایا گیا، اس بار انھیں
الیکٹرل کالج نے منتخب کیا تھا۔۔۔ سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں
پیپلزپارٹی کی حکومت بنی اور اس کے چند ماہ کے اندر ہی حالات نے کچھ ایسا
پلٹا کھایا کہ پرویز مشرف کو نہ صرف ایوانِ صدر بلکہ ملک ہی کو خیرباد کہنا
پڑ گیا اور آصف علی زرداری گیارہویں صدر منتخب ہو گئے، ویسے تو ملک میں ان
کی مخالفت جاری رہی لیکن یہ کریڈٹ انھیں ضرور دینا پڑے گا کہ وہ ٹو بر
اٹھاون سے دست بردار ہو گئے تاہم ان کا اپنی پارٹی پر شکنجہ اتنا مضبوط تھا
کہ انھیں بقیہ ماندہ مدتِ وزارت میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ تیس جولائی
سن دو ہزارتیرہ کے انتخابات کے بعد ایک بار پھرمیاں نواز شریف وزیراعظم
منتخب ہوئے اور صدر ممنون حسین کو بنایا، میاں نواز شریف نے انتخابات سے
قبل جو عوام سے وعدے کیئے تھے وہ سب کے سب ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے ، میاں
نواز شریف کا مرکز موٹرویز کی جانب ہی ہے لیکن حالیہ دنوں میں پاناما لیکس
نے انہیں اور ان کی کابینہ کو شدید ذہنی کوفت میں مبتلا کیا ہوا ہے لیکن ان
کیلئے یہ آسانی ہے کہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کا رویہ دوستانہ ہے اسی
لیئے ماہرین کے مطابق پاناما اور دیگر کرپشن کے کیسس ان کے دور اقتدار کی
راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے کیونکہ اپوزیشن جماعت ہوں یا حزب اقتدار کے
نمائندگان اکثریت کرپشن، بدعنوانی، لاقانونیت کے زمرے میں آتے ہیں۔۔۔!!
جنرل راحیل شریف نے جب اپنا منصب سنبھالا تو انہیں مسلسل کلعدم جماعتوں
بلخصوص تحریک طالبان کی جانب سے دہشت گردی اور بم بلاسٹ کے واقعات اور خاص
کر پشاور میں ہونے والے معصوم بچوں کی شہادت کے بعد طے پایا گیا کہ ملک بھر
میں تمام دہشت گردی ، بم بلاسٹ، کرپشن اور معاونین کے خلاف آپریشن کیا
جائے ، اس آپریشن کا نام آپریشن ضرب عضب رکھا گیا۔۔۔۔!! پہلے پہل جنوبی و
شمالی وزیرستان اور بلوچستان کے باڈرز پر آپریشن کیئے گئے وقت کیساتھ ساتھ
کراچی اور دیگر علاقوں میں پھیلایا گیا ، قوم نے فوجی آپریشن کی کامیابی
سے سکون کا سانس لیا اور ان کی کامیابیوں کو بہت سہرایا۔۔!!جنرل راحیل شریف
کی مدت ملازمت کو تقریباًدو مہینے رہ گئے ہیں اور جنرل راحیل شریف کی خواہش
ہے کہ ملک بھرسے دہشتگردی، کرپشن، بدعنوانی اور لا قانونیت کا خاتمہ جڑ سے
کردیا جائے اسی بابت آپریشن ضرب عضب کو تیز کردیا گیا ہے، معزز
قائرین۔۔۔۔۔!!
ہمارے سیاسی لیڈران اور سابقہ آمروں نے صرف اپنے اقتدار کی فکر میں
سازبازیاں کیں کبھی بھی عوام الناس کی فلاح و بہبود کیلئے جامع پلان تیار
نہیں کیئے اپنے عیش و تعائش کی تکمیل کیلئے بیرونی قرضوں کے انبار کھڑے
کردیئے ، جھوٹ اور مکر فریب سے ہمیشہ عوام کو گمراہ کیا لیکن عوام ہمیشہ ان
ہی سے امید باندھتی رہی ہیں ۔۔۔!! ہم دنیا کو بتادینا چاہتے ہیں کہ مانا کہ
ہمارے حکمران، سیاستدان ہمیشہ امریکہ، برطانیہ، بھارت، اسرائیل اور دیگر
پاکستان مخالف قوتوں کی گود میں رہیں ہیں لیکن پاکستانی عوام سمجھ چکی ہے
کہ ان میں نفاق، نفرت، تعصب انھوں نے اپنے اقتدار کو جاری کرنے کیلئے ہم
عوام کو مسلسل لڑانے کی کوشش کی ہیں تاکہ عوام اپنی میں پڑ جائیں،
سیاستدانوں نے کبھی مہنگائی اور کبھی بے امنی سے عوام کو یکجا ہونے نہیں
دیا لیکن موجودہ جنرل راحیل شریف کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور ان کے جرات
مندانہ اقدامات کی وجہ سے عوام الناس کو راحت نصیب ہوئی ہے ۔۔!! عوام الناس
میں حب الوطنی کے جذبہ کو اجاگر کرنے کیلئے اے آر وائی نیٹ ورک کے سی ای
او اینڈ پریزیڈنیٹ سلمان اقبال نے جو قدم اٹھایا ہے شکریہ پاکستان کے نام
سے اور اس پلیٹ فارم سے یکم اگست سے چودہ اگست تک بھرپور اندز مین جشن
آزادی منانے کیلئے تیاریاں جاری ہیں ان کی ان کوششوں کو عوام کی جانب سے
بہت پزیرائی مل رہی ہے ، عوام الناس بھی شکریہ پاکستان کے سلسلے میں سلمان
اقبال کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں،شکریہ پاکستان کے عزم کو فنکاروں، ادیبوں،
مفکروں، دانشوروں،صحافیوں، لکھت کاروں، شاعروں، اینکروں،صنعتکاروں، کسانوں،
مزدوروں، استادوں، شاگردوں، کھلاڑیوں گو کہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق
رکھنے والی تمام شخصیات نے کہا ہے کہ وہ اے آر وائی نیٹ ورک کے پلیٹ فارم
شکریہ پاکستان کے ساتھ اپنے وطن عزیز کیساتھ والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار
کریں گے اور دنیا کو بتادیں گے کہ پاکستانی قوم ایک قوم ہیں انہیں کہ
دہشتگردی سے ڈرایا جاسکے گا اور نہ ہے کرپشن ، بدعنوانی کے ذریعے کمزور کیا
جاسکے گا ۔۔!! عوام الناس کے ایک طبقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پاک فوج کو
سلام کرتے ہیں کہ انھوں نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے بھتہ خوروں، ٹارگٹ
کلرز اور دہشت گردی کرنے والوں کا خاتمہ کیا ، ان کے مطابق ہر اس لیڈر اور
جمہوریت کو خوش آمدید کہیں گے جو عوام الناس کیلئے مخلص ہوکر سچے اور لگن
کیساتھ خدمت کرکے ثابت کریں ۔۔!!عوام الناس کے طبقے کا کہنا ہے کہ انہیں
تقاریر نہیں تقدیر بدلنے والے چاہئیں۔۔۔!! میری بھی دعا ہے کہ اللہ اے آر
وائی نیٹ ورک کے عزم پاکستان ، محبت پاکستان ، شریہ پاکستان کو کامیابی و
کامرانی سے ہمکنار کرے آمین ثما آمین۔۔!اللہ ہم سب کا حامی و ناظر رہے
آمین ثما آمین!!! پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔!! |