بینرز کہانی، سیاسی ردعمل ، قندیل بلوچ کاقتل، محرکات اورذمہ دار

بچپن میں ایک کہانی سناکرتے تھے۔کہانی کچھ یوں تھی کہ کسی بادشاہ اورکسان کے بیٹے کی گہری دوستی تھی۔ ہروقت دونوں ایک ساتھ رہتے۔جہاں بھی جاتے ایک ساتھ جاتے۔ جوچیزخریدتے مل کرخریدتے۔ کھانابھی مل کرکھاتے تھے۔بادشاہ اپنے بیٹے کی اس دوستی سے سخت پریشان تھا ۔ اس نے بیٹے سے باربارکہا کہ کسان کے بیٹے سے دوستی ختم کردے۔ تیری اوراس کی دوستی اچھی نہیں لگتی۔توبادشاہ کابیٹا ہے تونے کسان کے بیٹے کودوست بنارکھا ہے یہ مناسب نہیں ہے۔ بادشاہ نے مختلف طریقوں سے یہ دوستی ختم کرانے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہ ہوسکا۔بادشاہ ایک دن پریشان بیٹھا تھا کسی نے پوچھا کہ بادشاہ سلامت خیریت تو ہے آج پریشان دکھائی دے رہے ہو۔ بادشاہ نے کہا کہ بیٹے کی دوستی کی وجہ سے پریشان ہوں۔ بیٹے بیٹے کوباربارسمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ یہ دوستی ختم کردے ۔ بیٹا ہے کہ اس پرکسی بات کااثرہی نہیں ہوتا۔بادشاہ سے کہاگیا کہ اتنی سی بات پرپریشان ہوگئے ہو۔بادشاہ نے کہا کہ میرے سارے حربے ناکام ہوگئے توکہتے ہواتنی سی بات ہے۔کہنے والوں نے کہا کہ یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوسکتا ہے۔بادشاہ نے چونک کرکہاوہ کیسے ۔ بادشاہ کوبتایا گیا کہ شہر سے کسی مکار عورت کوبلوالو۔ اس کے ذمہ یہی ڈیوٹی لگاؤ وہ دومنٹ میں یہ کام کردے گی۔بادشاہ کے حکم پرشہرسے مکارخاتون لائی گئی۔ بادشاہ نے اسے اپنے اورکسان کے بیٹے کی دوستی اوراپنی پریشانی کاماجراسنایا۔مکارخاتون نے کہا کہ اس میں برائی کیا ہے۔یہ توسچی دوستی ہے اوردوستی کسی کی کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔بادشاہ نے کہا کہ مجھے یہ دوستی اچھی نہیں لگتی تو یہ دوستی ختم کرادے ۔مکارن نے کہا یہ تومیرے لیے معمولی بات ہے۔ اس کے بعد وہ مکارخاتون جوکہ بوڑھی ہوچکی تھی۔ بادشاہ کے بیٹے اورکسان کے بیٹے کی تاک میں رہنے لگی۔ ایک دن دونوں ایک ساتھ بیٹھے تھے۔مکاربڑھیا ان کے نزیک گئی ۔ ان میں سے ایک دوست کوالگ لے گئی ۔ اس کے کان کے ساتھ اپنامنہ لگایا اورمنہ کواس طرح ہلانے لگی جیسے کوئی بات کررہی ہو۔حقیقت میں اس کے کان میں اس نے کوئی بات نہیں کہی۔یہ کرتب دکھا کرمکاربڑھیاتوچلی گئی۔وہ دوست اپنے دوست کے پاس آیا تواس نے پوچھا کہ بڑھیا نے کان میں کیاکہا ہے اس نے کہا کہ کچھ نہیں کہا۔وہ دوست کہنے لگا کہ توجھوٹ بول رہا ہے اس نے کوئی بات ضرورکہی ہے۔اس نے کوئی بات نہیں کی۔ دوست نے جواب دیا۔اسی کشمکش میں دونوں میں لڑائی ہوگئی۔ یوں بادشاہ کی خواہش کے مطابق یہ دوستی ختم ہوگئی۔یہ کہانی راقم الحروف کواس وقت یادآئی جب اس نے اخبارات میں اب آبھی جاؤ کے بینرزکی خبر اوراس پرحکومتی اوراپوزیشن سیاستدانوں کاردعمل پڑھا۔ راولپنڈی سمیت دیگرشہروں میں مووآن پاکستان کی طرف سے پینافلیکس لگائے گئے ہیں جن میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تصویر ہے اورلکھا ہے کہ جانے کی باتیں ہوئیں پرانی۔خداکیلئے اب آجاؤ۔یہ پینافلیکس مووآن پاکستان نے خودلگائے ہیںیاکسی کے کہنے پرلگائے یہ بات ابھی رازہی ہے ۔پاک فوج کے ترجمان اورآئی ایس پی آرکے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ٹوئٹرپیغام میں کہا ہے کہ مختلف شہروں میں آرمی چیف کی تصاویر اورپوسٹرزاوربینروں سے پاک فوج یاپاک فوج سے منسلک کسی بھی ادارے کاکوئی تعلق نہیں ہے۔اعتزازاحسن نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کوخطرہ ہے نہ فوج ٹیک اوورکررہی ہے ۔اسلام آبادمیں آرمی چیف کی حمایت میں پوسٹرلگاناہمیں خوف زدہ کرنے کی حکومتی چال ہے۔حکومت پروپیگنڈا کے ذریعے ہمیں بدنام کرناچاہتی ہے۔خورشیدشاہ نے کہا کہ اسلام آبادمیں ایک برائے نام پارٹی کے سربراہ نے خلاف آئین بینرزلگائے مگرحکومت میں اتنی جرات نہ ہوئی کہ وہ ان بینروں کواتارنے کاحکم دیتی۔وفاقی وزیراطلاعات کاکہنا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے متعلق شکوک وشبہات پھیلاناآپریشن ضرب عضب کوکمزورکرنے کے مترادف ہے۔جبکہ انہیں بلانے والے نادان اوراحمق ہیں۔ایسے احمق اورنادان دوست کسی کابھلانہیں چاہتے۔اعتزازاحسن بینرلگانے کے حوالے سے الزام تراشی کررہے ہیں بینرزلگانے والوں نے اپنے فون نمبرلکھے ہیں۔ اعتزازبینرزلگانے والوں سے رابطہ کرسکتے ہیں۔حکومت کااس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اب حکومت اوراپوزیشن دونوں نے ان بینروں سے لاتعلقی کا اعلان کیاہے۔اب اصل کہانی کیا ہے ہمیں اس کیلئے انتظارکرنا ہوگا ۔اصل کہانی جوبھی ہویہ بات توطے ہے کہ جس طرح مکاربڑھیانے ایک دوست کوالگ بلاکردوسرے دوست کوغلط فہمی میں مبتلاکردیا۔جس سے دونوں میں اعتماد ختم ہوگیا۔اسی طرح بینرزلگانے والوں نے حکومت اورفوج اورحکومت اوراپوزیشن کے درمیان غلط فہمی پھیلانے کی ضرورکوشش کی ہے۔بڑھیاتواپنی سازش میں کامیاب ہوگئی ۔ادھربینرزڈپلومیسی کامیاب نہیں ہوسکی۔ حالانکہ پاکستان میں مارشل لاء کی حکومت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی مارشل لاء کی حکومتیں رہ چکی ہیں۔ پاکستان میں اس سے پہلے مارشل لاء کی حکومتیں کیسے آئیں۔پس پردہ کون کون سی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں یہ سب واقفان حال بخوبی جانتے ہیں۔یہی مارشل لاء کوخوش آمدیدبھی کہتے رہے ہیں۔ترکی میں بغاوت کی ناکامی پرسیاستدانوں کاجوردعمل سامنے آیا ہے اس سے بھی یہی ظاہرہوتا ہے کہ پاکستان میں ایسا ہوتا تو یہ سیاستدان حسب روایت مٹھائیاں تقسیم کرتے۔جیسا کہ کچھ سیاستدانوں کومارشل لاء کابے چینی سے انتظار ہے پاکستان کے اکلوتے نائب وزیراعظم یہ منصب ان سے پہلے کسی کوملا ہے اورنہ ہی بعدمیں نے کہا ہے کہ عوام حکمرانوں سے تنگ آچکے زلزلہ اورمارشل لاء کسی بھی وقت آسکتے ہیں۔موصوف سیاستدان کومارشل لاء کے ساتھ زلزلہ کابھی انتظارہے۔ ایسے خیرخواہوں سے قوم کواللہ بچائے۔ لگتا ہے چوہدری برادران میں بھی اس حوالے سے اتفاق رائے نہیں ہے۔ چوہدری شجاعت کہتے ہیں کہ پاکستان میں فوج کے ٹیک اوورکرنے کے حالات نہیں۔ جس طرح کسی بچے کوآئس کریم کھاتے ہوئے دیکھ کر بچے کاجی للچانے لگتا ہے ۔ اسی طرح ترکی میں فوج کوآتادیکھ کرپاکستانی سیاستدانوں کا جی بھی للچانے لگا ہے۔سیاستدانوں کی طرف سے توبینروں پرردعمل آیا ہے ۔ عوامی سطح پراس پرکوئی تبصرہ سننے میں نہیں آیا۔عوام کس کے ساتھ ہیں مارشل لاء کوخوش آمدیدکہیں گے یاترکی کے عوام جیساردعمل دکھائیں گے۔اس پربھی سیاستدانوں کی اپنی اپنی آراء ہیں۔ عمران خان کاکہنا ہے کہ فوج آئی توایک آدمی بھی نوازشریف کیلئے نہیں نکلے گا۔ آئینی ماہرین کاکہنا ہے کہ مارشل لاء کی دعوت سنگین غداری ہے حکومت کارروائی کرے۔

مفتی عبدالقوی کے ساتھ سیلفیوں سے شہرت پانے والی ماڈل فوزیہ عظیم عرف قندیل بلوچ کواس کے بھائی نے گلادباکرقتل کردیا۔بختاوربھٹوکہتی ہیں کہ قندیل بلوچ کے بھائی کوسخت سزاملنی چاہیے۔مفتی قوی نے بھی قتل پرافسوس کااظہارکیا ہے اوراس کوشہیدقراردیا ہے۔پیپلزپارٹی کے سعیدغنی کہتے ہیں کہ غیرت کے نام پرقتل کوناقابل معافی جرم قراردیاجائے۔شرمین عبیدچنائے کاکہنا ہے کہ عورت کہاں جائے وہ گھرمیں بھی محفوظ نہیں۔جسٹس (ر)ناصرہ جاویدنے کہا ہے کہ قندیل بلوچ کے قتل پراحتجاج ہوناچاہیے۔آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ قندیل بلوچ کاقتل ناقابل معافی جرم ہے۔اس حوالے سے پنجاب اسمبلی میں تحریک التواء بھی جمع کرادی گئی ہے۔قندیل کے دوسرے بھائی کوبھی حراست میں لے لیاگیا ہے مفتی عبدالقوی سے بھی تفتیش کافیصلہ کیاگیا ہے جبکہ مفتی قوی کاکہنا ہے کہ مجھے شامل تفتیش کرنے کی خبرجھوٹی ہے ۔ قندیل بلوچ کی والدہ کہتی ہیں کہ بیٹے نے مفتی قوی کے کہنے پرقتل کیا ہے۔قندیل کے والدین کوبھی شامل تفتیش کیاگیا ہے۔ ان سے ابتدائی تفتیش میں کچھ اہم شواہدبھی ملے ہیں جنہیں صیغہ رازمیں رکھ کرتفتیش کی جارہی ہے۔ایف آئی آرکے اندراج اورپوسٹ مارٹم رپورٹ کے بہت سے سوال پیداہوگئے ہیں۔مدعی والدکے مطابق یہ قتل غیرت کے نام پرکیاگیاجبکہ اس مقدمہ میں اس کادوسراموقف یہ بھی ہے کہ یہ قتل پیسوں کی خاطرکیاگیا ۔ پولیس کوبتایاگیا کہ یہ قتل رات تین بجے کے قریب ہوا۔جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ایک رات پہلے آٹھ بجے سے نوبجے کے درمیان ہوا ہے۔ایک سوال یہ بھی پیداہوتا ہے کہ جس نے غیرت کے نام پرقتل کیاپھروہ موبائل فون اوررقم اٹھاکراپنے ساتھ کیوں لے گیا۔ایک قومی اخبارمیں شائع ہونے والی اسی رپورٹ کے مطابق کچھ حالات اوربھی ایسے ہیں جن سے معاملات مزیدمشکوک نظرآتے ہیں ۔پرآسائش زندگی گزارنے کی عادی قندیل بلوچ کی لاش جس کمرے چارپائی پرپائی گئی وہاں کوئی اے سی نہیں تھا۔صرف ایک پنکھالگاہواتھا ۔ اس گھرمیں کوئی اعلیٰ فرنیچرموجودہے نہ کوئی گاڑی ۔ یہ بھی معلوم ہواہے کہ اس کے بھائیوں کااس کے ساتھ پیسوں کے لین دین پرجھگڑابھی رہتاتھا۔ایک اورقومی اخبارکی رپورٹ کچھ یوں ہے کہ مختلف ذرائع سے اس امرکاانکشاف ہوا ہے کہ ماڈل قندیل بلوچ کاقتل غیرت کالبادہ اوڑھ کرٹارگٹ کلنگ کی گئی ہے۔مذکورہ قتل میں قندیل کے بھائی وسیم کے ہمراہ اس کے تین اوررشتہ دارنوجوان بھی شامل ہیں۔مذکورہ نوجوانوں کومکمل منصوبہ بندی کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کیلئے آمادہ کرکے واردات سے قبل ماہڑہ خاندان اورمقتولہ کے اہل خانہ کے افرادکوغیرت کے نام پراکسانے اورقتل کے بعدقانونی پہلوؤں سے استفادہ کرکے قاتلوں کوبچانے کے بارے میں بھی بیان کیاگیا۔اس تمام صورت حال میں چاروں نوجوانوں نے غیرت کے نام پرقتل کاموقف خاندان میں پھیلانے کی ذمہ داریاں اداکی ہیں۔قاتل بھائی وسیم نے بھی غیرت کے نام پرقتل کرنے کااعتراف کیا ہے۔یہ قتل ٹارگٹ کلنگ ہی ہے توبھائی کے ہاتھوں کیوں ہوا ہے۔غیرت کے نام پرتوبھائی، والد، چچا، بہن، والدہ ، شوہر یادیگررشتہ دارتوقتل کرتے ہیں ۔ ٹارگٹ کلنگ بھی اب رشتہ دارکرنے لگے ہیں وہ بھی بھائی۔

ماڈل قندیل بلوچ کاقتل غیرت کے نام پرہوا ہے یایہ ٹارگٹ کلنگ ہے۔یہ توپولیس کی تفتیش کے بعد واضح ہوجائے گا۔ قندیل بلوچ کے قتل کی توسب مذمت کررہے ہیں اورمذمت کرنی چاہیے۔ٹارگٹ کلنگ یاغیرت کے نام پرقتل کرنے کی اسلام اورملکی قوانین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ان دونون عوامل کے ساتھ ساتھ ہمیں قتل کے پہلوؤں اورعوامل کوبھی دیکھناہوگا۔ویسے توقندیل بلوچ کاقاتل اس کابھائی ہے جس نے اعتراف بھی کرلیا ہے۔غورکیاجائے تواس قتل کے ذمہ دارمقتولہ کے والدین، معاشرہ اورمیڈیابھی ہیں۔مقتولہ نے تین شادیاں پہلے کی ہوئی تھیں۔ اس نے عمران خان اورمفتی عبدالقوی کوبھی شادی کی دعوت دی۔اس کی شادیاں ناکام کیوں ہوئیں۔ یہ تواس کے والدین اوررشتہ دارہی بہتر جانتے ہوں گے۔اب سوال یہ بھی پیداہوتا ہے کہ کیاشادیوں کے ذمہ داراس کے شوہرتھے یاخودقندیل تھی۔ اسی سوال سے منسلک اورسوال یہ بھی ہے کہ شوہرہی ذمہ دارتھے توکیاتینوں شوہرہی ذمہ دارتھے۔شادیوں میں ناکامی کی ذمہ دار مقتولہ تھی تووالدین نے اس کوسمجھانے اورراہ راست پرلانے کی کوشش کی تھی یانہیں۔جس معاشرہ میں عورت کومعصوم اورمردکومجرم ظاہرکیاجائے وہاں شادیوں کی ناکامی اورگھروں کااجڑناحیرت کی بات نہیں ہوتی بلکہ توقع کے عین مطابق ہوتا ہے۔جب مقتولہ کی کوئی شادی کامیاب نہیں ہورہی تھی تووالدین نے اس کا تدارک کیوں نہ کیا۔اس کانکاح کرکے اتناکہہ دیتے کہ اب یہ شادی ناکام ہوئی توہم کوئی جوازتسلیم نہیں کریں گے اورہم سے برابھی کوئی نہ ہوگا۔ یہ شادی کبھی بھی ناکام نہ ہوتی۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ جب مقتولہ مفتی قوی کے ساتھ سیلفیاں بنارہی تھی۔اس وقت اس کے والدین اوربھائی کہاں تھے۔مفتی قوی سے ملاقات کیلئے وہ کس کی اجازت سے گئی تھی۔جب یہ معاملہ سامنے آیا تھا تواس کے والدین نے اسے گھرمیں کیوں پابندنہیں کیا۔تاکہ مزیدجگ ہنسائی سے بچاجاسکے۔ ایک قومی اخبارکی خبرکے مطابق سوشل میڈیاپراس کاقابل اعتراض گانابھی اپ لوڈہوا ہے۔گاناگاتے ہوئے گانے والوں اورگانے والیوں کے جومناظردکھائے جاتے ہیں وہ باعزت گھرانادیکھنابھی گوارانہیں کرسکتا۔مقتولہ بھی جب گایاکرتی تھی ۔توکیاوالدین نے اسے روکا تھا۔مان لیاوالدین نے اس کاگھربسانے اور اس کوگاناگانے سی بھی روکاتھا اوروہ ان کی کوئی بات نہیں مان رہی تھی توکیااس سے لاتعلقی کااعلان کیاتھا۔اس کے قاتل بھائی نے میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگوں کے طعنے برداشت نہیں کرسکتاتھا۔قندیل بلوچ کے والدین اوربھائیوں کواس کے گاناگانے اورسیلفیاں بنانے پراعتراض نہیں تھا۔اعتراض ہوتاتو اعلان لاتعلقی ضرورکرتے۔ایسے میں غیرت کے نام پریہ قتل عجوبہ سالگتاہے۔میڈیابھی جب خبرشائع یانشر کرتا ہے تویہ نہیں دیکھتاکہ اس خبرکے معاشرہ پرکیا ا ثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔مفتی قوی کے ساتھ مقتولہ کی سیلفیاں بنائی گئی تھیں۔ وہ میڈیاکوکس نے فراہم کی تھیں۔ قندیل نے خودفراہم کی تھیںیاکسی اورنے۔ قوم میں سیلفیاں بنانے کاجوجنون چڑھاہوا ہے ۔ اس پربھی غورکرناہوگا۔بہت سے سیلفیاں بنانے کے شوقین حادثات کاشکاربھی ہوچکے ہیں۔پھربھی یہ شوق ہے کہ بڑھتاہی جارہا ہے۔اس شوق پربھی سختی سے پابندی لگاناہوگی۔اس قتل کیس سے اسلامی تعلیمات کی اہمیت اوربھی واضح ہوجاتی ہے۔اسلام میں عورت کوپردہ کرنے، چاردیواری میں رہنے اورغیرمحرم سے ملاقات اورباتیں نہ کرنے کاحکم دیاگیا ہے۔دانشور، این جی اوزاورانسانی حقوق کے پرچارکرنے والے توان تعلیمات کوعورت کوگھرمیں قیدکرنے کانام دیتے ہیں۔ حقیقت میں یہ سب تعلیمات عورت کے تحفظ کیلئے ہی ہیں۔عورت جب پردہ میں سفرکرے گی، گھرکی چار دیواری میں رہے گی اورغیرمحرم سے بات نہیں کرے گی تواس کی عزت بھی محفوظ رہے گی اورزندگی بھی۔عورت کے حقوق کاپرچاربھی بہت کیاجاتا ہے اوراس کی حفاظت کیلئے بتائی گئی اسلامی تعلیمات کی مخالفت بھی کی جاتی ہے۔یوں توموت کاوقت، جگہ اورسبب مقرر ہے۔قندیل بلوچ نہ گھرکی چاردیواری میں رہی اورنہ ہی پردہ میں۔ اس نے غیرمحرم سے نہ صرف ملاقات اورباتیں کیں بلکہ اس کے ساتھ سیلفیاں بھی بناڈالیں۔جہاں سے اس کے قتل کے محرکات کاآغازہوتا ہے۔وہ ایسانہ کرتی توشایداسے قتل نہ کیاجاتا۔چلوقندیل بلوچ توماڈرن تھی۔وہ ان تعلیمات پرعمل نہیں کرتی تھی۔مفتی عبدالقوی تواسلامی تعلیمات کواچھی طرح سمجھتے ہیں۔جب سیلفیاں بنائی جارہی تھیں تواس نے قندیل بلوچ کوکیوں نہیں روکا۔اورروکاتھا اورقندیل نے بات ان سنی کردی تومفتی قوی نے عدالت سے رجوع کیوں نہ کیاکہ اس کوبدنام کیاگیا ہے۔اس کی اجازت اوررضامندی کے بغیرسیلفیاں بنائی گئی ہیں۔قندیل بلوچ کے ساتھ مفتی قوی کاکرداربھی مشکوک دکھائی دیتا ہے۔اس کادامن صاف ہوتا تووہ اپنی شخصیت بچانے کیلئے کسی فورم سے ضروررابطہ کرتا اورقندیل کے خلاف ہتک عزت کادعویٰ ضروردائرکرتا۔علماء کوآئندہ محتاط رہناہوگا۔ تاکہ کوئی اورقندیل آکرجگ ہنسائی کاسبب نہ بن جائے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350793 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.