ریاست ہائے جموں و کشمیر کے تاریخی حوالہ
جات پر نظر دوڑائیں تو یہ قریباً 3000 سال قبل مسیح تک ملتےہیں لیکن اگر ہم
وادی کے گزشتہ تین چار صدیوں کے سیاسی حالات پر نظر دوڑائیں تو کشمیر
پرانہی لوگوں کی حکومت نظر آتی ہے جو پنجاب میں برسرِ اقتدار ہوتےہیں۔
1750ء میں جب افغانوں نے مغلوں شکست دے کر پنجاب پر قبضہ کیا تو پنجاب کے
ساتھ ساتھ کشمیر پر بھی قبضہ کر لیا،افغانوں کے ایک لمبے اقتدار کو سکھوں
نے پنجاب میں شکست دے کر ختم کیا تو کشمیر پر بھی سکھوں کی حکومت بر سر
اقتدار آگئی،جب ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کے اقتدار پر قابض ہوئی اور
انگریزوں نے جب پنجاب میں سکھوں کی حکومت کو ختم کیا توپنجاب کے ساتھ ساتھ
کشمیر میں بھی سکھوں کی حکومت کو ختم کردیاگیا، پھر انگریزوں نے1846 ء
مہاراجہ گلاب سنگھ کومحض 75 لاکھ سکوں کے عوض ریاست ہائے جموں و کشمیر کو
فروخت کرنے کا بدنامِ زمانہ ''معاہدہ لاہور''کیا ۔ مختصراً یہ کہ مہاراجہ
گلاب سنگھ کی وفات کے بعد 1858 ء میں پرتاب سنگھ وادی کا حکمران بنا ،1885
ء میں رنبیر سنگھ کے سر وادی کی راجنیتی کا تاج سجا اور اس کے بعد 1925 میں
مہاراجہ ہری سنگھ ریاست میں برسرِ اقتدار آیا ،
ریاست میں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہونے باوجود مہاراجہ کشمیری مسلمانوں کے
ساتھ انتہائی سفاکانہ اور ظالمانہ سلوک روا رکھتا تھا،جس کی وجہ سے ریاستی
مسلمانوں نے مہاراجہ سے آزادی حاصل کرنے کے لیے سیاسی و عسکری جدو جہد
شروع کردی،جس کو بارہا کچل دیا جاتا رہا لیکن جوں ہی ہندوستان تحریک
آزادیء ہند نے زور پکڑا اور ہندوستان کے طول و عرض میں دوقومی نظریے کی
بنیاد کے مضبوط ہونے کی بنا پر ریاست میں بھی آزادی کی تحریک زور پکڑ نے
لگی،قابض ڈوگرہ راج کے خلاف جاری تحریک آزادی میں بھی پنجاب اور کے ،پی،کے
،کے عوام بھی تحریک آزادی میں کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے تھے۔
تحریک آزادی کے دوران 13 جولائی 1931 کو ڈوگرہ راج کی طرف سے ایک غیر
ریاستی مدد گار باشندے کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے احتجاج کرنے والوں پر
ڈوگرہ راج نے گولیاں برسا دیں 22 نہتے کشمیریوں کو شہید کر دیا ۔
کشمیریوں کی پاکستان کےساتھ مذہبی وابستگی ،ارضی الحاق ،جذباتی والہیت اور
محبت انتہائی بے مثل سی ہے کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ کس قسم کی محبت اور
جذباتی وابستگی رکھتے ہیں اس بات اندازہ محض اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ
17 جولائی 1947 کو برطانوی ہاؤس آف لارڈز نے نے ہندوستان کی آزادی کا
قانون پاس کیا اور اس قانون کے تحت تقسیمِ ہند کا جو فارمولہ سامنے آیا اس
کے مطابق کشمیری عوام کو یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں
سے کسی ایک کے ساتھ اپنے الحاق کا فیصلہ کر سکتے ہیں اس قانون کے پاس ہونے
محض دو دن بعد ہی کشمیریوں نے بغیر کوئی وقت ضائع کیے فوری طور پر 19
جولائی 1947 کو سری نگرمیں معروف کشمیری لیڈر شپ،چوہدری حامد اللہ خان،
سردارمحمد ابرہیم خان ، خواجہ غلام الدین وانی اور خواجہ عبد الرحمان وانی
کی صدارت میں مسلم کانفرنس کا تاریخی اجلاس بلایا ۔جس میں کشمیری عوام اور
سیاسی قائدین نے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد کو پاس کیا
۔اور پاکستان کے ساتھ فطری وابستگی اور جذباتی و مذہبی ہم آہنگی کا اظہار
کیا۔ لیکن کشمیری عوام کے اس فیصلے کے برعکس27 اکتوبر 1947 کو وادی میں
ہندوستان نے اپنی فوجیں اتار دیں اورنہتے معصوم کشمیریوں کے خون سے قتل
غارت گری کا بازارگرم کرنا شروع کر دیا۔جس کے خلاف اور اپنے بنیادی حقوق کے
حصول کی خاطر کشمیری عوام گزشتہ سات دھائیوں سے آزادی کی جدو جہد جاری
رکھے ہوئے ہیں، قابض بھارتی مسلح افواج کے روز مرہ کی صعوبتوں ،مشلکلات ،
بربریت اور ظلم و ستم کے باوجود آج تک کشمیری اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں
اور تحریک آزادی کے اس کھیت کی اپنے لہو سے آبیاری کر رہے ہیں۔اب تک
ہزاروں کشمیر ی ارض وطن کے آزادی کی خاطراپنی جانوں کا نظرانہ پیش کر چکے
ہیں ، لاکھوں بچے یتیم ہو چکے ہیں، ہزاروں عورتیں بیوہ کر دگئی ہیں، ان گنت
عفت مآب بیٹوں کی عزت تارتار کی جارہی ہے،ہزاروں نو جوانوں کو افسپا جیسے
انتہائی غیر انسانی ،کالے قوانین کی بھینٹ چڑھا یا جا رہا ہے،
ایک کشمیری ہونےکے ناطے میرے سمیت تمام کشمیری یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر
تقسیم ِہند کا نامکمل ایجنڈہ ہونے کے ساتھ ساتھ نامکمل پاکستان کی تکمیل کا
بنیادی ایجنڈہ بھی ہے جس ایجنڈے کی تکمیل کے بغیر تکمیلِ پاکستان کا خواب
بالکل ادھورا سا دکھائی دیتا ہے۔اور قائد کے تاریخی کلمات کہ '' کشمیر
پاکستان کی شہ رگ ہے'' بھی اسی امر کی وضاحت کر رہے ہیں۔اور عملی طور پر
کشمیری تمام تر مظالم کو سہنے کے باوجود اور ظلم کی ہر روز بدلنے والی صورت
کے خلاف اپنی آوازِ احتجاج بلند کرتے وقت اپنے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم
تھامے زباں پر'' پاکستان زندہ باد'' اور '' پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ اللہ
'' کے نعرےبلند کرتے ہوئےارض پاکستان کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت کا عملی
اظہار کرتےہوئے دکھائی دیتے ہیں۔کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ اپنے الحاق کو
فطری قرار دیتے ہیں ،آج تک کشمیریوں نے کبھی بھی دہلی کے ساتھ نہ تو رمضان
کے روضے رکھے ہیں اور نہ ہی کبھی دہلی کے ساتھ کوئی عید منائی ہے، کشمیریوں
نے ہمیشہ رمضان کے روزے اور عیدین اسلام آباد کے ساتھ منائی ہیں اور اسے
پاکستان کے ساتھ اپنے فطری الحاق کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔
قرار دادِ الحاق پاکستان کے اس تاریخی تناظر میں ہی گزشتہ چند برسوں سے
مسلم کانفرس کی آواز پر پوری دنیا ، لائن آف کنٹرول کے دوطرف بسنے والے
کشمیری ، حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام 19 جولائی کو'' یومِ قرار دادِ
الحاقِ پاکستان'' کے طور پر مناتے ہیں۔آزاد کشمیر ، مقبوضہ کشمیر،
پاکستان، برطانیہ ا،یورپ اور دیگر ممالک میں اس حوالے سے خصوصی تقاریب کا
اہتمام کیا جاتا ہے اور کشمیر کے پاکستان کےساتھ الحاق کی تاریخی قراردوں
کی تائید کی جاتی ہے۔اور اس عزمِ مصمم کاا عادہ کیا جاتا ہے،گزشتہ برسوں کی
طرح اس بار بھی مسلم کانفرس کےریرِ اہتمام اس بار یومِ قراردادِ الحاق
پاکستان کو '' ہفتہ قراردادِ الحاقِ پاکستان ''کے طور پر منایا جا رہا ہے۔
حالانکہ پاکستان کے اندرونی مسائل پر کشمیری گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اوروقت
کی اس ستم ظریفی پر نالاں و نوحہ کناں ہیں۔ پاکستان میں سیاسی و معاشی
حالات میں مسلسل ابتری، حکومتی ایوانوں پر سے عوامی اعتماد کا فقدان ،قیام
پاکستان کو سات دھائیاں گزرنے کے باوجود معاشرتی ہیجانی کیفیت کا تسلسل،عدل
و انصاف کی عدم فراہمی کے معاشرے پر اثرات،ملکی معاشی ترقی پر عالمی
اعشاریوں کا جمود،فوج کے برعکس پاکستانی سیاسی قائدین کی مسئلہ کشمیر سے
عملی پہلو تہی ،مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کمزور خارجہ پالیسی ،امریکہ ومشرق
وسطی اور یورپ اور دیگر مغربی فورمز پر مسئلہ کشمیر کو اس کی روح کے مطابق
اجاگر کرنے میں ناکامی،آزاد کشمیر کا69 سال تک پاکستان کے زیر اثر رہنے کے
باوجود مقبوضہ کشمیر سے مقابلتاً خاطر خواہ ترقی نہ کرنا ،یہ تمام تر ایسے
عوامل ہیں جنہوں نے کہیں نہ کہیں عمدا ًیا سہوا ًکشمیر کاز کو کمزور کیا
ہے۔ان تمام تر مسائل کے ادراک کے باوجود کشمیری پاکستانیوں کی سانس کےساتھ
سانس لیتے ہیں۔اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے شب و روز کمربستہ ہیں۔ |