فتح اللہ گولن کے متنازع نظریات اور طیب اردگان
(Ghulam Nabi Madni, Madina)
ترکی کی حالیہ ناکام فوجی بغاوت کی ذمہ
داری ترکی کے مشہور مذہبی شخصیت فتح اللہ گولن پر عائد کی جارہی ہے۔ترکی کے
صدر طیب اردگان نے اپنے ایک بیان میں نہ صرف فتح اللہ گولن کو کرد باغیوں
کی طرح دہشت گرد قراردیا بلکہ انہوں نے صدرباراک اوباما سے امریکہ میں مقیم
فتح اللہ گولن کی حوالگی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
فتح اللہ گولن 1941ء میں ایک مذہبی گھرانے میں پیداہوئے۔ابتدائی مذہبی
تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔چودہ سال کی عمر میں اپنے والد کی مسجد میں
جمعہ کا خطبہ دینے لگے۔ترکی کے مشہور صوفی بزرگ بدیع الزمان سعید النورسی
سے فتح اللہ گولن بہت متاثر ہیں اور عام طور پر موصوف ان کی فکر کے جانشین
کہلواتے ہیں۔مگر حیران کن طور پر سعید نورسی کے دیگر پیروکار ان کے شدید
مخالف ہیں۔نورسی کے پیروکار ترکی کے سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان جنہوں
نے طیب اردگان ایسا مثالی ہیرہ ترکی کو دیا وہ بھی گولن کے پھیلائے گئے
تعلیمی سکولوں میں بچوں کو پڑھانے سے منع کرتے رہے کہ اگران سکولوں میں
بچوں کو پڑھاؤ گے تو وہ یہود کے کام آئیں گے۔بہرحال گولن 1966 سے ترکی کے
مختلف علاقوں میں امامت کرتے رہے اسی دوران حلقہ دروس کا بھی آغاز کردیا
۔بعدازاں "خدمت"نام سے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی،جس کے تحت تعلیمی
سکولز،ہسپتالز اور دیگر رفاہی کام شروع کیے۔آہستہ آہستہ تعلیمی سکولز کا
جال دیگر ملکوں تک بھی بچھادیا،چنانچہ اس وقت امریکہ سمیت پاکستان میں بھی
گولن تحریک کے یہ سکولز کام کررہےہیں۔ان سکولوں میں ترک میوزک ڈانس وغیرہ
کے ساتھ مخلوط نظام تعلیم کی حوصلہ شکنی تک بھی نہیں کی جاتی۔ابتدا میں
گولن صاحب اردگان کے پرجوش حامی رہے لیکن بعدازاں اپنے مفادات پورے نہ ہونے
کے باعث ان سے الگ ہوگئے۔1999 سے تاحال موصوف امریکہ کی ریاست پنسلوانیا کے
شہر سالس برگ میں400ایکڑ یعنی 3200 کنال کے وسیع محل میں عیش وعشرت کی
زندگی گزاررہے ہیں۔کہاجاتا ہے کہ گولن صاحب کی سالانہ آمدنی 31 بلین ڈالر
ہے۔
عام طور پر پاکستان سمیت دیگر ملکوں کے کچھ لوگ فتح اللہ گولن کو محض مذہبی
عالم سمجھتے ہیں اور ان کے افکار ونظریات کو عین اسلام کے مطابق سمجھ کر ان
کو عین حق پر سمجھتے ہیں اور حالیہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد اردگان کی گولن
سے متعلق سازشی عناصر کی صفائی مہم پر شدید نالاں ہیں۔ہم ذیل میں ان کے چند
متنازع نظریات کا جائزہ لیتے ہیں۔جس سےبآسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ
گولن صاحب اسلام کے نام پر کیا گل کھلارہے ہیں۔
کہتےہیں؛
غیر مسلم کافر کے جسم کا ریشہ ریشہ مسلمان ہوتاہے۔
• فطرت اورانسانیت تخلیق کی دو ایسی کتابیں ہیں جن کے ہر لفظ سے خدا کا
وجود ظاہر ہوتا ہے۔(اناالحق کی شاید جدید شکل ہے یہ)
• مذہبفرد کا ذاتی معاملہ ہے وہ جو چاہےکرے۔(جاوید احمدغامدی صاحب بھی یہی
کہتے ہیں)
(حوالہ:گولن کامضمون "جمہوریت اور اسلام")
• 1998ء عیسائی پوپ سے ملاقات کے بعد کہا کہ یہودی اور عیسائی بھی جنت میں
جائیں گے۔اور قرآن وحدیث میں صرف مسلمانوں کے لیے پیش کردہ جنت کا وعدہ عرب
کے جاہلوں کی محض قرآن میں تحریف ہے(نعوذبااللہ)
یادرہے غامدی صاحب بھی یہودیوں اور عیسائیوں کو جنت کاحقدار کہتے ہیں۔
• گولن کے بقول عیسی علیہ السلام کانزول قرب قیامت جسمانی نہیں ہوگا۔
(حوالہ:مضمون گولن "مکالمہ بین المذاہب")یاد رہے غامدی صاحب بھی نزول عیسی
کے منکرہیں۔
• مومنین غیرمسلم لوگوں کےساتھ اسی طرح کا پیار کریں جو خدا کے ساتھ ہوتا
ہے۔
(ولن کا مضمون "انسان پرستی اور انسانی محبت)
ظاہر بات ہے کافر اور خدائے برحق کے ساتھ کی جانے والی محبت کبھی ایک جیسی
نہیں ہوسکتی۔
• ترکی میں جب حجاب کے خلاف شوروغوغابرپاتھا تب گولن صاحب نے فتوی دیا کہ
حجاب کوئی لازمی چیز نہیں ہے۔
فتح اللہ گولن کے دو تین مضامین پڑھنے کے بعد موصوف کے یہ نظریات سامنے آئے
اگر تفصیل سے پڑھا جائے تو نہ معلوم کیا کچھ سامنے آئے۔اس حقیقت سے قطعا
انکار نہیں کہ موصوف انتہائی محنتی ہیں۔چنانچہ 60 سے زائد کتابوں کے مصف
بھی ہیں۔لیکن افسوس یہ محنت اسلاف سے ہٹ کر من پسند اور متنازعہ نظریات کے
پرچار میں صرف ہورہی ہے۔
عجیب بات یہ ہے ان نظریات کے پرچار میں موصوف ضعیف حتی کہ موضوع روایات تک
بیان کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔
اپنے مضمون میں انسان پرستی کی دلیل میں موضوع حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے
ہیں کہ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ "سارے انسان کنگھی کے دندانوں کی طرح
برابر ہیں"۔حیرت ہے اتنے بڑے"محقق عالم"موضوع روایت کو کیسے رسول اللہ کی
طرف منسوب کرسکتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ترکی سمیت عالم اسلام کے اکثر مسلمان گولن صاحب کو شک
کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔یہ شک اس وقت مزید پختہ ہوجاتا ہے جب امریکہ پچھلے
ڈیڑھ عشرے سے عرب کےمشہور داعی جمہویت اور مکالمہ بین المذاہب کے سرگرم
حامی یوسف القرضاوی پر امریکی داخلے پر پابندی عائد کیے ہوئے ہو اور گولن
صاحب کو کھلے عام سپوٹ کرتا ہو۔ تاریخ بھی یہی کہتی ہے جدت کے نام پر اسلام
کی تشریح کرنے کے لیے جو بھی اٹھا مسلمانوں کی اکثریت نے اسے مسترد کردیا۔
جہاں تک گولن اور اردگان کی باہمی کشمکش کا تعلق ہے وہ اگرچہ کسی حد تک
سیاسی ہوسکتی ہے تاہم یہ حقیقت ہے گولن اپنے خفیہ عزائم کے لیے اردگان کا
کندھا استعمال کرنا چاہتے رہے ناکامی کی صورت ان سے الگ ہوگئے اور درپردہ
سازشیں کرنے لگے۔یہی وجہ ہے ترکی کی سعید نورسی مرحوم کے جانشینوں میں نجم
الدین اربکان،پروفیسر آک غندو سمیت ترکی کی اکثریتی آبادی گولن کو سازشی
سمجھتے ہیں۔
چندماہ پہلے ترکی کے عظیم صوفی بزرگ شیخ عبدالباقی نقشبندی کے بیٹے سے
ملاقات ہوئی اردگان و أوغلو سمیت سیاسی افراد شیخ عبدالباقی سے خصوصی تعلق
رکھتے ہیں۔ان کے وفد میں شامل لوگ گولن کو غدار کہہ رہے تھے۔
بہرحال منصف مسلمانوں کو انصاف کا ساتھ دینا چاہیے اور اسلاف کے سمجھے ہوئے
حقیقی اسلام کے خلاف پیش کیے جانے والے جدت پسندوں کے خفیہ عزائم سے دور
رہنا چاہیے۔
اللہ ہمیں حق کی سمجھ اور ساتھ دینے کی توفیق دے۔ |
|