طاقت کا سر چشمہ عوام

بنیاد مضبوط ہو گی تو جمہور یت مضبو ط ہو گی جمہور یت مضبوط ہو گی تو ملک مضبوط ہو گا اور جمہور یت کی بنیاد عوام لیکن اس کے لیے ضروری ہے عوام کا یقین پختہ ہو کہ اُس کے ملک کے حکمران کرپٹ نہیں ہیں ملک کے ساتھ وفادار ہیں اُن کے حالات زندگی بدلنے کی اہلیت اور اُن کی سُوچ کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مشکل کی ہر گھڑی میں اُن کے ساتھ کھڑئے رہنے کی ہمت اور ملک کو درخشان مستقبل کی طرف لے جانے کا عزم رکھتے ہیں اور ملک کے حکمرانوں کا مرنا جینا اس ملک کے ساتھ ہی وابستہ ہے اور اس ملک کی ناموس کی خاطر مر مٹنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں تو پھر آپ کو اس طرح کے مناظر دیکھنے کو ملیں گے جس طرح آپ نے 15جولائی کی شب اپنی ٹی وی سکرین پر ترکی میں وقوع پذیر ہوتے دیکھے طیب اردوان کو اس مقام تک پہنچنے میں بیس سال لگے کہ اُس کی ایک آواز پر لوگ استنبول ، انقرہ اور ازمیر کی سڑکوں پر اپنا خون بہانے کے لیے تیار ہو گئے طیب اردوان جب 1994میں استنبول کے مئیر بنے تو استنبول کی سڑکیں ٹھوٹی پھوٹی، گلیاں گند سے آٹی ہوئی، پینے کا صاف پانی نایاب ، صحت کی سہولیات نا پید، تعلیم کی حالت نا گفتہ، قانون کی حکمرانی خواب تھی1994سے 1998تک اُنھوں نے استنبول کی ڈویلپمنٹ پر بھر پور توجہ دی جس کی وجہ سے استنبول کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ شہروں میں ہونے لگااُن کی جماعت تین دفعہ اقتدار میں آئی 2002 میں طیب اردوان پہلی دفعہ اور2007 میں دوسری دفعہ وزیر اعظم بنے اس وقت وہ ترکی کے صدر ہے اپنے دور اقتدار میں اُنھوں نے معاشی اصلاحات کی ، بنیادی ضروریات زندگی لوگوں کے دروازئے تک پہنچائی ، دفاع اور خارجہ پالیسی اپنے ملک کے مفادات اور لوگوں کی سُوچ کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائی، مذہبی اور شخصی آزادی دی، مذہب پر عائد کردہ ناجائز پابندیوں کا خاتمہ کیا، قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے پالیسیاں بنائی، تعلیم کا بجٹ دفاعی بجٹ سے زیادہ رکھا،صحت کے مسائل کو کنٹرول کرنے کو اپنی تر جیحات میں سر فہرست رکھا،ڈویلپمنٹ سیکڑ پر بھر پور توجہ دی، سیاحت کو فروغ دینے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے، یورپ کے مرد بیمار کے زرمبادلہ کے ذخائر کو 135 ارب ڈالر سے تجاوز کر وا دیا ،کشکول توڑنے کے خواب کو عملی جامہ پہنایا اور ترکی قرضہ لینے والا نہیں قرضہ دینے والا ملک بن گیا جمہور یت کے ثمرات عام آدمی تک پہنچے تو آپ لوگوں نے وہ انہونی ہوتے دیکھی جو کسی کے خواب خیال میں بھی نہیں تھی پاکستان کی طرح ترکی میں بھی آمریت کا راج رہا 1980,1971,1960اور 1997میں مارئے جانے والے شب خون کی وجہ سے 15 جولائی کی رات کو بھی طاقت کے دوسرئے مرکز کے کچھ لوگوں نے حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی سرکاری ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن اور پر قبضہ کر لیالیکن اس دفعہ قدرت کو کچھ اور منظور تھا طیب اردوان کی ایک آواز پر ترکی کے غیور اور نہتے عوام ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن کو باغیوں سے آزاد کروایااس جنگ و جدل میں دو سو نوئے سے زیادہ لوگوں نے جمہور یت کے لیے خون کا نذرانہ دیاایک سو چار سے زیادہ باغیوں کو نشان عبرت بنایا گیا اور ایک سو بیس سے زیادہ جرنلز اور ایڈمرل کو گرفتار کیا گیا اس بغاوت کے ناکام ہونے پر میری دھرتی پر بھی کچھ لوگوں نے خوشی کے شادیانے بجائے کہ ترکی میں ہونے والی اس ناکام بغاوت کے بعد پاکستان میں بھی اس طرح کی ناپاک خواہشات رکھنے والوں کے حوصلے پست ہو جائے گے اور کچھ لوگوں کے خواب چکنا چوڑ ہو گئے جو دن رات لوگوں کو ایک نئے مسحیا کے خواب دکھا رہے تھے اور اپنی ذہنی گندگی کو عام آدمی کے دماغوں میں ٹھوسنے کی تگ و دو کر رہے تھے اس کے ساتھ ہی سُوشل میڈیا پر بھی ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا کہ اگر اس طرح کے حالات پاکستان میں ہوتے ہیں تو آپ کس طرف کا ساتھ دیں گے آمریت کا یا جمہوریت کا اس بات کا جواب بعد میں پہلے میں آپ کو ماضی میں لے جاتا ہوں1999 میں جب جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ن )کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تو جنرل پرویز مشرف کواپنے اندازوں کے برعکس مسلم لیگ (ن) کے قلعے لاہور میں بھی کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑامیری رہائش اُس وقت میاں نواز شریف کے حلقے این اے 122 میں تھی وہا ں سے لے کر ایم اے او کالج ، انار کلی سے ہوتے ہوئیگورنر ہاوس تک کا سفر میں نے بائیک پر کیالیکن اس طرح لگتا تھا جس طرح کچھ ہوا ہی نہیں نہ عام لوگوں کے لیے دکھ کا مقام اور نہ خوشی کا اظہار اگر کسی جگہ کچھ لوگوں نے خوشیاں بھی منائی تو وہ وہ لوگ تھے جن کی ملک میں خواہ جمہور یت ہو یا آمریت پانچوں انگلیوں ہمیشہ ہی گھی میں ہوتی ہے جنرل مشرف کے دور حکومت میں سیاسی لیڈر بھی ڈر ڈر اور گرفتاری کے خوف سے چھپ چھپ کر لاہور میں سردار ذولفقار کھوسہ کی رہشگا ہ پر اکھٹے ہوتے تھے2005 میں جب میاں شہباز شریف کو لاہور ایئرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا اُس وقت لاہور کی سٹرکوں پر صرف چند سو لوگ تھے خواجہ سعد رفیق کے ساتھ کو ئی پچاس کے قریب لوگ جو نیلا گنبد تک جانے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار ہوئے یا انار کلی میں راجہ محمد افضل خان کے بیٹے راجہ محمد اسد خان اور اُن کے چند ساتھی گرفتار ہوئے باقی تما م فصلی بٹیرئے غائب (سردار ذولفقار کھوسہ اور راجہ محمد فضل خان بھی میاں برادران کی انا کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں) اور اس ملک میں بسنے والے عام لوگوں کو اس بات سے کوئی غرض ہی نہیں تھا کہ کوئی آئے یا جائے اس وقت بھی ملک کے حالات 1999سے مختلف نہیں ہیں لوگ ابھی تک زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم، وہ ہی کرپشن کا شور شرابہ، سیاست اُن ہی مفاد پرستوں کے ٹولے کے نر غے میں، قانون کی حکمرانی کی قلت، امن و امان کی صورتحال تشویشناک، ہمسایہ ممالک سے تعلقات خراب، خارجہ پالیسی عوام کے امنگوں کے بر عکس،وہ ہی لولی لنگڑی جمہوریت اور سیاسی صفوں میں پائی جانے والی بے چینی صرف فرق ہے تو یہ اس وقت فوج کی کمان ایک پروفیشنل انسان کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے ہمیشہ قانون کی حکمرانی کی بات کی ہے اور جمہوریت کوسپورٹ کیا ہے پاک فوج کی اس ملک اور قوم کے لیے جتنی قربانیاں ہے اس کے بعد اس طرح کے حالات پاکستان میں ہو جس طرح کے ترکی میں ہوئے ہیں یہ سُوچنا یا اس پر بحث کرنا صرف وقت کا ضائع ہے اس وقت ویسے بھی ملک جن حالات سے گزر رہا ہے ہم کسی نئے تجربے کے متحمل نہیں ہو سکتے عام آدمی کو اگر کوئی فکر ہے تو صرف اپنے پیٹ کی ہر نیا دن اُس کے لیے ایک نئی آزمائش لے کر ا ٓتا ہے اس لیے اُس کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملک میں آمریت ہے یا جمہوریت اس طرح کے خواب ہم صرف اُس وقت ہی دیکھ سکتے ہیں جب جمہور یت کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنا شروع ہو جائے گے اور جب جمہوریت کے فواہد عام آدمی تک پہنچنا شروع ہو جائے گے تو پھر نہ کسی کو شب خون مارنے کی ہمت ہو گی اور نہ ہی گندگی ذہنیت کے لوگوں کی اس طرح کے نا پاک خیالات لوگوں کے دماغوں میں ٹھونسنے کی مجال۔
Raja Waheed
About the Author: Raja Waheed Read More Articles by Raja Waheed: 20 Articles with 12861 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.