موجودہ نظام جھکڑا ہوا، مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کی گنجائش کم

محمد یوسف تاریگامی کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا(ایم)کے سنیئر لیڈر ہیں۔ وہ وادی کشمیر کے حلقہ انتخاب کولگام سے رکن اسمبلی ہیں۔ موصوف سینٹر آف انڈین ٹریڈیونیز(CITU)جوکہ درجنوں ملازم ومزدور یونین شامل ہیں، کہ جموں وکشمیر سے ریاستی صدر بھی ہیں۔ پہلی مرتبہ انہوں نے 1996میں انتخاب میں کامیابی حاصل کی جس کے بعد مسلسل چوتھی مرتبہ وہ لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ موصوف جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کی متعدد کمیٹیوں کے چیئرمین بھی ہیں۔رکن اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے روزنامہ اڑان کے سنیئر سب ایڈیٹر الطاف حسین جنجوعہ کے ساتھ مختلف موضوعات پر تفصیلی بات چیت کی۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے انٹرویو کے اقتباسات پیش ہیں....
محمد یوسف تاریگامی کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا(ایم)کے سنیئر لیڈر ہیں۔ وہ وادی کشمیر کے حلقہ انتخاب کولگام سے رکن اسمبلی ہیں۔ موصوف سینٹر آف انڈین ٹریڈیونیز(CITU)جوکہ درجنوں ملازم ومزدور یونین شامل ہیں، کہ جموں وکشمیر سے ریاستی صدر بھی ہیں۔ پہلی مرتبہ انہوں نے 1996میں انتخاب میں کامیابی حاصل کی جس کے بعد مسلسل چوتھی مرتبہ وہ لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ موصوف جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کی متعدد کمیٹیوں کے چیئرمین بھی ہیں۔رکن اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے روزنامہ اڑان کے سنیئر سب ایڈیٹر الطاف حسین جنجوعہ کے ساتھ مختلف موضوعات پر تفصیلی بات چیت کی۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے انٹرویو کے اقتباسات پیش ہیں....

سوال: ملک بھر میں ’عدم رواداری‘پر بحث جاری ہے، آپ کیا اس ضمن میں کیا کہنا ہے؟
جواب: اس وقت ملک بھر میں جوہورہا ہے وہ ٹھیک نہیں۔ ’عدم رواداری ‘کے حوالہ سے ملک بھر میں جورہا ہے اس کے نتائج جموں وکشمیر میں بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ آج مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی قیادت والی سرکار ہے جبکہ جموں وکشمیر میں پی ڈی پی اس کی اتحادی پارٹنر ہے۔ بی جے پی کا اصلی سرچشمہ آر ایس ایس ہے۔ مرکزی وریاستی سرکار کو سنگھ پریوار ہر معاملہ پر Dictateکر رہا ہے جوکہ ملک کو ’ہندو راشٹر‘میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ہندوستان کثیر للسانی، کثیر مذاہب اور مختلف تہذیب وتمدن کا ملک ہے، یہاں پر بہت کچھ مختلف ہے ، جس سے ملک کوکافی چیلنجز ہیں۔ یہاں تنوع میں ہی اتحاد ہے اور یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب ہم سیکولر رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے آئین کی بنیاد سیکولر ازم پر مبنی ہے لیکن اس کو ہندو راشٹر بنانے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں۔ آر ایس ایس نے ہمیشہ خود کو کلچرل نیشنل ازم کے طور پیش کیا ہے جوکہ گاندھی ودیگران کے سیکولر نیشنل ازم کے بالکل متضاد ہے۔ آر ایس ایس اپنے نظریہ کو ملک بھر میں پھیلانا چاہتی ہے ۔ہندوستانی عوام کے کلچر اور ضمیر کو تبدیل کرنے پر تلی ہے ۔ یہ ہندو کو اس طرح متحد نہیں کرنا چاہتی جیسے وہ ہیں بلکہ وہ نئے طریقہ سے ہندوشناخت کی وضاحت کر کے ایسا کر رہی ہے۔ میڈیا، سکول کی نصابی کتابوں ، میڈیا، تحقیقی اداروں اور اعلیٰ تعلیمی مراکز پر اپنی آئیڈیالوجی مسلط کرنا اس کا برسوں سے مقصد رہا ہے جس کو اب بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پورا کیاجارہاہے۔ آر ایس ایس کو سرکار ی طور جوبھی مواد ووسائل چاہئے تھے و ہ اب آسانی سے دستیاب ہیں جس سے وہ (آر ایس ایس )اپنی آئیڈیالوجی کو نظام کا حصہ بنارہی ہے۔

سوال:موجودہ صورتحال میں آپ بھاجپا کاپی ڈی پی کے ساتھ اتحاد کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب:وزیر اعلیٰ یہ کہہ کر کہ ہم (بی جے پی ، پی ڈی پی )یکجا ہیں،وزیر اعظم ہند نریندر مودی کی تعریف کر رہے ہیں کیونکہ وزیر اعظم کا نظریہ ایسا نہیں ہے۔ وہ آر ایس آیس آئیڈیالوجی پر ہی یقین رکھتے ہیں جن کا ایجنڈہ صرف تقسیم کرنا ہے۔ آج آر ایس ایس کا مقصد ہندوستان کی سیکولر شناخت کو ہندو آئیڈیالوجی میں تبدیل کرنا ہے۔ ایک سنیئر کابینہ ممبر(حسیب درابو)نے بی جے پی کے ساتھ پارٹی الائنس کو ہندوستان کے نئے آئیڈیا کے ساتھ ایک تجربہ قرار دیا ہے۔ لیکن وہ ’ہندوستان کا آئیڈیا‘کیا ہے ۔ اس آئیڈیا ہندوقوم پرستی ہے جیسا آر ایس ایس چاہتی ہے۔

سوال:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ’ایوارڈز کی واپسی ‘سیاسی ہے؟
جواب:نہیں ہرگز نہیں۔ یہ سیاسی نہیں۔ جب ایوارڈز واپس کئے جارہے ہیں تو اس کامطلب ہے کہ لڑائی ختم نہیں ہوئی۔ مختلف حلقوں بشمول کلچرل تنظیموں، مصنفوں، فنکاروں، ماہرین تعلیم، سائنسدانوں، فلمکاروں اور میڈیا کے چند باضمیر افراد کی طرف سے کی جانے والی مخالفت سے امیدیں ابھی باقی ہیں۔ ایوارڈز کی واپسی کوئی معمولی بات نہیں ، یہ ایک حساس معاملہ ہے ۔ ایسا پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ بہت کچھ غلط ہورہا ہے کہ نوبت ایوارڈز واپسی تک آ پہنچی ہے۔

سوال:آپ کی نظر میں مسئلہ کشمیرکے حل کا کیا راستہ ہے؟
جواب:جب ہم مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے نئے اقدامات کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ایک ایسا مسئلہ جس کا پر امن حل لازمی ہے ، کا یقینی طور کوئی تیار شدہ یا آسان حل نہیں ہوسکتا۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ ہوگیا ہے کہ اس کے حل کے لئے سازگار ماحول تیار کرنا بھی بہت بڑی کامیابی ہوسکتی ہے۔ جو اس کا شارٹ کٹ حل چاہتے ہیں، انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ مسئلہ کا حتمی حل اور سازگار ماحول تیار کرنا کوئی متضاد نہیں بلکہ ایکدوسرے کے ہم پلہ ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کی جب ہم بات کرتے ہیں تو منقسم جموں وکشمیر کے آر پر تنوع کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی سے اس پیچیدہ مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ اس سے تقسیم ہونے کے بجائے ریاستی عوام متحد ہوگی۔ کوئی بھی تقسیمی فارمولہ عوام کو قابل قبول نہیں ہوگا ۔میرا ماننا ہے کہ کشمیر مسئلہ کا حل منقسم جموں وکشمیر کے لوگوں کے وسیع تررائے سے ہی ممکن ہے اور اس عمل میں ہندوستان اور پاکستان حکومتوں کا اہم رول ہے۔

سوال :کیاوجہ ہے کہ ملک خاص کرجموں وکشمیر ریاست میں محنت کش طبقہ سے وابستہ قوانین کی عمل آوری نہیں ہورہی؟
جواب:ہماری شروع سے یہ مانگ رہی ہے کہ مزدور طبقہ کو تحفظ فراہم کرنے والے تمام قوانین کی مناسب طریقہ سے عمل آوری ہو لیکن دنیا بھر اور ہندوستان میں مزدوروں کی طویل جدوجہد کے بعد جو بھی قوانین بنائے گئے ان کی عمل آوری نہیں ہورہی ۔ ہمیشہ برسر اقتدار حکومتوں کامزدور مخالف ہی رویہ رہا ہے۔ سرکاریں ہمیشہ قوانین کو عملانے میں بہانے ڈھونڈتی رہی ہیں۔اول توجو بھی قوانین مزدوروں کے لئے بنے ،ان کی مناسب عمل آوری نہیں ہورہی۔ دوم انہیں قوانین کو بدلا جارہاہے جو مزدوروں طبقہ پر زبردست حملہ ہے۔کئی سرکاروں نے اصلاحات کے نام پر سرمایہ داروں، بڑے کارپوریٹ گھرانوں کو فائیدہ پہنچانے کے لئے ان قوانین میں کئی مزدور مخالف ترامیم لائی ہیں۔ مزدوروں کو یونین بنانے کا حق ہے دنیابھر میں طویل جدوجہد کے بعد ملا تھا، وہ بھی مختلف ترامیم کے ذریعہ چھینا جارہاہے۔ ان یونین کو بھی سرمایہ داروں کے رحم وکرم پرچھوڑنے کی پوری کوششیں کی جارہی ہیں۔ رواں برس2ستمبر کو اس سلسلہ میں ملک گیر ہڑتال بھی ہوئی۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ملک وجموں وکشمیر ریاست میں تمام مزدور /محنت کش طبقہ کی یونین متحد ہوکر بڑھتے ہوئے خطرہ کو روکیں۔ میں نے گذشتہ19برسوں سے بطور رکن قانون ساز اسمبلی اس کے لئے بڑی جدوجہد کی۔ اسمبلی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ میں نے مزدور طبقہ کے خلاف ظلم وستم، ان کے ساتھ ہورہی نا انصافیوں کی آواز بلند کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ہمیشہ مزدوروں کے مفادات کے تحفظ کے تئیں حکومت کی توجہ مبذول کرائی اور آئندہ بھی یہ سلسلہ اس شدومد سے جاری رہے گا۔
سوال :مزدور/محنت کش طبقہ کے حقوق کی پاسداری کے لئے آپ کتنے کامیاب رہے؟
جواب:گذشتہ 19برسوں سے بطور رکن اسمبلی اور اس سے قبل بھی مزدوروں کے ساتھ ہورہی نا انصافیوں کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ مزدوروں کو ان کا حق دلانے کے لئے بہت جہدوجہد کی۔ متعدد ایجی ٹیشن، احتجاجے دھرنے، ریلیوں کی قیادت کی، پولیس وسرکار ی مشینری کے ظلم وجبر کا سامنا کیا، مزدوروں کی صفحوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی جس سے کافی جدوجہد کارگر بھی ثابت ہوئی۔ میری ذاتی کوششیں بھی ،مزدور طبقہ کے متحد ہونے سے کامیاب ہوسکتی ہیں، آج تک جو کیا اس سے اطمینان ہے اور آئندہ بھی جہاں کہیں بھی کوئی بھی نا انصافی ، ظلم وستم ہوگا میں اس کے خلاف آواز بلند کرتارہوں گا ۔ میں اس کو اپنا فرض سمجھتا ہوں اور اس کاوعدہ بند ہوں۔

سوال : ریاست میں مختلف مقامات پر مزدوروں کے ساتھ ہورہی نا انصافیوں کی کیا وجوہات ہیں؟
جواب:میں سمجھتا ہوں کہ یونین کے لیڈروں کو جوحق ادا کرنا چاہئے تھا، وہ نہیں کر پارہے۔ آج جوصورتحال پیدا ہورہی ہے اس کے لئے یونین لیڈران کافی حدتک ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقہ سے انجام نہیں دیا۔ تاریخ شاہد رہی ہے کہ ہمیشہ حکمرانوں نے مزدوروں کے حقو ق سلب کرنے اور ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی ہی جس کے لئے وہ یونین لیڈران کو اپنی گرفت میں کر لیتے ہیں، اور یہی سب کچھ آج ہورہا ہے جس کی وجہ سے ایسی صورتحال سے عام مزدور گذر رہا ہے۔ مزدوروں کو چاہئے کہ وہ یونین عہداداران پر انہیں لوگوں کو منتخب کریں جواپنے حقیر ذاتی مفادات کی خاطر کبھی کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔

سوال :کیا یہ سچ ہے کہ گذشتہ 19سالہ کے دوران آپ کو متعدد سرکاروں کی طرف سے حکومت کا حصہ بننے اور اہم وزارتوں کا قلمدان سونپے جانے کی بھی پیشکش کی گئی اگر ہاں تو پھر آپ نے یہ پیشکش قبول کیوں نہیں کی؟
جواب:جی ہاں یہ سچ ہے کہ مجھے کئی بار موقعے ملے ۔ مختلف سرکاریں بنیں جنہوں نے وزارت کی پیشکش کی لیکن کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ) کی اپنی ایک پوزیشن ہے ۔پارٹی کے اندر بھی اس معاملہ پر کئی مرتبہ تفصیلی بحث وتمحیص ہوئی لیکن ہم نے ابھی تک مناسب یہی سمجھا کہ اپوزیشن کا حصہ رہ کر ہی پوری طاقت کے ساتھ لوگوں کی وکالت کی جائے کیونکہ اقتدار میں رہ کر آپ کھل کر کام نہیں کرسکتے اور بہت ساریں چیزیں رکاوٹ بننا شروع ہوجاتی ہیں۔ میں شکرگذار ہوں عوام کا جنہوں نے مجھے اپنی وکالت کرنے کا باربار موقع فراہم کریں۔ہمارا ماننا ہے کہ منظم ہوکر ہی لوگ اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں، عوامی جدوجہد لازمی ہے، اسی سے انہیں راحت مل سکتی ہے، یہ میری خوش نصیبی ہوگی کہ اگر مجھے عوامی جدوجہد کے کارواں میں جگہ ملے۔

سوال :کیاآپ یہ نہیں سمجھتے کہ حکومت کا حصہ بن کرمزدورطبقہ کی بہتر خدمت کی جاسکتی تھی؟
جواب:اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سسٹم کے اندر آکر کچھ کیاجاسکتا ہے لیکن موجودہ نظام میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ موجودہ نظام اس قدر جھکڑا ہواکہ اس کا حصہ بن کر بھی کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ اس نظام میں مزدور پیشہ طبقہ کے تحفظ اور ان کے حقوق کی پاسداری کی بہت کم گنجائش رہی ہے۔ یہاں عوام کو کم ہی راحت مل سکتی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ عوام کو متبادل راستے ڈھونڈنا ہونگے۔

سوال :متبادل راستہ کیا ہے؟
جواب:متبادل راستہ سے میری مراد، ایک ایسا نظام جہاں لوٹ کھسوٹ نہ ہو، جہاں انسان کی عظمت کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھاجائے ،انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو، جہاںمحنت اہل زر کے سامنے گروہی نہ ہو۔ ایسا نظام ممکن ہے ۔دنیابھر میں سرمایہ دارانہ نظام کےخلاف تحریکیں ابھرتی رہی ہیںاوریہاں کی عوام کو بھی ان تحریکوں کا حصہ بن کر اپنے مستقبل کو سنوارنا ہوگالیکن ایک بات کا خیال رکھاجائے کہ یہ راستہ آسان نہیں،یہ طویل اور چیلنجوں سے بھری پڑی ہے۔ عقیدہ، ذات، پات، رنگ ونسل کو پھوٹ پرستی کے لئے موثر ہتھیار کے طور استعمال کیاجاتارہے۔ متبادل راستہ کے لئے عوامی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے ایسی استحصال طبقوں سے بچ کر رہنا ہوگا۔

سوال :2014کے اسمبلی انتخابات کے بعد چند ایسے افراد بطور رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں کہ جوکہ عوامی نمائندہ چنے جانے کے بعد چند غیر ذمہ دارانہ حرکتیں کر رہے ہیں اور مختلف معاملات چاہئے وہ فرقہ وارانہ ہوں یا علاقائی، کی بنیاد پر عوام کو اکسانے کی کوشش کی ہے۔ ایک رکن اسمبلی کو کس طرح کا رول ادا کرنا چاہئے؟
جواب :ہماری ریاست حساس رہی ہے۔یہاں مختلف عقائد، رنگ، نسل ، ذات پات اور متعدد زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہیں، میرے خیال میں یہ ہمیں ایک تحفہ کے طور ملا ہے کیونکہ دنیا کے بہت کم ایسے مقامات ہیں جہاں ایسا دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ ایک عظیم اثاثہ ہے جس کوبچا کر رکھنا ہم سب کا فرض ہے تاکہ پوری دنیا انسانیت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، آپسی بھائی چارہ، مذہبی رواداری کادرس یہاں سے حاصل کرے۔ اگر کوئی رکن اسمبلی ایسی کوشش کرتا ہے تو وہ اس اثاثہ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ۔ ایسا کوئی بھی شخص چاہئے وہ رکن اسمبلی ہی کیوں نہ ہو، جو ایسی قوتوں کو شہہ دے جس سے سماج میں پھوٹ پڑے، وہ غیر ذمہ دارنہ رویہ ہے۔ عوام کو اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لئے ایسی کسی بھی چال میں پھنسنا نہیں چاہئے جس سے ہماری صفحوں میں پھوٹ پڑے۔ پھوٹ پرستی حکمرانوں کا پرانا شیوا رہا ہے۔ اپنی سیاسی دکانوں کو چمکانے کے لئے حاکم طبقوں نے ہمیشہ پھوٹ پرستی کو آزمودہ ہتھیار کے طور استعمال کیا ہے جس سے بچ کر رہنا ہوگا، اسی میں عوام کی سلامتی ہے۔

سوال :اکثر دیکھاگیا ہے کہ ایوان قانون سازیہ کا بیشتر وقت ہنگامہ آرائی وشور وشرابہ کی نظر ہوجاتا ہے جس سے عوامی مسائل کو مناسب طریقہ سے اجاگر نہیں کیاجاسکتا۔ ایوان قانون سازیہ میں اجلاس کی موثر کارروائی کے لئے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو کس طرح کا رول ادا کرنا چاہئے؟
جواب:قانون سازیہ جمہوری نظام میں ایک اہم ترین جگہ ہے جہاں پر عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کے علاوہ، عوام کے تئیں حکومت کوجوابدہ بنایاجاسکتا ہے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جموں وکشمیر اسمبلی اور کونسل میں دوران اجلاس بیشتر وقت ہنگامہ آرائی اور شور وشرابہ کی نظر ہوجاتا ہے۔ اجلاس کی کارروائی کو معنی خیز اور موثر بنانے میں حکمران جماعتوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسمبلی ممبران بالخصوص اپوزیشن کو عوامی مسائل ومطالبات کو ابھارنے کا بھر پور موقع فراہم کرے۔ آخر اسمبلی کاکام ہی ہے کہ لوگوں کو درپیش مسائل پر بحث ہو اورسرکار کو جوابدہ بنایاجائے لیکن حکمراں جماعتوں نے کبھی بھی ایسا نہیں چاہا، شاہد یہی وجہ ہے کہ سرکاریں اسمبلی سیشن چلانے کے لئے خوش نہیں۔ جموں وکشمیر ریاست میں قانون سازیہ اجلاس کی مدت بہت کم ہے۔ سرمائی راجدھانی جموں میںچند ہفتے بجٹ اجلاس اور پھر محض خانہ پوری کے لئے چند دن اجلاس چلتا ہے، یہ بھدا مذاق نہیں تو اور کیا ہے....؟۔میرا یہ ماننا ہے اور میں چاہتوں کہ ہر ذی شعور قانون داں کو اس کی تائید کرنی چاہئے کہ سال میںکم سے کم 100 ورکنگ دن اجلاس ہو۔ پارلیمنٹ کے اندر سال میں کتنی بار اجلاس ہوتے ہیں، کم سے کم اسی طرز پر یہاں بھی اجلاس ہوں۔اسمبلی اجلاس کے دوران ہی بڑے سے بڑے مسائل کی گتھیوں کو سلجھایاجاسکتاہے۔ اسمبلی اجلاس کو بوجھ نہیں سمجھانا جانا چاہئے،یہ مناسب نہیں ۔جمہوری نظام حکومت میں عوامی مسائل کا ازالہ اور عوام کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہمار ا فرض ہے۔ اجلاس میں ایک ایک منٹ کا بھر پور اور موثر استعمال کیاجانا چاہئے۔ میری نظر میں شور وشرابہ اور توڑ پھوڑ کوئی موثر آلہ نہیں، ایسا کرنے سے اخبارمیں خبر چھپ سکتی ہے لیکن عوام کے تئیں ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیاجاسکتاہے۔

سوال :کیا وجہ ہے کہ ضابطہ کی دہائی دیکر اکثر اپوزیشن کی تحاریک التوااور قراردادوں وغیرہ کو رد کر دیاجاتا ہے۔
جواب:اسمبلی ایک مقدس جگہ ہے، ایک فورم ہے جہاں ہم ہر مدعے پر بات کر سکتے ہیں۔ آئے دن ہم یہ اعلاج کرتے ہیں یہ ایک جمہوری ادارہ ہے لیکن ہم اس کی اہمیت، افادیت اور اوقات کو کم کر رہے ہیں جوکہ نقصان دہ ہے۔ اس میں گنجائش اور زیادہ وسعت دی جانی چاہئے تاکہ مدعوں پر بحث ہو اور مسائل کا حل ڈھونڈا جاسکا۔میرا یہ ماننا ہے کہ ضابطہ اور فروحی تحاویلات کے ذریعہ سرکاوں نے ہمیشہ حزب اختلاف کی تحاریک التو، قراردادوں اور تحریکوں کو رد کیا ہے جوکہ ہماری ریاست کے وسیع ترمفادات میں نہیں ٹھیک نہیں۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں بھی یہ جمہوری ادارہ فعال بنے تو پھر پور بحث کی گنجائش ہونی چاہئے۔ بحث سے کترانا ،اپوزیشن کی بات نہ سننا یہ ظاہر کرتا ہے کہ سرکار اپنی کمیوں ،کوتائیوں کوچھانا چاہتی ہے۔ اپوزیشن سے واسبتہ ممبران پر بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دیانتداری، تندہی اور غیر جانبدارانہ طریقہ سے سرکار کی کوتاہوں، غلطیوں کو اجاگر کریں۔ حکمران جماعتوں پر یہ لازمی ہے وہ ان کی کمیوں کا نوٹس لیکر انہیں حل کرے۔ضابطہ کی دہائی دیکر حزب اختلاف کی آوازدبانا ٹھیک نہیں کیونکہ طاقتور ، میعار ی حزب اختلاف جمہوری نظام کے لئے ضروری ہے۔ بہر حال یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی کھو نہ بدلیں تو بلاہم وضع کو کیوں بدلیں ، ہم بھی لڑتے رہیں گے۔

سوال :قانون ساز اسمبلی اور قانون ساز کونسل کے ممبران پر مشتمل متعدد کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں ، تفصیلی رپورٹیں پیش ہوتی ہیںلیکن ان کی گئی سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہوتا....ایسا کیوں؟
جواب:قانون سازیہ کے ایوان بالا اور ایوان زیریں سے وابستہ ممبران پر مشتمل کمیٹیوں کی رپورٹوں کو کوئی اہمیت نہ دینا زنگ آلودہ سسٹم کی عکاسی ہے۔ اس سے اراکین قانون سازیہ کی اہمیت کم ہورہی ہے۔ اگر اراکین قانون سازیہ اہمیت کھوبیٹھیں تو اس سے کس قدر سنگین نتائج نکلیں گے یہ حاکموں کوسوچنا چاہئے۔ آج تک چاہئے حادثاتی ، ماحولیاتی کمیٹی یادگر کمیٹیوں کی رپورٹیں ہوں ان پر کوئی عمل نہیں ہوا۔ حالانکہ سرکار پر یہ لازمی ہے کہ ان کی عمل آوری ہو۔ اس بارے قانون دانوں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایکشن ٹیکن رپورٹ اجلاس میں پیش کی جانی چاہئے۔ اگر اسمبلی کی سفارشات کو بھی لاگو نہ کیاجائے تو عوام کے لئے اس سے بڑا افسوس کیا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکری ہے۔ ہر سیاسی پارٹی جن کا جمہوری نظام پریقین ہے کو چاہئے کہ اپنے چھوٹے مفادات سے اوپر اٹھ کرعوام کے منڈیٹ کا احترام کریں اور قانون سازیہ ادارہ کی عزت ، عظمت اور وقارکی بالادستی کو قائم کیاجائے اور یہ تبھی ممکن ہوگاجب یہاں سے جاری فرمان، احکامات، ہدایات وسفارشات کو سنجیدگی سے لیکر ان پر عمل ہوگا۔

سوال :سیاستدانوں میں وی آئی پی کلچر بارے آپ کی کیارائے ہے؟
جواب:میں تو ’وی آئی پی ‘لفظ کو بھی پسند نہیں کرتا ہوں۔ہمیں لوگوں نے منتخب کر کے ایک رتبہ دیا ہے، ہم عام لوگوں کے خادم ہیں۔ جب ہم خاص بن جاتے ہیں تو لوگوں سے کٹ جاتے ہیں۔ یہ خاص وعام کی دیواریں کو مٹایاجانا چاہئے ۔وی آئی پی کلچرکو ختم کرنے بارے سنجیدگی سے غور کیاجاناچاہئے ۔لوگوں اور منتخب نمائندہ کے درمیان حائل دیوار کوگرانے کی کوشش کی جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سرکاری دفاتر میں سرکاری ملازمین اور افسران کو بھی اس کلچرسے دو کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ آخر عوام کے خاطر ہیں۔ سرکاری دفاتر میں کرپشن، لال فتیہ شاہی، غیر سنجیدگی، لاپرواہی ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ انسداد رشوت ستانی اداروں کو فعال اور موثر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ ان اداروں کے بارے میں بھی کرپشن کی یہ شکایات ہیں۔اراکین قانون سازیہ کوبھی اس طرف سوچنا چاہئے۔ کرپشن معاشرے میں موجود لعنت ہے اس کو قابو میں کرنے کی ضرورت ہے۔ میری عوام کی مختلف تنظیموں، سول سوسائٹی اور دانشور طبقہ سے اپیل ہے کہ وہ اس ناسورکے خلاف موثر آوازبلندکریں ۔ عوامی سطح پر ذور دارتحریک سے ہی کرپشن کی جڑوں کوکمزورکیا جاسکتا ہے۔

سوال :جموں وکشمیر میں سر کار کے بھرتے ادارے جن میں پبلک سروس کمیشن اور جموں وکشمیر سروس سلیکشن ریکروٹمنٹ بورڈ اہم ہیں، کی طرف سے بھرتی عمل کو غیر ضروری طوالت کا شکار بنانے سے تعلیم یافتہ نوجوان سخت پریشان حال ہیں۔ اس میں کیسے بہتری آسکتی ہے؟
جواب:پی ایس ای اور جے کے ایس ایس آر بی کی طرف سے مختلف اسامیوں کوپرکرنے کی کوئی مدت نہ ہونا ایک تشویش کن امر ہے۔ سابقہ سرکار کی طرف سے Subordinate Legislative Committeeکمیٹی بنائی گئی تھی جس کا میں چیئرمین تھا۔ ہم نے سرکارکو سفارشات پیش کی تھیں جن میں سے کچھ پرعمل بھی ہوا لیکن بہت کچھ کیاجانا باقی ہے۔ تحریری امتحانات اور انٹرویو کے حوالہ سے ہمیشہ شکایات رہی ہیں کہ یہ عمل شفاف نہیں ہوتا۔ ہم نے سفارش کی تھی کہ انٹرویونظام کوختم کیاجانا چاہئے،اگر ہوبھی تواس کی ویڈیوگرافی ہونی چاہئے تب جاکر شفافیت، احتساب وجوابدہی لائی جاسکتی ہے۔ بھرتی عمل کو آسان کو بنایاجائے۔ ایسا نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن، کنبہ پروری، خویش پروری ہورہی ہے۔ ان اداروں کو مضبوط بنانے ضرورت ہے تبھی عوام کا اعتمادحاصل کیاجاسکتا ہے۔بھرتی عمل کو آسان بنانا، انٹرویو کی ویڈیو گرافی اور معیاد بند(Time Bound)کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

سوال:ریاست میں آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم کے قیام پر بارے آپ کا کیا موقف ہے؟
جواب:میں جموں اور کشمیر میں آل انڈیا انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز (AIIMS)کے قیام کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ اس سے یقینی طور جموں وکشمیر کے موجودہ صحت ڈھانچہ میں بہتری آئے گی تاہم ریاست کی یکساں ترقی کو یقینی بنانے کے لئے کشمیر میں بھی آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم اور آئی آئی ایم سی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف اس لئے ہی ضروری نہیں کہ امتیازی سلوک بارے اٹھ کررہی آوازیں بند ہوں بلکہ شفاف صنعتی ترقی کے لئے ریاست میں کوالیفائیڈتکنیکی اور منیجریل سٹاف اور مطلوبہ تحقیقی وترقیاتی ماحول تیار ہو۔
Altaf Hussain Janjua
About the Author: Altaf Hussain Janjua Read More Articles by Altaf Hussain Janjua: 11 Articles with 5753 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.