عمران خان ایک ایماندار سیاسی لیڈر جنہیں تربیت یافتہ سیاسی تنظیم کی ضرورت ہے
(Dr. Muhammad Javed, Dubai)
عمران خان صاحب کو فیصلہ کرنا چاہئے کہ یا تو سرمایہ لگا کر چوروں کا ایک گروہ اکٹھا کر کے اسے اسمبلی میں بٹھانا ہے اوراسی کرپٹ سیاسی نظام کا حصہ بننا ہے۔یا ملک کے نوجوانوں کو صحیح سیاسی تربیت فراہم کر کے اس کرپٹ سیاسی کلچر اور میکنزم کو توڑنے کی کوشش کرنی ہے جس کی بنیاد پہ امیدواروں کو خرید کر الیکشن جیتے جاتے ہیں اور قوم کو ایک ایسی باشعورنوجوان قیادت فراہم کرنی ہے، جو آپ کے بعد بھی حقیقی جمہوری قدروں کی آبیاری کرنے والی اور عدل و انصاف کے نظرئیے پہ سیاست کی روایت کو زندہ رکھنے والی ہو۔
ٰآ |
|
|
Imran tells students secrets of becoming a good leader |
|
عمران خان ایک کھلاڑی تھے جنہوں نے کرکٹ کے
میدانوں میں اپنی صلاحیت کے جوہر دکھائے، کھیل، کھلاڑی کو نہ صرف جسمانی
صحت مند بناتا ہے بلکہ اس کے اندر ایک نظم وضبط، مسقتل مزاجی، اپنے نصب
العین کے ساتھ پختگی، بہادری، ہمت وغیرہ جیسے اوصاف بھی پیدا کرتا ہے۔ اور
جب ایک کھلاڑی جب قومی سطح پہ کسی مقابلے کی کپتانی کا فریضہ سر انجام دے
تو یہی اوصاف اس کے اندر بدرجہ اتم پیدا ہوتے ہیں۔اس کا اندازہ اس کی
کامیابیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
کھیل جہاں ایک طرح کی نفسیاتی تربیت کا ذریعہ ہے وہاں ایک سطح کی سیاسی
حکمت عملی بھی سکھاتا ہے، خاص طور پہ جب ایک کھلاڑی کپتانی کے فرائض سر
انجام دیتا ہے، وہ اپنے ماتحت کھلاڑیوں کو منظم رکھنے کے لئے حکمت عملی
اپناتا ہے، کھیل کے دوران مخالف ٹیم کی حکمت عملی کو سمجھ کر اپنے کھلاڑیوں
کو اس کے خلاف اس طرح استعمال میں لاتا ہے کہ مخالف ٹیم کی تمام چالیں
ناکام ہو جاتی ہیں،مختلف مزاج رکھنے والے کھلاڑیوں کو ایک مقصد پہ اکٹھا
کرنا اور انہیں ساتھ لے کر چلنا، اور ہر طرح کے حالات میں انہیں جوڑ کر
رکھنا یقیناً یہ ایک کامیاب سیاسی حکمت عملی ہی کہلائے گی۔
’’دراصل سیاست ایک ایسی حکمت عملی کا نام ہے جس کے تحت آپ کسی بھی سطح کے
اجتماع کو چلاتے ہو‘‘ یہ آپ کی خانگی زندگی بھی ہو سکتی ہے، یعنی گھر کا
نظام، اسی طرح محلے کا نظام، شہر کا نظام، اور پھر آگے چل کر ملک کا
نظام۔یہ دائرے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ہر سطح پہ ایک خاص حکمت عملی سے نظام
کو احسن طریقے سے چلانے کا نام ہی در اصل سیاست ہے۔
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان صاحب نے بھی ایک زمانے میں قومی کرکٹ
ٹیم کی کپتانی کے ذریعے نہ صرف ایک اچھی حکمت عملی کا تجربہ کیا بلکہ ایک
اچھی سیاسی حکمت عملی کے ذریعے اپنی ٹیم سے بڑا کام لیا۔یقیناً ایک کپتان
ہونے کی حیثیت سے ٹیم کو مقابل سے لڑانا یہ ایک بڑی کامیابی ہے لیکن اس سے
پہلے باصلاحیت کھلاڑیوں کا انتخاب اور ان کی مناسب تربیت انتہائی ضروری
ہوتی ہے، جو کامیابیاں کرکٹ کے میدان میں بحیثیت کپتان عمران خان صاحب نے
حاصل کیں، ان کے پیچھے دو اہم پہلو کار فرما تھے ،نمبر ایک بہترین کھلاڑیوں
کا انتخاب کا انتخاب، نمبر دو۔ کھلاڑیوں کی بہترین تربیت یا کوچنگ۔ اور پھر
بحیثیت کپتان قیادت کی صلاحیتیں، مہارت، فیصلہ کرنے کی قوت، اور اپنی ٹیم
کو منظم کر کے مخالف کے ساتھ لڑانے کی جرات اور بہادری جیسے اوصاف کامیابی
کی نوید بنے۔ سیاسی میدان میں بھی ان ہی لوازمات یعنی ایک’’قابل ٹیم اور اس
کی تربیت‘‘ کی ضرورت تھی، جنہیں اختیار کر کے ایک واقعی مثبت تبدیلی معاشرے
میں لائی جا سکتی تھی۔لیکن اس پہ توجہ نہیں دی گئی۔
ماہرین سیاست کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں سیاسی تبدیلی کے لئے چار
اجزاء ناگزیر ہوتے ہیں، ان کو عمل میں لائے بغیرکوئی تبدیلی نہیں لائی جا
سکتی۔
سب سے پہلا جز جو کسی سیاسی تبدیلی کے لئے ضروری ہوتا ہے وہ نظریہ یا واضح
نصب العین ہے، بغیر نظریہ اور نصب العین کے کوئی تحریک یا تنظیم قائم نہیں
کی جا سکتی۔ نظریہ یا نصب العین سے مراد یہ ہے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟کس
طرح کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں؟کیا صرف سیاسی نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں؟یا
مکمل ریاستی نظام تبدیل کر کے انقلاب لانا چاہتے ہیں؟ کیا جزوی اور اصلا حی
تبدیلی چاہتے ہیں؟کیا صرف کسی ایک شخصیت کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں؟کیا
مکمل سماجی تبدیلی چاہتے ہیں؟ یا اپنے خاندان کے اثاثوں اور اپنی کرپشن کے
تحفظ کے لئے حکومت حاصل کرنا چاہتے ہیں؟وغیرہ وغیرہ دراصل نصب العین ہی سے
کسی شخصیت یا پارٹی کے مقاصد کا پتہ چلتا ہے۔اب جس طرح کا نصب العین ہو گا
اب ضروری ہے کہ اس کے مطابق اس سطح کی تیاری بھی ضروری ہے۔نصب العین جتنا
اعلیٰ ہو گا اس کے لئے اسی سطح کی تیاری بھی ناگزیر ہوتی ہے۔مثال کے طور پہ
اگر کسی سیاسی گروہ یا شخصیت کا نصب العین صرف اپنے خاندانی اثاثے بنانے ،
بچانے ہیں اور ملکی سیاست میں دخیل رہ کر ان اثاثوں کی ترقی و تحفظ کرنا ہے
اور سیاست کرنے کا مقصد فقط مالی منعفت اور اقتدار میں رہنا ہے۔تو یقیناً
اس کی حکمت عملی اس سے قطعاً مختلف ہو گی جس کا نصب العین ملکی سیاسی و
معاشی نظام کو عادلانہ بنیادوں پہ استوار کر کے عوام کو ترقی اور خوشحالی
کے راستے پہ ڈالنا ہے، ملکی معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔
دوسراجز ہے، تنظیم سازی، دنیائے انسانیت کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ کوئی
بھی تبدیلی بغیر تنظیم کے نئی آئی۔بڑی سے بڑی، قابل سے قابل شخصیات کو بھی
رفقاء کار کی ضرورت پڑی ہے، ہمارے ہاں ہیرو ازم کے تصور نے اجتماعی جدو جہد
کے تصور کو نقصان پہنچایا ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ شخصیت جس قدر عظیم اور بڑی
ہوتی ہے وہ اپنی جماعت اور تنظیم کی طاقت سے ہوتی ہے، کوئی فرد واحد کبھی
اکیلا تبدیلی نہیں لا سکتا۔لہذا جب کوئی شخص ایماندار ہے، مخلص ہے، حب
الوطنی کا جذبہ اس میں بدرجہ اتم موجود ہے ،علم وہنر کا ماہر ہے، اس کا نصب
العین بھی واضح ہے اور اعلیٰ ہے، لیکن اس کے پاس تنظیم موجود نہیں تو وہ
سیاسی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔
تنظیم بنانے کے لئے سب سے بہتر انتخاب معاشرے کا نوجوان طبقہ ہوتا ہے، ایک
سمجھدار اور باشعور لیڈر مخلص اور سمجھدار نوجوانوں کا انتخاب کرتا ہے، ان
کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، ان کی شعوری تربیت کرتا ہے انہیں منظم کرتا ہے،
ان نوجوانوں میں تربیت کے ذریعے قیادت کی صلاحیت پیدا کرتا ہے، انہیں شخصیت
پرست بنانے کی بجائے اجتماعی جدو جہد کا شعور دیتا ہے، انہیں عادلانہ سیاست
کا نظریہ سمجھاتا ہے۔اسی تربیت کے نتیجے میں نوجوانوں کی تنظیم اس قائد کی
طاقت بن جاتی ہے۔
تیسرا جز تربیت ہے،اگر نصب العین اعلیٰ ہے، تو اس کے لئے اعلیٰ تربیت یافتہ
جماعت کی ضرورت ہوتی ہے، مثال کے طور پہ قوم کو ایک عادلانہ معاشی نظام
دینا ہے، ایک شفاف اور عادلانہ سیاسی نظام دینا ہے، ایک عادلانہ عدالتی
نظام دینا ہے، عوام کے مسائل کو سو فیصد حل کرنا ہے،تو اس کے لئے جس تنظیم
یا ٹیم کی ضرورت ہو گی ان میں عادلانہ معاشی، سیاسی، اور عدالتی نظاموں کے
قیام کے لئے قانون سازی کرنے اور ان نظاموں کو مضبوط بنانے اور انکی حفاظت
کرنے کی اہلیت اور صلاحیت ضروری ہے۔اور ان میں سیاسی جدو جہد کے ذریعے
موجودہ فرسودہ نظام کو ختم کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہو نی ضروری ہے۔
یقیناً نئے نظام لانے اور پرانے فرسودہ نظام کو ختم کرنے کی صلاحیت حاصل
کرنے کے لئے تربیت اور نظم وضبط کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس پہ وقت لگتا
ہے،کسی بھی شارٹ کٹ سے یہ صلاحیت حاصل نہیں کی جا سکتی۔مثلاً یہ نہیں ہو
سکتا ہے کہ آپ مالی لالچ، اقتدار کا لالچ دے کر لوگوں کا ایک جم غفیر اکٹھا
کر لیں اور اس کے آپ لیڈر بن جائیں تو اس سے انقلاب آ جائے گا۔ایسا تاریخ
میں کبھی نہیں ہوا۔اس طرح کے مجمعے سیاسی جماعت نہیں بن سکتے ۔اس طرح کے
مجمعے فقط اپنے ذاتی مفادات کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں جب ان کا مفاد پورا ہو
جاتا ہے تو وہ کھسک جاتے ہیں یا کسی دوسرے گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں۔اس کے
مقابلے میں ایک سنجیدہ سیاسی جماعت کے اندر وحدت فکر ہوتی ہے، ان کے اندر
ایک نظم وضبط ہوتا ہے اور اس کے ورکرز ایک دوسرے کے ساتھ یک جان ہو کر ایک
نصب العین کے لئے کام کرتے ہیں،ان کا لیڈر اور وہ ایک ہی نظرئیے کے حامل
ہوتے ہیں،ان کے اندر وحدت عمل ہوتی ہے۔جب ایسی سیاسی جماعت شعوری تربیت کے
ساتھ منظم ہو جاتی ہے تو پھر وہ عوام کی قیادت کرتی ہے اور اسے اپنے ساتھ
ملا کر تبدیلی کے لئے میدان عمل میں آتی ہے۔
چوتھا جز میدان عمل میں آنا ہے یعنی مد مقابل فرسودہ نظام کے خلاف تحریک
شروع کرنا ہے،یہ اہم ترین مرحلہ ہوتا ہے،اگر کسی پارٹی کا نصب العین واضح
ہے، اور اس کے پاس تربیت یافتہ تنظیم موجود ہے،تو وہ اس مرحلے میں کامیاب
ہو جاتی ہے۔جس طرح ایک پہلوان کشتی کے میدان میں اس وقت اترتا ہے جب وہ مد
مقابل سے زیادہ بہتر تربیت کے عمل سے گذرتا ہے، بغیر تربیت کے میدان میں
اترنے والے پہلوان کی قسمت میں مار اور شکست کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے۔لہذا
وہ سیاسی جماعت جس نے اپنے کارکنوں کو تربیت کے عمل سے گذارا ہوتا ہے، ان
کی اخلاقی ،سیاسی، شعوری تربیت کے ساتھ ان میں عملی طور پہ نظم و ضبط پیدا
کیا ہوتا ہے وہی جماعت اس تحریکی مرحلے میں سر خرو ہوتی ہے۔ اور تبدیلی
لاتی ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ یہ چار مراحل کسی بھی سیاسی تبدیلی کے لئے
ناگزیر ہوتے ہیں، ان میں سے کسی ایک کی بھی کوتاہی کامیابی کو دور کر دیتی
ہے۔
اب ہم عمران خان صاحب کی سیاسی جدو جہد کی بات کر لیتے ہیں، یقیناً وہ ایک
ایمان دار آدمی ہیں، ان کے اندر جذبہ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے،
انہوں نے اپنے ذاتی اثاثے بنانے کی بجائے خدمت خلق کے راستے کو
چنا،پاکستانی سیاسی افق پہ اگر کوئی کرپشن سے پاک کردار رکھنے والی شخصیت
ہے تو وہ عمران خان ہے،پاکستان میں مثبت سیاسی تبدیلی اور انصاف کے نعرے کے
ساتھ انہوں نے اپنی تحریک کا آغاز کیا، ملک کے طول و عرض میں لوگوں کے
ذہنوں کو متاثر کیا، ملکی دولت لوٹنے والے چوروں کے خلاف آواز بلند کی، بڑے
بڑے جلسے کئے، وغیرہ وغیرہ
لیکن اگر ہم مذکورہ بالا سیاسی تبدیلی کے چار فطری اجزاء یا مراحل کے تناظر
میں ان کی جدو جہد کو اگر پرکھیں تو ہمیں کافی مایوسی ہوتی ہے، مثلا ان کا
نصب العین ہے کہ ملک کے سیاسی کلچر یعنی کرپٹ سیاسی نظام کو بدلا جائے، اس
کے لئے پارلیمنٹ میں تبدیلی لائی جائے اور اس طرح سے ریاست کے دیگر اداروں
کی کار کردگی کو بہتر کیا جائے اور کرپٹ عناصر کا احتساب کیا جائے۔اگرچہ کہ
صرف پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے سے ریاست کے تمام اداروں کی کرپشن کو
ختم نہیں کیا جا سکتا ، لیکن پھر بھی ہم مان لیتے ہیں کہ اس نصب العین کے
ساتھ وہ کم از کم معاشرے میں کرپٹ عناصر کے خلاف ایک تحریک کو لے کر چلنے
کے دعویدار ہیں۔اب نصب العین کے بعد جو سب سے اہم مرحلہ ہے تنظیم سازی کا،
اس حوالے سے’’ تحریک انصاف‘‘ صرف تحریک لگتی ہے تنظیم نہیں لگتی، نوجوانوں
کی شعوری سیاسی تربیت کا کوئی نظام اور انتظام موجود نہیں، نظم و ضبط کا
فقدان موجود ہے، ایسا کوئی میکنزم موجود نہیں جس کے ذریعے معاشرے کے پڑھے
لکھے اور مخلص نوجوانوں کو تربیت کے مراحل سے گزار کر اوپر لایا جائے، ملک
میں موجود قیادت کے بحران کو ختم کرنے کے لئے نئے باصلاحیت نوجوانوں کو
متعارف کروایا جائے، ہمارے معاشرے میں ٹیلینٹ کی کمی نہیں،لیکن نوجوانوں کو
مواقع نہیں دئیے جاتے، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی نسلیں اوپر سے
پارٹیوں پہ سوار ہو جاتی ہیں اور پھر نچلی سطح پہ تمام کارکنوں کو اپنے
گروہی اور ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ عمران خان نوجوان طبقے کے
نمائندے کے طور پہ سامنے آئے تھے، لیکن ان کے ارد گرد نوجوان نظر نہیں آتے،
انہوں نے رفتہ رفتہ نوجوانوں کی بجائے پیشہ ور سیاستدانوں کو اپنا ہمنوا
بنا لیا، انہوں نے نوجوانوں کو اوپر لا کر پالیسی سازی میں شامل کرنے کی
بجائے، انہیں فقط نعروں اور تحریکوں کے لئے استعمال کیا،انہوں نے وہی
روایتی سیاسی حکمت عملی اپنائی جو عرصے سے پاکستانی سیاست میں روا رکھی جا
رہی ہے، انہوں نے اسی کرپٹ نظام میں چلے ہوئے لوگوں کو ٹکٹ دئیے، انہیں
اپنے ساتھ کھڑا کر دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ پڑھا لکھا مخلص نوجوانوں کا طبقہ
ان سے مایوس ہوتا چلا گیا۔اگر واقعی تبدیلی لانی ہے تو پھر نوجوانوں پہ
دھیان دینا پڑے گا، آپ سیٹیں لینے کے لئے، اسمبلی میں پہنچنے کے لئے
نوجوانوں کی تربیت اور انہیں اپنی پالیسی ساز ٹیموں میں شریک کرنے کی حکمت
عملی اختیار کرنی پڑے گی۔آپ قوم کو نوجوانوں کی ایک باصلاحیت ٹیم کی صورت
میں تحفہ دیں ، بجائے اس کے آپ سولو فلائیٹ کے ذریعے معاشرے کے چلے ہوئے
کارتوسوں کو ساتھ لے کر تبدیلی کے خواب دیکھیں، اس سے کچھ حاصل نہیں ہو
گا،آپ کی توانیائیاں اور اخلاص کسی کام نہیں آئے گا۔لیکن اگر آپ نوجوانوں
کو درست تربیت کے نظام میں پرو لیتے ہیں اور انہیں ایک نظریاتی کارکن بناتے
ہیں اور ان کی قیادت پہ بھروسہ کرتے ہیں تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ اس ملک
کا بچہ بچہ آپ کی اس تحریک میں ہو گا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک میں چوروں کا راج ہے اور ایسے چور ، سینہ زور
بھی ہیں،انتہائی ڈھٹائی سے بد قسمت عوام کے اربوں ڈالر لوٹ کے کھا گئے، ملک
کو غیروں کے ہاتھ قرضوں کے عوض گروی رکھ دیا۔اپنی چوری کا دفاع کرنے کے لئے
ملکی وسائل کو دل کھول کر خرچ کر رہے ہیں، افسوسناک صورتحال سے پوری قوم
دوچار ہے، سیاست ایک چور بازاری بن کر رہ گئی ہے، بڑے آرام سے آپ اس ملک کا
اقتدار حاصل کر سکتے ہیں سب سے پہلے آپ کے پاس لوٹ اورحرام کا بے تحاشہ مال
ہو، اور آپ ایک جمہوریت کے نام پہ پارٹی بنا لیں، بھلے اس کا نام اپنے
خاندان یا اپنے ذاتی نام پہ رکھ دیں اس سے لوگوں کو کوئی غرض نہیں، اس
پارٹی کا کوئی بھی مقصد متعین کر لیں،منشور کوئی بھی بنا لیں ہو، اس کا
کوئی بھی ڈھانچہ ہو اس میں کسی بھی طرح کے لوگ ہوں، اس سے کسی کو کوئی غرض
نہیں ہو گی، نہایت آسانی سے آپ چاروں صوبوں کا دورہ فرمائیں ، چونکہ ہر
صوبے کے ہر علاقے میں دیہی و شہری سطح پہ ایسی شخصیات موجود ہیں جو برادری،
قبائلی، لسانی، مذہبی بنیادوں پہ اپنے مال و دولت اور اثر رسوخ کی وجہ سے
ان پڑھ اور جاہل لوگوں کے جم غفیر کی نمائندہ ہیں۔لہذا آپ نے صرف یہ کرنا
ہے کہ ان شخصیات کو مختلف قسم کا لالچ دینا ہے ، ان کے مفادات کے تحفظ کی
گارنٹی دینی ہے، اور اپنے حلقوں میں لوگوں کو خریدنے کے لئے وافر رقم اور
وسائل کا بندو بست کرنا ہے،اور انہیں اپنا ٹکٹ دینا ہے، لوگوں کو اس سے
کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، وہ اپنے سامنے کھڑے امیدوار کو دیکھتے ہیں جوان
کی برادری کا ہے، یا فرقے سے تعلق رکھتا ہے یا انہیں رقم تقسیم کرتا ہے،
لوگوں کی اس سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ جن کو وہ ووٹ دے رہے ہیں
انہوں نے ان کے دئیے ہوئے ٹیکسوں ، قومی دولت اور وسائل کے ساتھ کیا کرنا
ہے، لہذا پورے پاکستان کے چوروں ، کرپٹ اور مافیا سے متعلق افراد کو اپنی
پارٹی کے سائے میں آپس میں شیر وشکر کر دیں۔اس طرح آپ پارلیمنٹ میں اکثریت
حاصل کر کے بڑے آرام سے وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ صرف آپ نے جھوٹی بیان بازی
کرنی ہے، کچھ چیلے ایسے رکھنے ہیں جو میڈیا میں خوب جھوٹ بولیں، جمہوریت کا
راگ صبح و شام الاپیں، پالیسیوں پہ تنقید کرنے والوں کو جمہوریت کا دشمن
کہیں، جو لوٹ کھسوٹ کو بے نقاب کریں انہیں جمہوریت دشمن کہہ کر ان کے خلاف
پرو پیگنڈہ کریں۔تو اس طرح سے بآسانی جمہوری مینڈیٹ حاصل کر کے جمہوریت کا
چیمپئین بنا جا سکتا ہے،اس طرح سے نہ صرف قومی سطح پہ نام نہاد سیکولر،
جمہوریت پسندوں کے ہیرو بھی بن سکتے ہیں اور عالمی سطح سامراجی حلقوں میں
پذیرائی بھی ملے گی۔۔عوام کا نام لیں، جمہوریت کی تعریفیں کریں اور اسی
عوام اور جمہوریت کا بیڑا غرق کرتے رہیں۔یعنی’’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت
بھی نہ گئی‘‘
اب ایسی پارلیمنٹ جب وجود میں آ جاتی ہے تو اس کا کیا منظر ہوتا ہے وہ
ہماری اسمبلیوں کو دیکھا جا سکتا ہے، قانون سازی تو دور کی بات ہے، معزز
اراکین اسمبلی جانا بھی گوارا نہیں کرتے سوائے اس سیشن کے جس میں ان کی
مراعات کا بل پاس ہونا ہوتا ہے۔قوم کو اس کا نہ تو شعور ہے اور نہ اس کا
لینا دینا کیونکہ جس طرح ووٹ لئے گئے اور جس طرح دئیے گئے اس سے اسی طرح کی
اسمبلی وجود میں آنی ہوتی ہے۔چوروں کا ایک جم غفیر اسمبلی کے اندر ہوتا ہے
اور ایک دوسرا گروہ بھی چوروں کا ہوتا ہے جو اسمبلی کے باہر ہوتا ہے، کبھی
کبھی یہ اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں،نورا کشی بھی کرتے ہیں، اب ان دونوں
چور گروہوں میں مقابلہ سرمایہ کا ہوتا ہے جو زیادہ سرمایہ امیدواروں پہ
لگاتا ہے وہی کامیابی پاتا ہے۔
تو اس طرح کی فضا میں عمران خان صاحب کو فیصلہ کرنا چاہئے کہ یا تو سرمایہ
لگا کر چوروں کا ایک گروہ اکٹھا کر کے اسے اسمبلی میں بٹھانا ہے اوراسی
کرپٹ سیاسی نظام کا حصہ بننا ہے۔یا ملک کے نوجوانوں کو صحیح سیاسی تربیت
فراہم کر کے اس کرپٹ سیاسی کلچر اور میکنزم کو توڑنے کی کوشش کرنی ہے جس کی
بنیاد پہ امیدواروں کو خرید کر الیکشن جیتے جاتے ہیں اور قوم کو ایک ایسی
باشعورنوجوان قیادت فراہم کرنی ہے، جو آپ کے بعد بھی حقیقی جمہوری قدروں کی
آبیاری کرنے والی اور عدل و انصاف کے نظرئیے پہ سیاست کی روایت کو زندہ
رکھنے والی ہو۔ |
|