اسلامی ترکی پر کمال اتاترک کی سیکولر ذہنیت کا راج
(Mufti Muhammad Waqas Rafi, )
استنبول جسے برسوں خلافت عثمانیہ کے پایۂ
تخت ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے،تقریباً پانچ صدیوں تک پورے عالم اسلام
پربلا شرکت غیرے حکومت کرتا رہا ۔ اس نے یورپ اور مغرب سے اٹھنے والی بہت
سی خطرناک آندھیوں کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا اور علمی اور فکری دونوں
میدانواں میں بہت ساری ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں ۔ اسلامی علوم و
فنون کے ان گنت نامور فضلاء کے علاوہ فن تعمیر کے زینان جیسے ماہرین نے
یہیں رہ کر اپنے جوہر دکھلائے ۔ جن کی تین سو ساٹھ یادگاریں آج بھی ترکی
میں موجود ہیں ۔ پریس کا پہلاموجد ابراہیم متفرقہ نامی یہیں پیدا ہوا ،
اوراس کی بدولت دنیا پہلی بار مطبوعہ کتابوں سے روشناس ہوئی ۔ فضاء میں
اڑنے کا سب سے پہلا کامیاب تجربہ استنبول ہی کے ایک باشندے خدافین احمد
نامی نے سترھویں صدی کے آغاز میں کیا تھا ۔ اس کے بنائے ہوئے چمڑے کے پر آج
بھی استنبول کے مشہور برج غلاطہ میں معلق ہیں ، جن کے ذریعے اس نے انسانی
تاریخ میں پہلی مرتبہ آٹھ میل (یعنی تقریباً گیارہ ساڑھے گیارہ کلو میٹر کم
و بیش) دور تک کا سفر کیا تھا ۔
غرضیکہ خلافت عثمانیہ مدتوں سیاسی جاہ و جلال اور علمی و تہذیبی سرگرمیوں
کا مرکز بنی رہی ، تاآنکہ انیسویں صدی کے اواخر میں جب وہ نیم جان ہوکر رہ
گئی تو اس وقت تازہ دم ولولوں سے معمور مغربی تہذیب اس کے مقابلے میں آکھڑی
ہوئی ۔ اس کے ساتھ اس وقت جو صنعتی اور فکری طاقت تھی اس سے عہدہ برآ ہونے
کے لئے بڑی خود اعتمادی ، انتہائی متوازن فکر اور فکری و عملی جرأت درکار
تھی ، جو اس وقت میسر نہ آسکی ، جس کے نتیجے میں ترکی کی قیادت افراط و
تفریط کی دو انتہاؤں میں ڈھلک گئی۔لیکن اس آخری دور میں بھی خلافت عثمانیہ
اپنی ہزار کمزوریوں کے باوجود پورے عالم اسلام کے لئے بدستور ایک مرکز کا
کام دے رہے اور اس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو کسی نہ کسی طرح ایک لڑی میں
پروئے رکھا ۔ اس نظام میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ضرورت اس بات کی تھی
انہیں ختم کرکے اس کی مرکزیت کو باقی رکھا جاتا اور اسے نئی صورت حال سے
نمٹنے کے لئے مؤثرطور پر کام میں لایا جاتا ، لیکن مغربی تہذیب سے بری طرح
شکست کھائے مرعوب ذہنوں نے ان خرابیوں کے ازالے کے بجائے خلافت عثمانیہ پر
ہی ہاتھ صاف کرنا شروع کردیے ، یہاں تک کہ کمال اتاترک نے اسلامی خلافت کو
ختم کرکے ملک کو ایک لادینی ریاست کے اندھیرے میں دھکیل دیااور اس کی ماضی
کی شان دار لہلہاتی اسلامی تاریخ کو مسخ کرکے رکھ دیا ، اسی کو شاعر مشرق
علامہ اقبال نے اپنے درد بھرے لہجے میں کہا:
چاک کردی’’ ترک ناداں ‘‘نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
کمال اتاترک کے سیکولر انقلاب کے بعد اسلامی قانون اور شریعت کو ملک سے بے
دخل کرکے وہاں سوئٹزرلینڈ کا کا دیوانی ، اٹلی کا فوج داری اور جرمنی کا
تجارتی قانون نافذ کردیا گیا ۔ دینی تعلیم ممنوع قرار دے دی گئی ۔ پردے کو
قانون کے خلاف قراردے دیا گیا ۔ درس گاہوں میں مرد و زن کا مخلوط نظام
تعلیم شروع کرادیا گیا ۔ عربی رسم الخط کے بجائے ترکی زبان کے لئے لاطینی
رسم الخط کو لازمی قرار دے دیا گیا ۔ عربی زبان میں اذان دینے پر پابندی
لگادی گئی ۔ترک قوم کا اسلامی لباس مغربی نیم عریاں لباس میں تبدیل کردیا
گیا ۔ترکوں کے لئے ہیٹ کا استعمال لازمی قرا دے دیا گیا اور اس غرض کے لئے
ایک خون ریز جنگ لڑی گئی ، جس میں ترکوں کے سروں پر ہیٹ رکھنے کے لئے نہ
جانے کتنے سر اتارے گئے؟ ۔
کمال اتاترک نے یہ تمام تر تبدیلیاں محض اس خیال سے کی تھیں کہ ترک عوام
اپنے ماضی سے کلی طور پر کٹ کر اپنا رشتہ مغربی تہذیب سے جوڑ لیں ۔ اس کا
خیال تھا کہ اس طرح ترکی ملک معاشی اور سیاسی ترقی کی منزلیں بڑی تیزی سے
طے کرسکے گا ۔ آج کمال اتاترک کے لائے ہوئے اس سیکولر انقلاب کو تقریباً
ایک صدی بیت چکی ہے لیکن ترکی میں آج سے پندرہ برس قبل تک ماسوائے چند
وقفوں کے وہی سیکولرذہن حکمرانی کرتا رہا ہے جو بحیثیت مجموعی کمال اتاترک
کا ذہن تھا ۔ چنانچہ ترکی کے موجودہ صدر طیب رجب اردگان کے خلاف حالیہ
ناکام فوجی بغاوت اسی اتاترک سیکولر ذہنیت کی حامی تھی ۔
کمال اتاترک نے ترکی ملک پریورپی اور مغربی تہذیب کے تمام اثرات کو نافذ
کرنے کے لئے تعلیم اور ذرائع ابلاغ سے لے کر جبر و استبداد تک ہر حربہ پورے
جوش و خروش سے آزمایا ہے ۔ لیکن اگر ترکی معاشرے پر کمال اتاترک کے اس
سیکولر انقلاب کے اثرات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت خوب اچھی طرح کھل
کر سامنے آجاتی ہے کہ بڑے بڑے شہروں کی حد تک تو یہ سیکولر انقلاب فحاشی و
عریانی کو یورپ کی سطح تک لانے اور لوگوں کا لباس اور رسم الخط بدلنے میں
بے شک کامیاب رہا ہے ، لیکن جہاں تک ملک کے بنیادی مسائل کا تعلق ہے ان میں
کمال اتاترک ذہنیت کی یہ طویل ترین حکمرانی اسے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں
پہنچاسکی ۔ ترکی کے مسلمانوں کی بھاری تعداد فطرتی طور پر اس سے پہلے بھی
کمال اتاترک کی اس روش کی ہم نوا نہیں تھی جو اس نے اسلام کے خلاف اختیار
کی تھی ، لیکن اس کے اس انقلاب کے تقریباً ایک صدی کے نتائج کو آنکھوں سے
دیکھنے کے بعد اب وہاں خاص طور پر احیائے اسلام کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں
۔
یاد رہے کہ ایک مرتبہ ایک مقام پر کمال اتاترک نے العیاذ باﷲ! قرآن مجید کا
نسخہ شیخ الاسلام کے سر پر دے مارا تھا ، وہاں اب الحمدﷲ! قرآن کریم کی
تعلیم کے سینکڑوں ادارے قائم ہوچکے ہیں ۔ جہاں عربی زبان میں اذان دینے پر
پابندی لگائی گئی تھی، وہاں اب پورا شہر اذانوں کی آواز سے گونج رہا ہے ۔
جہاں خواتین کے لئے پردہ کرنا جرم قرار دیا گیا تھا، وہاں اب خواتین مکمل
پردے میں نظر آتی ہیں ۔ اور اب اگر اﷲ تعالیٰ نے خیر کی توانشاء اﷲ! اسلام
پسند مثالی ترکی صدر طیب رجب اردگان ترکی ملک کو بچے کھچے سیکولر ترکی سے
نکال کر مکمل اسلامی ترکی کی راہ پر گامزن کردیں گے اور ترکی کا شمار بھی
انشاء اﷲ! اسلامی ممالک کی صف اول میں ہونے لگے گا ۔ |
|