ایک بادشاہ تھا ۔۔۔ ہمارا تمھارا خدا
بادشاہ ۔۔۔ بادشاہ کو اپنی سپاہ پر بہت ناز تھا اس نے سپاہیوں کو اپنے بچوں
کی طرح پالا پوسا ، دشمن جب حملہ آور ہوتا تو فوج ہی اسے بچاتی ارد گرد کی
سلطنتوں کو بھی معلوم ہو گیا تھا کہ بادشاہ کی عسکری تعداد کم ہے لیکن ہے
بہت طاقت ور ، اسی لئے تو انہوں نے ایک دو مہم جوئی کرنے کے بعد اس کی طرف
میلی آنکھ سے نہیں دیکھا ۔ بادشاہ کے دل سے بھی رفتہ رفتہ دشمن کا خوف ختم
ہوا تو اس نے رعایا کی طرف توجہ دینا شروع کی اور چند سال بعد ہر طرف
خوشحالی ہی خوشحالی نظر آنے لگی پھر ایک دن کسی نے بادشاہ کے کان میں یہ
بات ڈال دی کہ آپ کا دشمن تو ہے کوئی نہیں تو پھر اس سپاہ اور سپاہیوں کی
بھلا کیا ضرورت ہے مفت میں بیٹھ کر روٹیاں توڑ رہے ہیں فوج ختم کریں اور
خزانہ بچائیں بادشاہ چونکہ کان کا کچا تھا بات دل میں بٹھا لی لیکن فوج ختم
کرنے کے بجائے اسے سلطنت کے اندر مختلف کاموں پر لگا دیا کبھی جوان درخت
کاٹنے لگتے تو کبھی درخت لگانے لگتے کبھی باغ بنتے کنویں کھودے جاتے نہریں
بنائی جاتیں تو کبھی محلات اور عالی شان عمارتیں کبھی پہاڑ توڑے جاتے تو
کبھی پل پہ پل بنانے کا شاہی حکم نامہ ملتا اور تو اور جب کوئی کام نہ بچا
تو فصیل شہر کے اندرونی حصوں کی صفائی پر لگا دیا ۔۔۔ اب کہاں وہ زور آور
جوان جس کے رعب ،دبدبے اور طنطنے سے دشمن پر ہیبت طاری ہوتی تھی اور کہاں
بھنگیوں کا مریل سا کام ۔۔۔۔۔ آخر جری جوان بھی مریل ہونے لگے دشمن کو
نشانہ بنانے والے جرثوموں اور مکھی مچھروں کو اپنا دشمن سمجھ بیٹھے اور اسی
ناسمجھی میں یہ بھول بیٹھے کہ ان کا اصل دشمن ہے کون ؟ اور پھر ہوا وہی جس
کا ڈر تھا کہ پڑوس کی ایک انتہائی کمزور سلطنت نے حملہ کر دیا اور بادشا ہ
کو ملک بدر کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
منی پاکستان کے کپتان (جن کے ہٹانے کا دبئی گروپ نے اٹل فیصلہ کرلیا ہے
)بھی بادشاہ ہیں ان کے نزدیک سپاہ بے کار ہے اور ویسے بھی ان کے بڑے تو شہر
اقتدار میں فوج کے خلاف کافی اول فول کہہ چکے ہیں اور پھر خود ہی ڈر کر
کبھی امریکا بھاگ جاتے ہیں تو کبھی لندن اور دبئی ۔۔۔ موصوف ان دنوں دبئی
میں ہیں جہاں انہوں نے کشمیر کے حالیہ انتخابات میں عبرتناک شکست کے بعد
پیپلز پارٹی کے چیئرمین جو اتفاق سے ان کے فرزند ارجمند بھی ہیں کو بلا لیا
ساتھ میں سائیں بھی دبئی یاترہ کے لئےگئے ( جہاں ان کی اپنی ہی لنکا ڈوب
گئی) اب یہ رینجرز کو پولیس کے اختیارات دینے سے متعلق فیصلہ کریں گے۔ واضح
رہے کہ کراچی ڈویژن میں رینجرز کے خصوصی اختیارات 21 جولائی کو ختم ہو گئے
تھے جس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ اور کور کمانڈر کراچی بھی سندھ حکومت سے
کہہ چکے ہیں کہ اختیارات میں توسیع کردی جائے ۔پیپلز پارٹی یہی حرکت چند
مہینے پہلے بھی اسی طرح کی صورتحال میں کر چکی ہے مشیر اطلاعات سندھ جو
اپنے نام کی طرح بھیی مولا بخش ہی لگتے ہیں نے ماضی کی طرح اس بار بھی وہی
جملہ دہرایا کہ اختیارات دینے میں ایک دو دن کی تاخیر سے قیامت نہیں آ جائے
گی حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ رینجرز کو اختیارات مل جائیں گے لیکن اس
دوران سیاست کی ہنڈیا بیچ چوراہے پکانے بھی ان سیاست دانوں کا پرانا وتیرہ
ہے ۔
رینجرز سے متعلق کسی نے کہا کہ انہیں شہر قائد کی صفائی پر لگا دو کہ سائیں
جی جنہوں نے جو تین روز میں شہر کو صاف کرنے کا حکم دیا تھا وہ تو ہوا ہو
گیا تو اس کا حل یہی ہے کہ رینجرز کے ذمے یہ کام لگا دیا جائے یعنی ایک تیر
سے دو شکا ر۔۔۔۔ لیکن پھر شاید سائیں جی کو بادشاہ کا انجام یاد آ گیا
توانہوں نے صفائی مہم کو ایک سے دو مہینے کی توسیع دے کر اپنے چوڑے ماتھے
کے اس ٹیکے کو قدرے دھندلا دیا جو ایک خاص موقع پر لگ جایا کرتا ہے ۔۔۔
بہرحال انہیں اب دن میں خواب دیکھنےکی عادت ختم کردینی چاہئے ویسے بھی ان
کے اقتدار کا ہما اب اڑنے ہی والا ہے ۔۔ادھر رینجرز اختیارات میں توسیع نہ
ملنے پر تاجر برادری اور لیاری کے عوام بھی سڑکوں پر آ گئے یہ بھی سننے میں
آیا ہے کہ سندھ سرکار کی سکیورٹی پر مامور رینجرز اہلکاروں کو واپس بلا لیا
گیا ۔۔۔۔۔۔ خیر جتنے منہ اتنی باتیں
سوچنے کی بات ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے سلامتی کے اداروں کے ملازمین کو
صفائی مہم پر لگا دیا جائے تو یہ کتنے افسوس اور شرم کا مقام ہو گا وہ جو
دشمن سے ہزار سال تک لڑنے کی باتیں کرتے تھے وہ اپنی فوج کو چوک اور
چوراہوں کی صفائی میں جھونک دیں گے؟ چھی چھی چھی ۔۔۔جناب آپ سندھ پر مسلسل
نو سال سے حکومت کر رہے ہیں دو سال بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں بھی آپ کو
ملے ۔۔۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دوست اور ان کی آخری نشانی ہیں کیا آپ سے اب
تک بیوروکریسی کنٹرول نہیں ہو رہی یا پھر بلدیہ میں ایسی بلائیں آ گئی ہیں
جن پر آپ کا بس نہیں چلتا۔۔۔۔خدارا اس قوم پر رحم کریں اب ہر جگہ ڈاکڑ عاصم
اور اسد کھرل جیسے لوگوں کو بٹھانے اور چلانے کا وقت نہیں رہا ۔
کراچی روشنیوں کا شہر تھا لیکن اب اسے کچرا کنڈی بنا دیا گیا ہے افسوس ہے
کہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کا ایکا کسی چھوٹی جماعت کو آگے آنے کا موقع فراہم
کرتا ہے نہ نئی قیادت کو پروان چڑھنے دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے
کہ اقتدار میں وہی آتے ہیں جن کی سو سے زائد فیکٹریاں ہیں یا پھر جن کی
نواب شاہ اور اس کے ارد گرد اتنی زمین ہے کہ ٹرین صبح کو چلے تو شام تک بھی
اس کی حد کو نہیں پہنچ سکتی ایسے میں ارسطو یاد آتا ہے کہ اس سے کسی
نےپوچھا کہ ریاست کی حد کتنی ہونی چاہئے ؟ جواب ملا ۔۔۔ تاحد نظر ۔۔۔
خورشید شاہ کی بھی سنئے جو موسمی سیاست دان تو نہیں۔۔۔ سدا بہار ہیں لیکن
اب ان کی یہ صدا ہضم نہیں ہوتی کہ اندرون سندھ کے حالات ٹھیک ہیں رینجرز کی
یہاں پر نہیں صرف کراچی میں ضرورت ہے ۔ بابا۔۔۔۔۔ 2 کروڑ کے شہر میں رینجرز
کے خوف سے اب اکا دکا وارداتیں ہو رہی ہیں آ پ اندرون سندھ میں ہونے والے
جرائم پر نظر ڈالیں تو رونگٹیں اور کان دونوں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔اغوا برائے
تاوان ،ڈکیتی ،راہزنی اور عصمت دری کے جو واقعات صوبے بھر میں ہو رہے ہیں
اس کو آپ حالات کا ٹھیک ہونا کہتے ہیں تو پھر ایسی باخبری پر ماتم کرنے کو
ہی دل چاہتا ہے۔
سندھ میں سکہ چلتا ہے تو پیپلز پارٹی کالیکن یہ کیا۔۔۔۔۔۔ کہ کئی دہائیوں
کے باوجود روشنیوں کے شہر کو روشنی نہ لٹائی جا سکی اور زبان خلق پر کرپشن
کی جو داستانیں ہیں وہ ایسے ہی نہیں ہیں، ا س کی تازہ مثال گجر اور پکچر
سمیت دوسرے نالوں کے کنارے تجاوزات کی ہیں اسے قریب الچل سائیں سرکار نے
یوں ہی قانونی نہیں قرار دیا ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت نے ان مکانوں اور
دکانوں کو لیز پر دے رکھا ہے اور یہ انکشاف تب ہوا جب سرکار بھری برسات میں
کرینیں لے کر یہاں پہنچیں تو ایک مکان گرنے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا بس
پھر کیا تھا جو بھی اینٹ اٹھاؤ نیچے سے کرپشن کے سپولئے برآمد ہونے لگے۔۔۔
صفائی مہم میں کس نے کس کی جیبیں صاف کیں سب کچھا چٹھا کھل کر سامنے آ گیا
۔
تو جناب شہر کی صفائی آپ سے ہوتی نہیں، بل بورڈ آپ نہیں ہٹا سکتے ، درخت
کاٹنا آپ نہیں بند کرسکتے، ۔ امتحانات میں نقل آپ سے ختم نہیں ہوتی، ٹارگٹ
کلرز کا آپ قلع قمع نہیں کرسکتے ، اقتدار کے ایوانوں میں لانے والوں کےلئے
آپ کچھ نہیں کرتے اور خود اپنی لفٹ تک میں ایک ٹن کا سپلٹ اے سی لگا کر آپ
اور آپ کے بڑے کہتے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ۔۔۔۔۔۔ نہ وڈے سا ئیں
جی ناں ۔۔۔ |