کابل خود کش دھماکے اور خطے میں’’داعش‘‘ کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ
(Mufti Muhammad Waqas Rafi, )
افغانستان میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے
تعاون سے بجلی کے اہم منصوبے پر کام جاری ہے ۔ جس میں ترکمانستان ،
ازبکستان ، افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک شامل ہیں ۔ اس منصوبے کا
ابتدائی روٹ ’’پامیان ‘‘ صوبے سے ہوکر گزر رہا تھا ، جہاں ’’ہزارہ برادری
‘‘ کی اکثریت آباد ہے ۔ اس سلسلے میں ’’ہزارہ برادری ‘‘کا مطالبہ حکومت سے
یہ تھا کہ ترکمانستان سے آنے والی بجلی کی ٹرانسمیشن لائن’’ ہزارہ آبادی‘‘
والے دو صوبوں سے بھی گزاری جائے ۔ لیکن 2013ء میں اس وقت کی موجودہ حکومت
نے اس کا راستہ تبدیل کردیا تھا ، جس پر ’’ہزارہ برادری ‘‘ نے روٹ کی
تبدیلی کو امتیازی سلوک قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیاتھا اور حکومت کے
خلاف مظاہرے بھی کیے تھے ۔اور اب بجلی کے مذکورہ منصوبے کے روٹ کی تبدیلی
کے خلاف ’’ہزارہ برادری ‘‘ کا یہ دوسرا احتجاج تھا، جس میں پہلے سے ہی پر
تشدد واقعات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا ۔چنانچہ جب مظاہرہ شروع ہوا تواس
کے شروع ہوتے ہی مظاہرین کے درمیان تین خود کش حملہ آور داخل ہوگئے جن میں
سے پہلے ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا ، دوسرے کی خود کش جیکٹ پھٹ نہ
سکی، جب کہ تیسرے حملہ آور کو سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا
۔مظاہرے کے دوران خود کش دھماکوں کے نتیجے میں 91 افراد جاں بحق اور 236
افراد زخمی ہوئے ۔ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول
کرلی، جب کہ طالبان نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے ۔
افغانستان میں گزشتہ روز(یعنی اتوارکا دن ) مختلف حیثیتوں سے بڑی مصروفیت
کا دن گزرا ہے۔ ایک تو اس دن سرکاری سطح پر’’ یوم سوگ‘‘ منایا گیا ، دوسرے
اس دن خود کش دھماکوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین کی گئی اور تیسرے
اس دن ’’ہزارہ برادری‘‘ کے لوگ ہسپتالوں اور مردہ خانوں میں مسخ شدہ لاشوں
میں اپنے لاپتہ ورثاء کو تلاش کرتے رہے ۔
افغانستان کے حالات گزشتہ کئی عشروں سے خراب چلے آرہے ہیں ۔ اور موجودہ
حکومت نے ان بگڑتے ہوئے حالات کو درست کرنے کا کئی بار عندیہ دیاہے ،لیکن
آج تک اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا جس سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں
اس حوالے سے کافی زیادہ پیچیدگیاں اور الجھنیں پیدا ہوچکی ہیں ، جس کے سبب
افغانستان کی خراب صورت حال افغان حکومت کے قابو میں نہیں آرہی اور وہ اس
کے لئے روز افزوں مسلسل پریشانی کا باعث بنتی چلی جارہی ہے ۔
امریکی اور نیٹو افواج اگرچہ افغان حکومت کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف
کار روائیاں کر رہی ہیں مگر اس کے باوجود دہشت گردی کا عفریت کسی طرح بھی
ان کے ہاتھ نہیں آرہا ، بلکہ کم ہونے کے بجائے الٹا اور زیادہ پھلتا پھولتا
جارہا ہے ۔اور نیٹو کے خلاف بر سر پیکار ان دہشت گرد ، جنگ جوؤں کی کار
روائیوں سے یہ واضح ہورہاہے کہ وہ اب بھی اپنی گوریلا کار روائیوں کے ذریعے
حکومت اور مخالفین کو شدید نقصان پہنچانے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ پڑوسی ملک افغانستان میں عالمی دہشت گرد تنظیم ’’داعش‘‘
کا بڑی تیزی سے بڑھتا ہوا اثر و رسوخ پاکستان سمیت پورے خطے کے لئے خطرہ
بنتا جارہا ہے ، جس پر قابو پانے کے لئے ابھی سے سنجیدہ کوششیں کرنے اور
ہوش کے ناخن لینے کی اشد ضرورت ہے ۔اور ’’آب چو از سر گزشت ، چہ یک نیزہ چہ
یک دست‘‘ کا مصداق جب پانی سر سے گزرجائے تو پھر سوائے حسرت و ندامت کے
آنسو بہانے کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آسکتا۔
یاد رہے کہ ’’ہزارہ برادری‘‘ کے خلاف خود کش بم دھماکے سے طالبان کی
لاتعلقی اس امر کا بین ثبوت ہے کہ وہاں پر دہشت گرد، جنگ جوؤں کے بہت سے
دیگر گروہ بھی وجود میں آچکے ہیں ، منجملہ ان میں سے ایک گروہ ’’داعش‘‘ کا
بھی ہے ، جس کے بارے میں چہ می گوئیاں اور قیاس آرائیاں یہ کی جارہی ہیں کہ
اس کی قوت میں روز افزوں ہوشر با اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ اور اس کے
بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ عالمی سطح پر ایک طاقت ور دہشت گرد
تنظیم بن چکی ہے ،جو عراق ٗ شام ٗ سعودی عرب ٗ یمن ٗ افغانستان اور دیگر
بہت سے ممالک میں اپنا اثر رسوخ نافذ کر رہی ہے ۔ ’’داعش ‘‘کا قیام کیسے
ہوا اور کون کون سی قوتیں پس پردہ اس کی مدد کر رہی ہیں ؟ یہ ایک طویل بحث
ہے جس کی تفصیل میں ہم نہیں جاناچاہتے ، تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ
داعش کو طاقت و قوت فراہم کرنے میں اسلام دشمن امریکہ اور یورپی ممالک کا
بڑا ہاتھ ہے ۔ اورایسی اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں کہ جن میں بھارتی حکومت
کا بڑے پیمانے پر جدید ترین اسلحہ ’’داعش‘‘ کو فراہم کر نا ثابت ہوا ہے
۔اُدھر دوسری طرف شام میں بھی ’’داعش‘‘ کی امریکی اور یورپی قوتوں نے خوب
سپورٹ کی ۔ اور اب تو وطن عزیز پاکستان میں بھی ’’داعش‘‘ کے وجود اور ان کے
مذموم عزائم ومقاصد کی آوازیں بلند کی جارہی ہیں ۔
دہشت گردی اس وقت دنیا میں ایک عام مسئلہ بن چکی ہے ۔ اور اس سلسلے میں
حیران کن امر یہ ہے کہ امریکہ سمیت دیگر طاقت ور ممالک دنیا سے دہشت گردی
کے خاتمے کا زبانی کلامی اظہار تو کر رہے ہیں ، تاہم پس پردہ اورا ندرون
خانہ بہت سی دہشت گرد قوتوں کو وہ بھر پور امداد بھی مہیا کر رہے ہیں ۔ ان
کی اس دوغلی پالیسے کے نتیجے میں دنیا میں دہشت گردی کا تیزی کے ساتھ بڑھتا
ہوا اثر و رسوخ کم ہونے کے بجائے روز بروز پھلتا پھولتا ہی جارہا ہے ۔
’’ داعش‘‘ تنظیم کوئی اتنی بڑی اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس خوفناک قوت
بھی نہیں کہ جس کا وجود عنقاء نہ کیا جاسکتا ہو ، تاہم اس وقت ضرورت اس بات
کی ہے کہ اگر امریکہ سمیت دیگر طاقت ور ممالک دنیا سے دہشت گردی کا کلی طور
پر مکمل خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو اس سلسلے میں ان تمام ممالک کو ایک پلیٹ
فارم پر متحد ہوکر ہوش کے ناخن لیتے ہوئے د ل سے تہیہ کرکے دہشت گردی کا
مقابلہ کرنا ہوگا اور اس کے خلاف عملی میدان میں اترکر اس کو پسپا کرنا
ہوگا، تب کہیں جاکر دہشت گردی کا ’’جن‘‘ بوتل میں قابو ہوگا۔
|
|