ترک اور پاکستانی عوام

 ترکی میں فوجی بغاوت کوئی خوش آئین بات نہیں۔ اردگان کی صدارت میں ترکی میں ایک تندرست جمہوریت قائم ہے۔ اس بات کا ثبوت ترکی کی عوام نے ۱۵ جولائی ،پیر کی رات دے دیا تھا۔ لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ آخر ایسے واقعات اسلامی ممالک میں ہی کیوں پیش آتے ہیں۔ غدار ہم میں سے ہی کیوں اُٹھتے ہیں۔

صدر اردگان کا کہنا ہے کہ اس باغی عسکری گروہ کی سرپرستی امریکہ میں رہایش پذیر، مسلم مذہبی رہنما فتح اﷲگولن کر رہے تھے۔ لیکن گولن صاحب نے اس الزام کو جھوٹا قرار دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے، کہ وہ ہر قسم کی غیر جمہوری پیش قدمی کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن اُن کا یہ بھی ماننا ہے، کہ ترکی میں فی الوقت جمہوریت نہیں، بلکہ ایک پارٹی ، یعنی، اے کے پی، کی حکومت ہے۔ اور اردگان ایک جمہوری نہیں،بلکہ آمرانہ صدر ہیں۔ جو قانون کی خلاف ورزی کر تے ہوئے،بلا کسی شواہدکے اُن کی تنظیم کے پیروکاروں کو گرفتا ر کررہے ہیں۔ گولن کی تنظیم ہزمت کے نام سے جانی جاتی ہے، جو اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں سینکڑوں سکول، ٹیویشن سنٹر، اہسپتال اورمختلف فلاحی ادارے چلا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ترکی کا سب سے بڑا اخبار، روزنامہ زمان بھی یہی تحریک نکالتی تھی۔ جس پر چار مارچ ۲۰۱۶ کو اردگان کی حکومت نے قبضہ کر لیا تھا۔

یورپ کے دوسرے ممالک اور او باما مامو بھی صدر اردگان کی اس حرکت پر خوش نہیں۔ اوباما مامو اور صدر اردگان میں پہلے بہت دوستی تھی، اور یہ اکثر فون پر لمبی لمبی گپیں ہانکا کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے اردگان صاحب طاقت پکڑ رہے تھے، اُن کے تیور بھی کچھ بدلنے شروع ہو گئے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اوباما مامو فون کرتے اور صدر اردگا ن فون ہی نہ اُٹھاتے ۔ شاید غصہ میں آکر اوباما مامو نے یہ شرارت کی ہو۔

صدر اردگان نے اوباما مامو سے درخواست کی ہے کہ وہ گولن صاحب کو دہشت گردی کے حوالے سے ترکی کے حوالے کر دے۔ لیکن ماموکا کہنا ہے کہ یہ کام عدالتوں اور سیکورٹی ایجنسیوں کا ہے، ان کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ واقع اوباما مامو کا کسی کام سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اوبا ما مامو کی اپنے گھر میں کچھ نہیں چلتی ، ملک میں کیا چلے گی۔

ہمارے کچھ لوگوں کا خیال ہے، کہ پاکستان میں بھی اگر کوئی بیرونی طاقت مداخلت کرنے کی کوشش کرے گی، تو پاکستانی عوام بھی سڑکوں پر نکل آئے گی۔ ٹینکوں کے آگے لیٹ جائے گی۔ سینوں پر گولیا ں کھائے گی۔ لیکن جمہوریت کو ہر قیمت پر بچائے گی۔ اس کے برعکس کچھ کا ماننا ہے، کہ عوام باہر تو نکلے گی، لیکن جمہوریت کے دفاع کے لئے نہیں، بلکہ فوج کے استقبال کے لئے۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے،کہ خدانخواستہ اگر ایسی صورت حال پیش آتی ہے، تو پاکستانی عوام باہر ہی نہیں نکلے گی۔ کیونکہ پاکستانی عوام کے پاس اور بہت سے کام ہیں کرنے کو، یعنی کھانا، پینا، سونا، کھیلنا،میچ دیکھنا ، وغیرہ وغیرہ۔ ہم گھر بیٹھ کر جمہوریت کو بچائیں گے۔ بوڑھے سجدوں میں گرجائیں گے۔ نوجوان سوشل میڈیا پر جمہوریت کے دفاع میں مہم چلائیں گے۔ اور ہم جیسے جمہوریت کے خیرخواہ گھر بیٹھ کر قلم سے جہاد کریں گے۔ اتنی فرصت کہاں ہے کہ خوامخوہ باہر نکل کر جمہوریت بچائیں۔

ویسے بھی ہزاروں ، لاکھوں لوگ رات کو سڑکوں پر ہی تو سوتے ہیں۔ آخر یہ لوگ کس دن کام آئیں گے؟ لیکن کوئی فٹ پاتھوں پر سونے والوں سے بھی تو پوچھے کہ وہ جمہوریت چاہتے ہیں، یا آمریت؟ یہ لوگ درحقیت ایسی جمہوریت اور ایسی آمریت پر لعنت بھی نہیں بھیجتے ، جس میں ان کو دو وقت کی روٹی اور سر ڈھانپنے کے لئے ایک چھت بھی نہ ملتی ہو۔ ان کے لئے جمہوریت اور آمریت میں کوئی فرق نہیں۔ جمہوریت میں ایک خاندان، اور آمریت میں ایک ادارہ ان پر حکومت کرتا ہے۔

اگر تم واقع چاہتے ہو، کہ لوگ جمہوریت کے دفاع کے لئے سڑکوں پر نکلیں، تو پہلے تمہیں ترکی کی طرح اصلی جمہوریت قائم کرنا ہوگی۔ تمہاری جمہوریت تو یوں بھی بیمار رہتی ہے۔ ذرا سی گرم ہوا چلے، جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ جمہوریت بچاو جمہوریت بچاو کے بھاشن شروع ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت جمہوریت بچے گی، تو تم بچو گے۔ لیکن لگتا ہے کہ اب تم زیادہ دیر نہیں بچو گے۔ کیونکہ پاکستان اور ترکی میں بہت فرق ہے۔ ترکی یورپ میں ہے، اور پاکستان ایشیا میں۔ مزید یہ کہ، ترکی میں ایک قوم، ترک رہتی ہے۔ اور پاکستان میں ایک قوم نہیں، بلکہ قومیں رہتی ہیں، جن کو ایک دوسرے کے ساتھ زبردستی ،سوتیلے بھائیوں کی طرح رہنا پڑ رہا ہے۔ یہ قوم پرستی ہر بار الیکشن میں واضح ہو جاتی ہے۔ سندھی، سندھیوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ مہاجر ، مہاجر کو ووٹ دیتے ہیں۔ پٹھان ، پٹھان کو، اور پنجابی ، پنجابی کو۔ حتٰی کہ کشمیریوں نے بھی ثابت کردیا کہ وہ ایک کشمیری کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں۔

صدر اردگان پر چاہے ، کرپشن کے الزاما ت ہیں۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ عوام اُن کے ساتھ ہے۔ لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ساری عوام آپ کے ساتھ نہیں۔ اگر ایک حصہ میں لوگ آپ کے لئے باہر نکلیں گے، تو دوسرے حصے میں لوگ مٹھایاں بانٹ رہے ہوں گے۔ ویسے بھی پاکستانی عوا م پا گل تھوڑی ہے۔ وہ ایسی جمہوریت کوکیا بچائیں گے، جو خود پہلی فلائیٹ سے ہی ملک بدر ہو جائے گی۔
Vicky Baloch
About the Author: Vicky Baloch Read More Articles by Vicky Baloch: 6 Articles with 4048 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.